کیا سے کیا بن گئے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 15 مارچ 2017

ہمیں جوکام کرنے چاہیں ہم کبھی نہیں کرتے، ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جوہمیں نہیں کرنے چاہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ وہ ہی کام کرینگے جسکی آپ کو ضرورت ہے اورجس کی آپ میں صلاحیت موجود ہے، اگرآپ وہ کام کرینگے جسکی آپ کوکوئی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی آپ میں اسے کرنے کی سرے ہی سے صلاحیت موجود ہے تو پھراس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آج جو نتیجہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنا کام چھوڑکر دوسروں کے کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں اور آج منہ لٹکائے حیرت زدہ ایک دوسرے کو تک رہے ہیں، ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہم وہ شہید ہیں جسے تعصب، نفرت، نااہلی، ناسمجھی نے مل کر قتل کیا۔ ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ الفاظ، دلائل، ہندسوں اور نقشوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے اور دنیا اسے قبول کرتی ہے کہ پاکستان تمام مہذب ممالک میں آج کل سب سے زیادہ مفلس ہے۔ ہماری ساری تدبیریں الٹی پڑ گئی ہیں۔ ہم اپنی نااہلی اور کم عقلی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشکوک نمبر 1 بن کے رہ گئے ہیں۔ ہماری پہچان دنیا بھر میں ایک انتہائی رجعت، بنیاد اور قدامت پرست اور دہشتگردی Export کرنیوالے ملک کی حیثیت سے ہو چکی ہے۔

ہم دنیا بھر میں جانے پہچانے لوگ ہیں اور اس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ آخرکار سالہا سال کی انتھک محنت کے بعد ہم دنیا بھر میں وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کبھی ہمارا خواب ہوا کرتا تھا ہمارے عقل کے اندھوں نے ملک کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہیں۔ اپنے آپ کو اس وقت پیٹنے کا دل چاہتا ہے جب ہم بضد ہوتے ہیں کہ ہمارا جیسا دور اندیش، دانشمند اور عقل مندکوئی دوسرا نہیں۔ ہم مسلسل اس خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ اپنے علاوہ دنیا بھرکے تمام مسائل کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔

ہم ہر وقت، ہر جگہ اپنی ٹانگ اڑانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اپنے ملک میں جاری جنگ جو خود ہمارے اپنے لیے لڑی جا رہی ہے، اس کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دوسروں کی جنگ میں کودنے کے لیے بیتاب ہیں۔ جو اپنے کام کرنے ضروری ہیں ان کی طرف دھیان اور توجہ دینے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بین الاقوامی الجھے مسائل کو سلجھانے کے لیے ہمارے پا س فرصت ہی فرصت ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ اپنے ایک مضمون ’’شاعری کا سماجی منصب‘‘ میں کہتا ہے کہ ’’ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے گرد و پیش کی دنیا بدلتا ہے، خود بھی بدلتا رہتا ہے مثلاً ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ہندوئوں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے، جیسا کئی سو سال قبل ہمارے اجداد کا تھا۔ یہ ویسا بھی نہیں جیسا ہمارے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔‘‘ آئیں! ہم ذرا ایک لمحے کو رک کر اس بات پر غورکرتے ہیں کہ ہمارا شعور پستی کی کیچڑ میں کیوں دھنس چکا ہے۔

آج ہم جیسے ہیں کیا سالوں پہلے بھی ہم ایسے ہی تھے یا اس سے مختلف تھے، جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز رازکھلتا ہے کہ ہم سالوں پہلے ایک باشعور، عقل مند، دانشمند اور سوجھ بوجھ رکھنے والی قوم تھے جو غور و فکرکرتے تھے، سوچتے تھے تو پھر یہ کیا ہوا کہ ہم کیا سے کیا بن گئے۔ آیا اس کے پیچھے بھی کوئی بین الاقوامی سازش تھی کیا یہ بھی کام غیرمسلموں نے ایک بڑی پلاننگ کے ساتھ سر انجام دیا یا اس کارخیرکے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ مارکس نے کہا تھا ’’چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے، اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پر مبنی ہونا چاہیے، وحشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے۔‘‘ اصل میں ہم نے سالوں پہلے روشن خیالی اور خرد افروزی کو دیس بدر کر دیا تھا فکر اور تدبرکی روشنی کو دیس کے لیے نقصان دہ قراردے دیا تھا۔ عقل و فہم پر پہرے بٹھا دیے تھے فکر کرنے اور سوچنے والوں پر کفر و الحاد کے فتو ے جاری ہو جایاکرتے تھے۔

علم، عقل و دانش کو ہم نے ایسا شجر ممنوعہ قرار دے دیا تھا کہ جس کا پھل کھاتے ہی انسان دین سے خارج ہو جایاکرتا تھا۔ جب کہ پورے ملک میں صرف جہل اور جہالت کی بیلوں کو پروان چڑھانے کی اجازت حاصل تھی۔ اور جب سے ہم سب آج تک صرف جہالت کی محسور کن دھنوں پر ناچ رہے ہیں۔ اور جب تھک کر خستہ و درماندہ ہو کر ہانپنے لگتے ہیں تو گر پڑتے ہیں پھر اٹھتے ہیں اور پھر ناچنے لگتے ہیں، ہم وہ کنویں کے مینڈک ہو گئے ہیں جن کے لیے بس اتنا ہی آسمان ہے جتناکنویں کے اندرسے نظرآتا ہے۔ اب اس صورتحال میں اپنے آپ پر غصہ کریں یا ترس کھائیں اپنے آپ کو ماریں یا اپنے آپ پر روئیں کیا کریں آپ ہی بتائیں۔ اصل میں ہم سب کو جہالت، تنگ نظری، وحشت، نفرت، تعصب، وہم، توہمات کا کوڑھ لگ چکا ہے ہم سب کوڑھی بن چکے ہیں اور سارا وقت اپنے اپنے کوڑھ کو نوچتے رہتے ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم مریض بن چکے ہیں۔

ایسے مریض جن سب کے گلوں میں گھنٹی بندھی ہوئی ہے جس کی آواز سن کر پوری دنیا جان جاتی ہے کہ کوڑھی آ رہے ہیں ۔ میرے ہم وطنو میر ے بھائیو یہ وقت رونے کا ہے چیخنے کا چلانے کا ہے۔ خدا سے معافی مانگنے کا ہے تاکہ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے گناہ معاف فرمائے تاکہ ہمیں اس کوڑھ سے نجات حاصل ہو جائے اور ہم سب ایک خوشحال، صحت مند زندگی گزار سکیں۔ ایک ایسے سماج میں رہ سکیں جہاں عقل و فہم پر پہرے بیٹھے ہوئے نہ ہوں۔ جہاں علم و دانش کا راج ہو۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ پیارکریں۔ جہاں سوچنے اور فکر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ اور ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکے۔

ہمیں جوکام کرنے چاہیں ہم کبھی نہیں کرتے، ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جوہمیں نہیں کرنے چاہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ وہ ہی کام کرینگے جسکی آپ کو ضرورت ہے اورجس کی آپ میں صلاحیت موجود ہے، اگرآپ وہ کام کرینگے جسکی آپ کوکوئی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی آپ میں اسے کرنے کی سرے ہی سے صلاحیت موجود ہے تو پھراس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج جو نتیجہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنا کام چھوڑکر دوسروں کے کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں اور آج منہ لٹکائے حیرت زدہ ایک دوسرے کو تک رہے ہیں، ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہم وہ شہید ہیں جسے تعصب، نفرت، نااہلی، ناسمجھی نے مل کر قتل کیا۔ ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ الفاظ، دلائل، ہندسوں اور نقشوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے اور دنیا اسے قبول کرتی ہے کہ پاکستان تمام مہذب ممالک میں آج کل سب سے زیادہ مفلس ہے۔

ہماری ساری تدبیریں الٹی پڑ گئی ہیں۔ ہم اپنی نااہلی اور کم عقلی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشکوک نمبر 1 بن کے رہ گئے ہیں۔ ہماری پہچان دنیا بھر میں ایک انتہائی رجعت، بنیاد اور قدامت پرست اور دہشتگردی Export کرنیوالے ملک کی حیثیت سے ہو چکی ہے۔ ہم دنیا بھر میں جانے پہچانے لوگ ہیں اور اس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ آخرکار سالہا سال کی انتھک محنت کے بعد ہم دنیا بھر میں وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کبھی ہمارا خواب ہوا کرتا تھا ہمارے عقل کے اندھوں نے ملک کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہیں۔ اپنے آپ کو اس وقت پیٹنے کا دل چاہتا ہے جب ہم بضد ہوتے ہیں کہ ہمارا جیسا دور اندیش، دانشمند اور عقل مندکوئی دوسرا نہیں۔ ہم مسلسل اس خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ اپنے علاوہ دنیا بھرکے تمام مسائل کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم ہر وقت، ہر جگہ اپنی ٹانگ اڑانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اپنے ملک میں جاری جنگ جو خود ہمارے اپنے لیے لڑی جا رہی ہے، اس کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دوسروں کی جنگ میں کودنے کے لیے بیتاب ہیں۔ جو اپنے کام کرنے ضروری ہیں ان کی طرف دھیان اور توجہ دینے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بین الاقوامی الجھے مسائل کو سلجھانے کے لیے ہمارے پا س فرصت ہی فرصت ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ اپنے ایک مضمون ’’شاعری کا سماجی منصب‘‘ میں کہتا ہے کہ ’’ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے گرد و پیش کی دنیا بدلتا ہے، خود بھی بدلتا رہتا ہے مثلاً ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ہندوئوں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے، جیسا کئی سو سال قبل ہمارے اجداد کا تھا۔ یہ ویسا بھی نہیں جیسا ہمارے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔‘‘ آئیں! ہم ذرا ایک لمحے کو رک کر اس بات پر غورکرتے ہیں کہ ہمارا شعور پستی کی کیچڑ میں کیوں دھنس چکا ہے۔

آج ہم جیسے ہیں کیا سالوں پہلے بھی ہم ایسے ہی تھے یا اس سے مختلف تھے، جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز رازکھلتا ہے کہ ہم سالوں پہلے ایک باشعور، عقل مند، دانشمند اور سوجھ بوجھ رکھنے والی قوم تھے جو غور و فکرکرتے تھے، سوچتے تھے تو پھر یہ کیا ہوا کہ ہم کیا سے کیا بن گئے۔ آیا اس کے پیچھے بھی کوئی بین الاقوامی سازش تھی کیا یہ بھی کام غیرمسلموں نے ایک بڑی پلاننگ کے ساتھ سر انجام دیا یا اس کارخیرکے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ مارکس نے کہا تھا ’’چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے، اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پر مبنی ہونا چاہیے، وحشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے۔‘‘ اصل میں ہم نے سالوں پہلے روشن خیالی اور خرد افروزی کو دیس بدر کر دیا تھا فکر اور تدبرکی روشنی کو دیس کے لیے نقصان دہ قراردے دیا تھا۔

عقل و فہم پر پہرے بٹھا دیے تھے فکر کرنے اور سوچنے والوں پر کفر و الحاد کے فتو ے جاری ہو جایاکرتے تھے۔ علم، عقل و دانش کو ہم نے ایسا شجر ممنوعہ قرار دے دیا تھا کہ جس کا پھل کھاتے ہی انسان دین سے خارج ہو جایاکرتا تھا۔ جب کہ پورے ملک میں صرف جہل اور جہالت کی بیلوں کو پروان چڑھانے کی اجازت حاصل تھی۔ اور جب سے ہم سب آج تک صرف جہالت کی محسور کن دھنوں پر ناچ رہے ہیں۔ اور جب تھک کر خستہ و درماندہ ہو کر ہانپنے لگتے ہیں تو گر پڑتے ہیں پھر اٹھتے ہیں اور پھر ناچنے لگتے ہیں، ہم وہ کنویں کے مینڈک ہو گئے ہیں جن کے لیے بس اتنا ہی آسمان ہے جتناکنویں کے اندرسے نظرآتا ہے۔ اب اس صورتحال میں اپنے آپ پر غصہ کریں یا ترس کھائیں اپنے آپ کو ماریں یا اپنے آپ پر روئیں کیا کریں آپ ہی بتائیں۔

اصل میں ہم سب کو جہالت، تنگ نظری، وحشت، نفرت، تعصب، وہم، توہمات کا کوڑھ لگ چکا ہے ہم سب کوڑھی بن چکے ہیں اور سارا وقت اپنے اپنے کوڑھ کو نوچتے رہتے ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم مریض بن چکے ہیں۔ ایسے مریض جن سب کے گلوں میں گھنٹی بندھی ہوئی ہے جس کی آواز سن کر پوری دنیا جان جاتی ہے کہ کوڑھی آ رہے ہیں ۔ میرے ہم وطنو میر ے بھائیو یہ وقت رونے کا ہے چیخنے کا چلانے کا ہے۔ خدا سے معافی مانگنے کا ہے تاکہ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے گناہ معاف فرمائے تاکہ ہمیں اس کوڑھ سے نجات حاصل ہو جائے اور ہم سب ایک خوشحال، صحت مند زندگی گزار سکیں۔ ایک ایسے سماج میں رہ سکیں جہاں عقل و فہم پر پہرے بیٹھے ہوئے نہ ہوں۔ جہاں علم و دانش کا راج ہو۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ پیارکریں۔ جہاں سوچنے اور فکر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ اور ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔