بہاولپور کا مقدمہ

اسلم خان  جمعـء 11 جنوری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

بہاولپور صوبے کی بحالی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ پنجاب اسمبلی بھی متفقہ قرار داد کے ذریعے صوبہ بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ بہاولپور کی کہانی خاصی دکھ بھری ہے ، نصف صدی گزر گئی لیکن بہاولپور کے عوام کی تمنائیں حکمرانوں کی بارگاہ میں شرف باریابی نہ پا سکیں۔

مضبوط وفاق کے نام پر حکمرانوں نے بنگالیوں کی عددی اکثریت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا فارمولا ’’ون یونٹ‘‘ میں ڈھونڈا، جس کے تحت 17 دسمبر 1954ء کو دیگر صوبوں کے ساتھ صوبہ بہاولپور کو بھی ون یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔ اس وقت بلوچستان صوبہ موجود نہیں تھا لیکن 30 مارچ 1970ء کو جب یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کر کے صوبے بحال کیے تو بہاولپور کو پنجاب میں ضم کر کے بلوچستان کو صوبہ بنا دیا۔ اس غیر قانونی LFO کو بعد ازاں 1973ء کے آئین میں تحفظ فراہم کر دیا گیا۔

بہاولپور صوبے کی تاریخ اور حقائق کو وقت کی دُھول نے دُھندلا دیا جب کہ حکمران اشرافیہ کی لاتعلقی اور سرد مہری نے اسے فراموش کر کے گم گشتہ داستان بنا دیا۔

ماضی کی پر شکوہ اور شاندار ریاست بہاولپور، آج پاکستان کا پسماندہ اور غریب ترین خطہ بے نور بن چکا ہے، جس کے دکھوں کی داستان سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

پاکستان اور بہاولپور کی تاریخی کہانی حقائق کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
٭تحریک پاکستان کے دوران ریاست بہاولپور نے 52 ہزار پونڈ کی خطیر رقم پیش کی تھی۔
٭قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت کے معاشی اور مالی استحکام کے لیے 10 کروڑ روپے اور ایک ٹن سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا تھا۔
٭ہم تو دامے‘ درمے‘ سخنے ہر طرح سے تیرا سائبان بنے تھے اور مسلح افواج کی تنظیم نو اور بحالی کے لیے سب کچھ نچھاور کر دیا تھا۔
٭یہ ریاست بہاولپور کا منفرد مقام تھا کہ 3اکتوبر 1947ء کو پاکستان سے الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے اور وفاق پاکستان کا حصہ بنی۔
٭یہ منفرد مقام بھی ریاست بہاولپور کو ملا کہ 30اپریل 1951ء کو معاہدہ الحاق میں اہم اضافہ کر کے سابق ریاست کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔
٭واضح رہے کہ اس وقت تک بلوچستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا تھا اس لیے مغربی پاکستان کا چوتھا صوبہ بہاولپور تھا۔
٭1952ء میں صوبہ بہاولپور کی اسمبلی کے پہلے انتخابات ہوئے یہ دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ ان صوبائی انتخابات میں 81 فیصد ارکان متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
٭صوبہ بہاولپور کا مکمل انتظامی ڈھانچہ متعین جغرافیائی حدود کے ساتھ متحرک اور مثالی تھا صوبائی الیکشن کمیشن‘ سیکریٹریٹ‘ محکمے اور وزارتیں‘ بورڈ آف ریونیو‘ پبلک سروس کمیشن‘ ہائی کورٹ اور سرکاری پرنٹنگ پریس موجود تھی جس کے صوبائی ملازمین کی تعداد 40 ہزار سے زائد تھی 1954ء کے مجوزہ آئینی مسودے میں بہاولپور کو صوبے کا درجہ دیا گیا تھا جس میں 50 رکنی سینیٹ میں صوبہ بہاولپور کے لیے 4 نشستیں مخصوص کی گئی تھیں جب کہ قومی اسمبلی میں 7 نشستیں رکھی گئیں‘ بہاولپور اسمبلی کی نشستیں 49 مقرر کی گئیں تھیں۔

٭ون یونٹ کے قیام پر 17 دسمبر 1954ء کو بہاولپور کو ایک باضابطہ معاہدے کے تحت تحلیل کر کے ون یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔
٭اس معاہدے کے تحت صوبہ بہاولپور کو پاکستان میں ضم کیا گیا تھا جس کا پنجاب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
٭انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ون یونٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی صوبہ بہاولپور بھی دوسرے صوبوں کی طرح بحال کر دیا جاتا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خاں نے 30 مارچ 1970ء کو بہاولپور کو ایک غیر قانونی حکم نامے کے ذریعے صوبہ پنجاب میں ڈویژن کے طور پر ضم کر دیا اس طرح قائداعظم محمد علی جناح کے تمام وعدوں اور ریاست بہاولپور سے کیے گئے تمام معاہدوں کو بھلا کر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بہاولپور کی سیاسی قیادت کو اس کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا اور حق و انصاف کے لیے بلند ہونے والی عوامی صدائے احتجاج کو دبا دیا گیا جس کے خلاف بہاولپور متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے عوامی جدوجہد کا آغاز کیا گیا جس میں دو افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جب کہ ہزاروں افراد نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ 1970ء کے عام انتخابات میں 85 فیصد ووٹروں کی عظیم اکثریت نے صوبہ بہاولپور کی بحالی کے لیے کوشاں بہاولپور متحدہ محاذ کے امیدواروں کو کامیاب کرایا۔

٭صوبہ بہاولپور کو بحال نہ کرنے پر متحدہ محاذ کے ارکان نظام الدین حیدر مرحوم اور مخدوم نور محمد ہاشمی مرحوم نے 1973ء کے آئین پر احتجاجاً دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
٭برطانوی راج اور سکھوں کے عہد حکومت میں بھی بہاولپور آزاد و خود مختار ریاست تھی۔1947ء میں ریاست بہاولپور نے وفاقی اکائی کی صورت میں پاکستان سے الحاق کیا تھا اور بعدازاں صوبائی حیثیت میں ون یونٹ میں ضم ہوئی تھی اس لیے آج تک بہاولپور کے عوام اپنی شناخت کے احیاء کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔

٭صوبہ پنجاب کی کل پیداوار میں بہاولپور کا حصہ کپاس میں 44 فیصد‘ گندم 22 فیصد‘ مال مویشی 25 فیصد‘ آم 45 فیصد‘ گنا 19 فیصد اور چاول میں 20 فیصد ہے۔ زرعی پیداوار میں یہ تناسب پنجاب کے کسی بھی دوسرے علاقے سے بہت زیادہ ہے۔

٭یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ 44 فیصد کپاس پیدا کرنے کے باوجود اس علاقے میں ایک بھی ٹیکسٹائل ملز نہیں چل رہی۔
٭بہاولپور ڈویژن جو آبادی میں 13 فیصد ایک چوتھائی رقبے پر پھیلا تھا۔ خواندگی کے نچلے جب کہ غربت کے بلند مقام پر فائز ہے ٭ مالی سال 2012-13ء میں پنجاب کا NFC ایوارڈ میں حصہ 710 ارب روپے تھا جب کہ پنجاب کا بجٹ 782 ارب روپے تھا جس میں سے بہاولپور کو صرف 19 ارب روپے دیے گئے جب کہ آبادی اور وسائل کے تناسب سے اس کا حصہ 102 ارب روپے بنتا تھا۔

٭ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق بہاولپور میں 51 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں جب کہ سارے ملک میں یہ شرح 26 فیصد سے 29 فیصد تک ہے۔ اسی طرح نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بہاولپور میں ملک کے باقی حصوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

٭معاہدے کے مطابق دریائے ستلج کو زندہ رکھنے کے لیے تریموں سے اسلام لنک کینال تعمیر کی جانی تھی لیکن آج اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دریائے ستلج لق و دق خشک صحرا کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک بار پھر دریائے ہاکڑا کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے جس کیوجہ سے علاقائی تہذیب و ثقافت کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس میں زہریلے کیمیاوی مادے شامل ہو رہے ہیں۔ بہاولپور کے نہری نظام کو تین کیوسک فی ہزار ایکڑ کے حساب سے پانی کا حصہ دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے علاقے کی زراعت تباہی کے دہانے پر ہے۔

چولستان کا 64 لاکھ ایکڑ رقبہ نہر ی پانی سے محروم آہستہ آہستہ بنجر ہو رہا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مقابلے کے امتحان میں بہاولپور سے کامیاب امیدواروں کی شرح صرف 2 فیصد رہ گئی ہے جب کہ آبادی کا تناسب 19 فیصد ہے اس طرح پنجاب کی صوبائی حکومت میں بہاولپور کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے جب کہ شرح بے روزگاری میں بہاولپور اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ ان محرومیوں کے ازالے اور ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے 2008ء میں بہاولپور کے علاقے اور پارلیمنٹ میں بیک وقت بہاولپور متحدہ محاذ تحریک کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔ ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے LFO کو 1973ء کے آئین میں حاصل تحفظ کو ختم کرنے کے لیے سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی میدان میں آئے ہیں۔ احمد پور شرقیہ سے تعلق رکھنے والے نیک نام اور درویش صفت بیوروکریٹ جی، ایم درانی مرحوم کے بڑے صاحبزادے علی درانی کا تعلق عام طور پر خیبر پختونخوا سے جوڑا جاتا ہے۔ انھوںنے آئینی ترمیم سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرائی جس کو متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا جس میں ملتان اور ڈی جی خاں کے اضلاع پر مشتمل ایک نئے صوبے کے قیام کی تجویز بھی شامل کی گئی تھی۔

اقتدار کے اعلی ایوانوں میں صوبہ بہاولپور تحریک کی ہل چل کے بعد اس علاقے کی بیش بہا زرعی اور کمرشل اراضی کا نیلام بند کر دیا گیا۔ چولستان میں عالمی اداروں اور شخصیات کو 64 لاکھ ایکڑ اراضی کی بندر بانٹ کا سلسلہ بھی روک دیا گیا ۔

٭مئی 2012ء میں پنجاب اسمبلی بھی متفقہ قرار داد کے ذریعے صوبہ بہاولپور کی بحالی کی حمایت کر چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی قرار داد پر عمل درآمد 18 ویں ترمیم کی روشنی میں پارلیمنٹ کی اخلاقی اور آئینی ذمے داری ہے۔ بہاولپور‘ رحیم یار خاں اور بہاولنگر کی ضلعی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر بہاولپور صوبے کی بحالی کی قراردادیں منظور کیں۔ سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی سیفران کا مئی 2011ء میں اجلاس بہاولپور میں بلا یا گیا جس نے حالات و واقعات اور دستاویزات کے تفصیلی معائنے کے بعد متفقہ طور پر قرار دیا کہ صوبہ بہاولپور کو دوبارہ بحال نہ کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے اور کمیٹی نے حکومت پاکستان سے پر زور سفارش کی کہ صوبہ بہاولپور کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ آج پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں قوم پرست‘ لبر ل اور دانشور صوبہ بہاولپو ر کی بحالی کی پر زور حمایت کر رہے ہیں۔

8 اور 9 جنوری کی شب ریاست بہاولپور کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم مخدوم زادہ حسن محمود بہت یاد آئے۔ جن کے صاحبزادے گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے سارک ممالک سے تعلق رکھنے والے 800 کے قریب ممتاز اخبار نویسوں کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ہمراہ عشائیہ پر مدعو کر رکھا تھا جو خود تو وزیراعظم کے ساتھ ہی چلے گئے بھوکے مہمان کھانا ڈھونڈتے رہے۔ اُن کے عملے نے بد انتظامی اور ناشائستگی کا ایسا مظاہر ہ کیا کہ معزز مہمانوں کے سامنے پاکستان کا قومی وقار اور مہمان نوازی کی روایت سب کچھ مجروح ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔