حکما و اطبا

شیخ جابر  بدھ 15 مارچ 2017
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

ایکوپنکچراورچائینیزمیڈیسن آج ساری دنیا میں مقبول ہیں۔ اب سے محض 80برس قبل چین سے باہر شاید ہی کوئی اس طریقہ علاج سے واقف رہا ہو لیکن آج طب کی دنیا میں ٹی سی ایم یا ٹریڈیشنل چائینیزمیڈیسن کی بڑی مانگ ہے۔ 2007ء میں ہی یہ930 ٹن تک جا چکا تھا۔2014ء میں مارکیٹ کا حجم 2,851 ٹن تک جا پہنچایعنی24 فیصد رفتار بڑھوتری، سی اے جی آر (کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ)کے ساتھ 14,135 امریکی ڈالر۔یہ اعدادوشمار جہاں ایک جانب چونکا دینے والے ہیں وہیںہمارے لیے فکر کی بات ہے کہ ہم اپنی طبِ یونانی کوایسا کوئی مقام خود اپنے پیارے پاکستان میں بھی نہ دلا سکے۔جنوبی ایشا کے حکماء واطبا نے ایک دورمیں محیرالعقل کارنامے انجام دیے ہیں۔اُن میں سے چند پیش خدمت ہیں۔

یہ ذکر ہے حکیم علوی خاںکا کہ جنھیں نادرشاہ برعظیم سے اپنی واپسی کے وقت اپنے ساتھ افغانستان لے گیا تھا۔ حکیم صاحب تین سال وہاں رہ کر ملک واپس آگئے ۔ عبدالکریم کشمیری جو حکیم صاحب کے ساتھ ہی گئے تھے اور ساتھ ہی واپس بھی آئے، انھوں نے ’’بیانِ واقع‘‘ کے نام سے اپنا سفر نامہ لکھا ہے اس میں اپنی بیوی کے علاج کا واقعہ بھی لکھا ہے کہ اس کے چھاتی میں ورم صلب ہوگیا۔موصوفہ نہ تو کسی سے مقامِ مرض کے معائنے پر آمادہ ہوتی تھیں نہ معالجے پر، حکیم علوی خان نے ان کی ضدکے پیش نظر یہ تدبیرکی کہ ایک کمرے میں میدے کی ایک تہہ بچھوا دی اور مریضہ کو اس پر برہنہ پا چلنے کے لیے کہا۔ مریضہ کے اس پر سے گزرجانے کے بعد حکیم نے مریضہ کے نقوشِ پا کا معائنہ کیا اور ایک جگہ نشتر چھپا دیا اور مریضہ کو دوبارہ انھی نقوشِ پر چلنے کی ہدایت کی، جب وہ چلیں تو ان کے تلوے میں نشتر چبھ گیا اورگر گئیں، نشتر نکال لیا گیا اور خون بہ جانے سے فصدکا مقصد حاصل ہوگیا جس سے چھاتی کے ورم کا ازالہ ہوگیا۔

(وقایع نادری اردو ترجمہ بیان واقع، ازمعصوم علی محشر، مطبع برج نرائن، ورسا، لکھنؤ، 1905ء ص22-23)۔ مشہور فرنگی سیاح مانوچی (1653ء ۔ 1708ء ) نے ’داستانِ عہدِ مغلیہ‘ میں بیان کیا ہے کہ مغل سپاہیوں کے ساتھ جنگ میں دکن کے جو سپاہی مجروح ہوگئے تھے اور ان کے چہرے متاثر ہوئے تھے، بیجا پورکے جراحت کاروں نے ان سپاہیوں کے مصنوعی ناکیں اورابرو اور پیشانی کی جلد لگادی تھی ۔(ڈاکٹر آرایل ورما، نئی دہلی، ہمدرد میڈیکس کراچی جلد 20 شمارہ 21-7)۔ جیسا پڑھا ویسا نقل کر دیا۔یہاں تصحیح ضروری معلوم ہوتی ہے۔ مانوچی فرنگی سیاح نہ تھا۔ہم ہر گورے کو فرنگی کہہ لیتے ہیں۔ موصوف اطالوی تھے، سیاح بھی تھے اور لکھتے بھی تھے۔

مغلیہ دورکی عدالت میں بھی ملازمت کی نیزدارا شکوہ،شاہ عالم، راجہ جے سنگھ اورکرت سنگھ کی خدمت کی۔نکولاؤ مانوچی (واضح رہے کہ درست اطالوی تلفظ مانوچی ہے)کی تاریخ ِ پیدائش و وفات 19اپریل -1638تا 1717ء ہے۔ انھوں نے مغل دور پرکتاب لکھی’’استوریا دا موگور‘‘۔ عبدالقادر حضرمی نے ’’النورالسافر‘‘ میں لکھا ہے کہ والی گجرات سلطان محمود کی خدمت میں ایک ہمسایہ ملک کے بادشاہ نے تحفے میں چند اشیائِ نفیسہ اورایک خوبصورت کنیز بھیجی تھی۔ بادشاہ نے وہ کنیز اپنے وزیرکوبخش دی۔ اتفاقاً حکیم شہاب الدین محمودعباسی سندھی (1585ء) نے کنیزکی نبض دیکھی توچونک گئے اوروزیرکو متنبہ کیاکہ اس سے ہرگز صحبت نہ کریں کیونکہ جو بھی کریگا وہ مرجائے گا۔

وزیر نے حکیم صاحب کی یہ عجیب بات سن کر تجربے کے طور پر ایک غلام کو اس سے ملنے کا موقع دیا، غلام فوراً مرگیا، حکیم صاحب سے وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے بتایا کہ مجھے نبض سے اندازہ ہوگیا کہ یہ کنیز زہرناک ہے اوراس مقصد کے لیے جب یہ شکمِ مادر میں تھی اس کی ماں کو سمی دوائیں کھلائی گئیں وہ دوائیں اس کے رگ و پے میں سرایت کرگئیں اوریہ زہر ناک ہوگئی اوربادشاہ کی ہلاکت کی نیت سے دوستانہ تحفے کے پردے میںیہ قتالہ پیش کی گئی۔(نزہۃ الخواطر، جلد4، ص 348)۔ نواب اللہ وردی خان، جہانگیربادشاہ کے امرائِ دربارمیں سے تھا۔آگرے میں اس کے بنوائے ہوئے بہت سے محلات تھے،ایک مسجد اورایک حمام بھی اس کے نام سے مشہور تھا جس کی عمارت آج تک موجود ہے۔

حمام، حکیم عبداللہ کی صناعی کا ایک شاہکار تھا، حکیم عبداللہ علوم طبعی اور ہندسہ (انجینئرنگ) میں صاحبِ کمال تھا اورحکیم گیلانی جیسے یگانۂ روزگارفاضل کا شاگرد تھا.یہ حمام مربع شکل میں ہے، مغرب میں ایک گنبدنما حجرہ اس کے دوطرف چھ حجرے، مشرق میں داخلے کا دروازہ اورمحراب دارحجرے، درمیان مربع صحن جو پائیں باغ کی صورت تھا اب اجڑگیا ہے، مغربی رخ کے کمرے کی ایک دیوار میں حوض تھا،اس حوض کے نیچے طاقچہ تھا جس میں ایک اسکورا تھا، اسکورے میں چربی جیسا مصالحہ اورایک بتی تھی جو شمع کی طرح جل رہی تھی۔طاقچہ بند تھا۔حوض کا پانی اس چر اغ کی لو سے اس قدرگرم ہوجاتا تھا کہ پانی کے بخارات بن کر تمام کمروں میں پھیل جاتے تھے، مریض آکر انھی درجوں (کمروں) میں بخارات سے غسل کرتے اور صحت یاب ہوتے تھے۔

شمال وجنوب کے کمرے عام غسل خانے تھے۔اس حوض میں پانی برابرکی مسجدکے کنوئیں سے آتا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز میں جب آگرے پرانگریزوں کا تسلط ہوا تو اس وقت کسی فوجی کو اس حیرتناک حمام کا علم ہوا اور اس نے رازمعلوم کرنے کے لیے حمام کی دیوار توڑ کر دیوار کے چراغ کو نکالا جو ہوا لگتے ہی بجھ گیا۔تین سوسال کی طویل مدت میں چراغ کی بتی کی صرف ایک گرہ جلی تھی، چراغ کو لندن بھیج دیا گیا پھراس کا حال معلوم نہ ہو سکا۔اُس وقت کے آگرے کے کوتوال اس موقعے پر موجود تھے۔انھوں نے حمام کی کھدائی کا آنکھوں دیکھا حال اپنے بیٹے ڈپٹی وقارعلی سے بیان کیا تھا،انھوں نے مفتی انتظام اللہ شہابی کو یہ قصہ سنایا، مفتی صاحب نے ’’ تاریخِ آگرہ‘‘ (مطبوعہ نیا کتاب گھر دہلی ) اور ’’مسلم فلاسفہ‘‘ (انجمن اسلامیہ کراچی)  میں اس کا تذکرہ درج کیا ہے۔اُن ہی حکیم عبداللہ کے استاد حکیم علی گیلانی نے لاہور اورآگرے میں ایسے کمرے بنائے تھے، جن کا راستہ حوض میں ہوکرجاتا تھا۔ حکیم علی گیلانی مغل دربارکے ایک عظیم طبیب تھے، شاہ اکبر اور شاہِ جہانگیر کے دربار سے وابستہ تھے۔

ابنِ سینا کی کتاب ’’قانون‘‘کی جو شرح اس حکیم نے لکھی ہے اس میں قانون کی معلومات پر اضافوں کے علاوہ کئی جگہ ابنِ سینا پر بے محابااعتراضات بھی کیے ہیں۔اس علمی رتبے کے ساتھ حکیم کو حکمتِ عملی،آرکیٹکچر اورانجینئرنگ میں بھی کمال حاصل تھا جس کا ایک نمونہ وہ کمرے ہیں جو انھوں نے لاہور اورآگرہ میں بنائے تھے، ان کمروں میں داخل ہونے کے لیے ایک غوطہ لگانا پڑتا تھا۔ لاہور میں جوکمرہ بنایا تھا،ایک بارحکیم نے اکبرکواس کے معائنے کی دعوت دی اکبر نے یہ دعوت قبول کرلی اور درباریوں کو حوض کے اوپرچھوڑکر،لنگی باندھ کر حوض میں اتر گیا اورغوطہ لگا کرحکیم کے ساتھ اس کمرے میں پہنچا، وہاں پہلے سے رکھے ہوئے کپڑے پہنے کھانا تیارتھا وہ کھایا، عطر ملا، کتابیں رکھی تھیں ان پر ایک نظرڈالی،کچھ دیر آرام کیا اوردوبارہ کپڑے اتارکرلنگی باندھی اورکمرے سے حوض میں آیا اورحوض سے سر باہر نکالا، باہر نکل کر درباریوں کو (جو اتنی دیرشاہ کے غوطے میں رہنے کی وجہ سے آسیمہ سر تھے کہ جانے شاہ پرکیا گزری؟) بتایا کہ میں حوض سے دو تین سیڑھیاں اترکرکمرے میں پہنچا کمرہ نہایت روشن تھا بڑے تکلف سے سجایا گیا تھا، دس بارہ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، لباس موجود تھا،کھانا تیار تھا، طاقوں میں چندکتابیں سجی ہوئی تھیں پانی کا ایک قطرہ اندرنہیں آنے پایا۔یہ 1583ء کا واقعہ ہے۔

اس کے کئی سال بعد ایسا ہی ایک کمرہ آگرے میں بنایا گیا اور’’حوض حکیم علی‘‘ سے کسی نے اس کا سنِ تعمیر برآمد کیا تھا۔ 1002ھ مطابق 1594ء اور 1608ء میں شنشہاہ جہانگیر نے اس کمرے کا معائنے کیا اور اس معائنے کا ذکرخود جہانگیر نے اپنی تزک میں کیا ہے۔’’میں حکیم علی کا حوض دیکھنے کی غرض سے گیا، اس قسم کا حوض اس نے والدِ بزرگوار کے زمانے میں لاہورمیں تعمیرکیا تھا۔ اس حوض کا رقبہ 6×6 ہے۔ حوض کے برابر ایک کمرہ ہے جو بہت روشن ہے اس کمرے کا راستہ حوض (کے پانی) میں سے ہوکرجاتا ہے دس بارہ آدمی کمرے میں بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘ جہانگیر نے حوض کے معائنے کے بعد حکیم کے فضل وکمال سے متاثر ہوکر اسے دو ہزاری منصب پر فائزکیا۔ یہ حوض بیان کیا جاتا ہے کہ آگرے میں جمنا کے کنارے اب تک ہے اور ’’حکیم کا باغ‘‘ کے نام سے مشہورہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔