کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

شاہد سردار  اتوار 12 مارچ 2017

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جمہوری نظام کا دار و مدار مردم شماری پر ہی ہوتا ہے اور اس کے بغیر انتخابات کا عمل عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہوتا ہے۔ افسوس گزشتہ 18 برسوں سے کسی کو بھی عوام کی اصل تعداد کا اندازہ نہیں اور حکومتی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں۔

پاکستانی سیاست اور اس کے نظام اقتدار کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کی اشرافیہ بیرونی وسائل اور رقوم خواہ وہ بیرونی ترسیل زر ہو یا عطیات میں حاصل کردہ دولت پر ہی انحصار کرتی ہے۔ پاکستان ایسا گاہک ہے جو ایک سفاک اعلیٰ طبقے کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے جو تمام بیرونی امداد کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرتا ہے۔ کاش ہمارے ملک کے ارباب اختیار اور ماہرین معاشیات یہ جان پاتے کہ سرمائے یا اثاثوں کا اصول صرف دولت جمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ مزید قوت مول لینے کے لیے بھی ہوتا ہے۔

یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس میں پورے ملک میں 15 مارچ سے بیک وقت مردم شماری کرانے کا متفقہ فیصلہ کرکے بلاشبہ طویل مدت سے موخر ہوتی چلی آنے والی ایک ناگزیر قومی اورآئینی ضرورت کی تکمیل کا اہتمام کیا ہے۔ یہ پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری ہوگی۔اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ مردم شماری جدید دور میں دنیا کے ہر ملک کی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیرکسی بھی شعبہ زندگی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔

افرادی قوت ہی کسی ملک کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے۔اس کے حالات بہتر بناکر ملکی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ مردم شماری محض لوگوں کی تعداد گننے کا نام یا کام نہیں بلکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ ملک کی آبادی میں اور مختلف صوبوں اور علاقوں میں عمر، جنس، تعلیم اوراہلیت کے اعتبار سے لوگوں کی کیفیت یا صورتحال کیا ہے؟

قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی انتخابی حلقہ بندی مردم شماری کی ہی بنیاد پر ممکن ہو پاتی ہے اس لیے سیاسی و جمہوری نظام کے استحکام کے لیے یہ ایک لازمی ضرورت ہے جس پر 18 برسوں کے بعد عمل کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ تعلیم، صحت، معیشت، تجارت، مواصلات، رسل و رسائل غرض زندگی کا کوئی پہلو اور کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے لیے آبادی کے بنیادی کوائف کی قابل اعتماد معلومات کے بغیر اس کی حقیقی ضروریات کے مطابق کوئی ترقیاتی کام کیا جاسکے۔

دنیا کے وسائل محدود ہونے اور آبادی کے لامحدود ہونے کے باعث خوراک اور بنیادی و طبی سہولتوں کی کمیابی جیسے لاتعداد مسائل جنم لے رہے ہیں اور اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک اس مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی 7 ارب سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگلے 34 برسوں یعنی 2050 تک دنیا کی آبادی میں 30 سے 35 فیصد تک اضافہ ہوجائے گا اور یہ 10 ارب کو چھو رہی ہوگی۔

اگر آج کے دور کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس وقت جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے جہاں 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ اس کے بعد دہلی (بھارت) کا نمبر ہے جہاں ڈھائی کروڑ افراد بستے ہیں، تیسرے نمبر پر شنگھائی (چین) ہے جس کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ آبادی والے شہروں کی اس فہرست میں ہمارا کراچی بارہویں نمبر پر آتا ہے جس کی آبادی اندازاً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ لیکن اگر ان اعداد و شمار کو 1990 کے حاصل کردہ اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں آبادی بے مہار انداز میں بڑھتی جا رہی ہے۔

پوری دنیا میں آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی، شہروں کے وسائل میں اضافہ، ٹریفک کے لیے جامع پلان اور طرز رہائش میں تبدیلی جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر ہم اب تک ایسے انتظامات سے کوسوں دور ہیں۔ میگا سٹی کراچی میں شناختی کارڈ بنوانے کے سینٹرز پر عوامی ہجوم اور سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام کی بدترین صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ یہ شہر اپنے وسائل کے تناسب سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اگلے 35 سالوں میں جب اس شہر کی آبادی دگنی ہوچکی ہوگی توکیا عالم ہوگا؟

پاکستان میں 15 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرے گی کیونکہ عوامی مفاد کے تمام اقدامات اس کے تابع ہوتے ہیں۔ ہر ذی شعور اس بات سے آگاہ ہے کہ صوبوں اور علاقوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا انحصار بھی درست مردم شماری پر ہی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی معاشی تعلیمی اور دیگر شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کے لیے کسی ملک کی آبادی کے بارے میں ضروری کوائف کے طالب ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی پاکستان میں مردم شماری میں مسلسل تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا جاتا اور اس قومی ضرورت کو جلد ازجلد پورا کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ کونسل کے منظور کردہ نظام الاوقات کے مطابق مردم شماری 15 مارچ سے شروع ہوکر اسی سال جون کے مہینے تک مکمل کرلی جائے گی جب کہ ضلع وار معلومات کے مرتب کیے جانے سمیت مردم شماری کے دوسرے پہلوؤں پر کام دسمبر 2017 تک مکمل ہوپائے گا۔

مردم شماری کے عمل سے جہاں وطن عزیز میں عام انتخابات میں ووٹروں کا احسن انداز سے اندازہ ممکن ہوسکے گا وہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس وقت اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ اور صوبوں بالخصوص بلوچستان کی نمائندگی سے متعلق جو بل زیر التوا ہیں، مردم شماری کے مکمل نتائج عام انتخابات سے کئی ماہ پہلے منظر عام پر آجانے سے ان بلوں پر فیصلے کیے جاسکیں گے جو ان معلومات کی عدم دستیابی ہی کی وجہ سے موخر کیے گئے ہیں۔

مردم شماری سے اندرون ملک نقل مکانی دیہی اور شہری آبادی کا درست تناسب، شہروں کو منتقلی کے رجحان اور ملک کے مختلف حصوں میں بڑی تعداد میں مقیم غیر ملکی باشندوں کے بارے کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد و شمار سامنے آئیں گے اور انتخابی حلقوں کی حد بندی بھی درست طور پر ہوسکے گی جو آئینی تقاضا بھی ہے۔

حکومت کی جانب سے مردم شماری مرحلہ وار کرانے کی تجویز مسترد کرکے پورے ملک میں بیک وقت کرانے کا فیصلہ بہت ہی اچھا ہے، دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے اور قابل اعتبار اعدادوشمار کے حصول کے لیے اسے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں سیاسی یا دیگر مفادات کے لیے لوگوں کا ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوکر اعداد وشمار پر اثرانداز ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

ضرورت اب اس امر کی ہے کہ مردم شماری کے عمل کو مکمل طور پر شفاف اور قابل اعتماد بنایا جائے۔ کسی بھی سطح پر غلط معلومات اور جعل سازی کی کوئی گنجائش نہ رہنے دی جائے، کسی بھی سیاسی، لسانی یا علاقائی گروپ کو اپنے مفادات کے لیے اپنی آبادی کو حقیقی صورتحال سے زیادہ یا کسی اور گروپ کی آبادی کو کم دکھانے کا کوئی موقع فراہم نہ ہونے دیا جائے۔

’’نادرا‘‘ کا تعاون اس مقصد کے لیے یقینا بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا اس سے پورا استفادہ کیا جانا چاہیے۔ مردم شماری کے عملے کا پوری طرح تربیت یافتہ ہونا بھی لازمی ہے۔ انھیں تمام ضروری سہولتیں اور مراعات فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ یہ لوگ پوری لگن کے ساتھ اپنی ذمے داریاں انجام دیں، اس کام میں ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔