استحصال اور عورت

حسین مسرت  بدھ 15 مارچ 2017

مانگتا وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، تڑپتا وہ ہے جس کو تکلیف ہو اورانھی حاصلات پہ خوش وہ ہوتا ہے جس کو اپنی کوششوں کی قدر ہواوراہمیت معلوم ہو۔8 مارچ ایک دن نہیں یہ صدیوں کے دکھوں کا نچوڑ ہے۔معاشی، معاشرتی، سیاسی، ثقافتی حقوق کے حاصلات کا جشن منانے کا دن۔ ساری دنیا کی عورتیں یہ دن اپنے حاصلات کی خوشی منانے کے لیے یادگارکے طور پر مناتی ہیں۔ یہ ورکروومن کا دن ہے۔ استحصال اورعورت کبھی الگ ہوئے ہی نہیں۔ عورت کے لڑنے کا ایک محاذ نہیں ہے۔ریاست، سماج، خاندان، تین بہت مضبوط اوربڑے ادارے ہیں جن میں عورت کا استحصال جنسی تعریف کی بنیاد پرہوتا ہے۔

ان بڑے اداروں کے اندراور چھوٹے چھوٹے آپس میں جڑے ہوئے کئی ادارے ہیں جن میں عورت پستی رہتی ہے۔ سب سے پہلے ریاست ذمے دار ہوتی ہے کہ تمام افرادکو برابرکے حقوق دے ریاست اس برابری کی پابند ہوتی ہے۔آئین میں بظاہر جنسی تعریف نظرنہیں آتی لیکن کچھ قوانین ایسے ہیں جو کہ عورت کی ذات کی نفی کرتے ہیں اوران میں تعریف کا عنصرموجود ہوتا ہے۔قانون کو زیادہ موثر کرنے کے لیے اس میں ترمیم کی جائے تو بھی اسمبلی ممبرزکے ذریعے آئین میں ترامیم کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں خواتین کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ہمارے قوانین قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں پاس ہوئے ہیں وہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ہیں لیکن سماجی رسمیں اورروایات آئین سے زیادہ طاقتورہیں۔

خواتین جب باہرنکلتی ہیں پڑھنے کے لیے، نوکری کے لیے یا گھرکے کسی کام سے تواکثر اوقات گھرکے مرد انھیں روکتے ہیں کہ باہرکا ماحول ٹھیک نہیں۔ آخرگھر سے باہرایساکون سا دیوہوتا ہے جو خواتین کو نقصان پہنچاتا ہے اورمرد اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ جنسی طور پر ہراساں کرنیوالا ’’دیو‘‘ تھا جوکہ معاشرے میں بے لگام گھوم رہا تھا، ہرعورت کو اس نے اپنی ملکیت سمجھا ہوا تھا۔ ہرایک پر ہاتھ اٹھانا،آوازیں کسنا،مذاق اڑانا اپنا حق سمجھتا تھا۔ دفتروں میں ملازمت کرنیوالی خواتین بھی اس کے ہتھکنڈوں سے محفوظ نہیں تھیں۔ بھلا ہو چند خواتین کے باشعورگروپس کا جنھوں نے مل جل کر 2010ء میں The Protection against Harassment of Women at the work place کا ایک بل قومی اسمبلی اورسینیٹ سے پاس کروایا۔ اس قانون کا زیادہ فائدہ نوکری پیشہ خواتین کو ہوا۔ ایک طرح سے انھیں ایک ڈھال مل گئی جس سے وہ اپنے آپ کو بچاسکتی تھیں۔

حقیقت میں ہوا یہ کہ اس قانون سے 50 فیصد خواتین فائدہ حاصل نہ کر سکیں ایک تو ناواقفیت کی بنا پر دوسرے معاشرتی اقدارکی بناپر وہ شکایت کرتے ہوئے گھبراتی ہیںکیونکہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہرجرم کا الزام عورت کے سر ہی ڈالا جاتا ہے۔کوئی بھی جرم ہو عورت تشدد کا شکار ہو، یہی کہا جاتا ہے کہ ضروراس عورت کی کوئی غلطی ہوگی۔ ضرور ایسے الٹے سیدھے کپڑے پہنے ہونگے تب ہی تومرد نے چھیڑا ہوگا۔ اس طرح کے جملے عموماً سننے میں آتے ہیں اورنتیجتاً خواتین جرم کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں کر پاتیں۔ ہماری خواتین اکثراپنوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ نہ وہ ماں محفوظ ہے جو مردکوکھلا پلا کر بڑا کرتی ہے نہ وہ بہن محفوظ ہے جو بھاگ دوڑکر کے بھائی کی خدمتیں سرانجام دیتی ہے۔ نہ وہ بیٹی محفوظ ہے جو باپ کی انگلی پکڑکر چلنا سیکھتی ہے۔ نہ وہ بیوی محفوظ ہے جو انجان آدمی کے لیے دوالفاظ کے سہارے چل پڑتی ہے۔

باپ بھی گردن اتارنے والا، شوہر بھی جان سے مارنے پر ہر وقت تیار، ریاست تو ماں ہوتی ہے۔آخرکار رحم آہی گیا کہ آخراس لہولہان عورت کوکوئی تو پناہ دینی چاہیے تھی۔ 2013ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی سے The Domestic violence: Prevention and Protection Act پاس ہوا۔ ہم نے سمجھا اب ہماری عورت کوکوئی نہیں مارے گا، اب نہ کلہاڑیاں لال ہونگی، نہ فولاد عورتوں کے نازک جسموں میں اتارا جائے گا، نہ ڈنڈے برسیں گے نہ سر پھٹیں گے۔ سوچا تھا اب گھریلو تشدد ریاستی جرائم کی فہرست میں شامل ہوا ہے تو عورت کو مارتے ہوئے مرد کے ہاتھ ضرور کانپیں گے لیکن ادھر بھی ہم ہارگئے، معاشرتی اقدار جیت گئیں۔ معاشرے میں اس قانون کو گھر خراب کرنیوالا قانون قراردیا گیا۔

ہاں وہ جو چپ چاپ ظلم وستم سہ کر چپ کرکے گھرکے کونے میں پڑی رہتی تھی۔ اب ذرا سا سر اٹھانے لگی۔ اپنے بچاؤکے لیے ہاتھ بلندکرکے مارنیوالے کے ہاتھ روکنے لگی تو اس بات کو بھی منفی رنگ دیا جانے لگا اور تواور تھانے میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے پولیس والے بھی تشدد کی ستائی ہوئی عورت کا کیس داخل کرنے سے انکارکرنے لگے کہ ’’بھئی! یہ تو سیدھا سادھا گھرکا معاملہ ہے، ہم کیا کرسکتے ہیں، یہ گھرکی باتیں گھر میں طے کریں۔‘‘ لو کر لو بات! ادھر بھی ہم ہارگئے لیکن خواتین یہ جان گئیں کہ ان کو مارنا جرم ہے حق نہیں ہے پھر کچھ سر پھری خواتین نے آوازاٹھانی شروع کی کہ بچیوں کی چھوٹی چھوٹی سی عمر میں شادیاں نہیں کرنی چاہئیں۔

اکثر والدین پیسوں کے لالچ میں بچیاں بیچ دیتے ہیں اور اس کوشادی کا نام دیتے ہیں اورکبھی کبھی معصوم لڑکیاں 9,8 سال کی عمرمیں بھی اپنے بھائیوں کے رشتے کے بدلے میں دیدی جاتی ہیں۔ 2013ء میں ہی The Sindh Child Marriages Restraint Act آگیا۔اب 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی لگ گئی۔ وہ باپ بھی مجرم گردانا گیا جو اس عمل کا مرتکب پایا گیا۔ نکاح خواں اورگواہ بھی مجرم قراردیے گئے۔اس ایکٹ پر بھی کچھ ’’مخصوص‘‘ جماعتوں کے لوگ ناراض ہوگئے اوراس قانون کودین کے لیے خطرہ قراردینے لگے۔ اب ہمارے آگے دو اہم مسائل سر اٹھا کے کھڑے ہوگئے۔ ایک تو یہ کہ ان قوانین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے اور یہ کہ ان علاقوں میں جہاں جرائم بہت ہوتے ہیں وہاں ان کی معلومات کیسے پہنچائی جائیں۔ اب جیکب آباد،گھوٹکی،کشمور وغیرہ ان علاقوں میں توقبائلی نظام بہت طاقتور ہے اورتعلیم بھی عام نہیں ہے تو پھربات کرنے کاکون سا طریقہ اپنایا جائے۔

یہ قوانین کا پلندہ لے کر ہم اپنی ریاست کو تو روشن خیال ثابت کرسکتے ہیں لیکن انصاف بقول شاعر’’ہنوزدلی دوراست‘‘ کے مصداق کسی روتے ہوئے بچے کی مانند دورکھڑا ہے۔ ہاں جسٹس صلاح الدین پنہورکی ججمنٹ ہمارے پاس ہے جس کی رو سے اب کاروکاری کے کیس ریاست کی طرف سے درج کیے جاتے ہیں کیونکہ جب مارنیوالے کیس درج کرتے ہیں توکل عورت کا خون ہی فیصلے اور جرگے کروا کے معاف بھی کر دیے جاتے ہیں۔ دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے، بہت ترقی کر چکی ہے۔

ہم اپنی ترقی کی رفتارکو شاید اپنے کارخانوں کی تعداد، روڈ راستوں کی تعمیر اور نوٹوں کے چھاپنے سے ناپ لیتے ہیں ہمارے پاس دشمن ملکوں کو ڈرانے کے لیے نئے اور جدید میزائل بھی ہیں۔ دشمن ہم سے آنکھ ملا کربات بھی نہیں کر سکتا۔ ہم دہشتگردوں کو بھی چن چن کرماردینگے لیکن ہم ایک عورت کی زندگی نہیں بچاسکتے۔ ہم کلہاڑی سے کٹتی گردن کے خون سے انصاف نہیں کرسکتے۔ ہم جنسی زیادتی کی شکارعورت کے مجرم کو سزا نہیں دے سکتے۔ ہم کاروکاری کے الزام سے اپنی بہنوں کو نہیں بچاسکتے، ہاں ہمارے پاس قانون بہت طاقتور ہے۔اتنا طاقتورکہ اس کے استعمال کا طریقہ ہمیں نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔