(حسین) حقانی نیٹ ورک

سالار سلیمان  بدھ 15 مارچ 2017
اگر حسین حقانی کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا ہے تو یہ باقی ماندہ بیوروکریسی کیلئے کیسی مثال ہوگی، یہ سوچنے کی بات ہے۔ فوٹو: فائل

اگر حسین حقانی کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا ہے تو یہ باقی ماندہ بیوروکریسی کیلئے کیسی مثال ہوگی، یہ سوچنے کی بات ہے۔ فوٹو: فائل

حسین حقانی سفارت کاری کی ’میرا‘ بنتے جا رہے ہیں۔ حقانی صاحب کو اچھی طرح علم ہے کہ کب، کیسے اور کس طرح سے میڈیا کی توجہ حاصل کرنی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھا گیا اُن کا حالیہ کالم ہی اُٹھا کر دیکھ لیں، کہ وہ کالم بادی النظر میں تو ٹرمپ کے مسئلے پر لکھا گیا تھا لیکن آدھے سے زیادہ کالم میں اپنی کہانی اور اپنی اہمیت جتاتے رہے اور پاکستانی میڈیا میں اُن کے بطور سفیر کردار پر بحث اور انگلیاں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔

یہ کالم اگر کسی عام لکھاری نے لکھا ہوتا تو یقینًا نتائج مختلف ہوتے، عین ممکن ہے کہ وہ شائع ہی نہ ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو اُس میں بیان کردہ باتوں کے مطابق سخت ایکشن لیا جاتا، کیونکہ حسین حقانی نے اپنے کالم میں خود کو غدار ثابت کیا ہے اور وہ آئین کے مطابق غداری کی ہر تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔

حسین حقانی کا ماضی انتہائی شاندار ہے جو کہ ثابت کرتا ہے کہ اگر آپ ’کیٹ فش‘ ہیں تو آپ کو جھیل سوکھنے سے پہلے ہی اپنا بندوبست کرلینا چاہیئے۔ بطورِ سفیر، حقانی کی سری لنکا میں تعیناتی کے ابواب تو پھر سہی لیکن جب زرداری حکومت نے اپنے دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا تو حسین حقانی اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ جی بھر کر نہائے۔ اُنہوں نے اپنی وفاداری کے عوض امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی کروائی، اُس کی وجہ وہ اپنے کالم میں اپنا امریکی حلقوں میں اثر و رسوخ بتاتے ہیں جبکہ پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ ایسا اثر حاصل کرنے کیلئے انسان کو اخلاقی سطح سے کتنا نیچے گرنا پڑتا ہے۔

ابتداء میں حسین حقانی ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم سے منسلک رہے تھے اور اُس دور میں وہ باقاعدگی کے ساتھ کراچی میں قائم امریکی قونصل خانے کی لائبریری جاتے تھے۔ اُس کے بعد صحافت کا آغاز کیا اور وائس آف امریکہ ریڈیو کیلئے افغانستان کی جنگ کو کور کیا۔ ضیاء الحق کی مدد سے انہوں نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور بعد میں نواز شریف کے قریب ہوگئے۔ اُس کے بعد اُنہوں نے بینظیر بھٹو کا کیمپ جوائن کیا اور فوائد سمیٹے۔ زرداری سے دوستی انہوں نے 2008ء میں کیش کروائی جب وہ امریکہ میں سفیر تعینات رہے۔ وقت کو سمجھنے والے حقانی نے مشرف دور کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا۔

زرداری دور میں جب امریکہ نے پاکستان کے علم میں لائے بغیر اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو سب ہی کہہ رہے تھے کہ یہ ’ان سائیڈ جاب‘ ہے۔ تاہم چند ہی دنوں کے بعد میموگیٹ کا اسکینڈل شروع ہوگیا اور میڈیا سے بن لادن اسٹوری پسِ منظر میں چلی گئی۔ اُس دوران حسین حقانی نے استعفیٰ دیا اور چند روز کے بعد پاسپورٹ تھام کر امریکہ سدھار گئے۔ آج کل وہ امریکہ میں بطور سمدھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً ہمیں یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اُنہوں نے حکومت اور قوم کو کیسے بیوقوف بنایا۔ حقانی کا انجام کیا ہوگا، یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ تاہم حقانی نے امریکی جریدے کے کالم میں جو اعتراف کئے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں، یہ ہمارا موضوع ہے۔

حسین حقانی نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے بن لادن آپریشن میں امریکہ کی مدد کی تھی اور یہ مدد ’آؤٹ آف دی وے‘ تھی۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا وہ یہ مدد کرنے کے مجاز تھے کیونکہ وہ اُس وقت امریکہ میں بطور سفیر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے اور یہ سفیر کے کرنے کے کام نہیں ہیں اور نہ ہی اُن کے ایس او پیز میں یہ بات شامل ہوتی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی اُن کے اقدامات سے آگاہ تھی؟ اِس کا جواب حقانی نے اپنے کالم میں خود ہی دیا ہے کہ اُس وقت کے صدر اور وزیراعظم اُن کے اقدامات سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ معاون بھی تھے اور منظوری بھی دے رہے تھے۔

اب پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی سوال ہونا چاہیئے کہ آپ کے کیمپ میں ایک غدار کیا کررہا تھا؟ جس کی وفاداریاں پاکستان سے زیادہ امریکیوں کیلئے تھیں اور جس نے پاکستان سے پہلے امریکہ کا سوچا۔ کیا آرمی کو اُن اقدامات کا علم تھا؟ حسین حقانی نے تسلیم کیا ہے کہ اُنہوں نے سی آئی اے کے جاسوس پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا اور اُن کو ویزے جاری کئے۔ لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا دیتے کہ کتنے جاسوس اِس ملک میں آئے؟ وہ کون سے آلات یہاں لائے؟ اِس سے پاکستان کی سیکیورٹی کس حد تک کمزور ہوئی اور یہ جاسوس اب کہاں ہیں؟

یہ بھی بتا دیتے کہ اُن جاسوسوں کا کام صرف بن لادن کی تلاش نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی کرنے بھی آئے تھے اور وہ اِس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، تو اِس کا جواب ہے کہ امریکہ کے وہ جاسوس ابھی تک ناکام ہیں کیونکہ الحمد اللہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری ہے۔ اب سوال اُٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کا سفیر امریکہ میں یہ گل کھلاتا رہا ہے تو اُس کے نیچے کا عملہ کیا کرتا رہا ہوگا؟ اگر اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص ایسا گھٹیا اور غدار ہے تو وہاں موجود دیگر عملے کی صورتحال کیا ہے؟

کیا اب یہ ضرورت نہیں کہ بیوروکریسی پر شکنجہ کسا جائے جو کہ تمام ہی مسائل کی جڑ معلوم ہوتی ہے، فوج پر تو منہ اُٹھا کر کوئی بھی تنقید کرلیتا ہے، بیورو کریسی کا احتساب کب ہوگا اور اب جب کہ اُن کے قبیلے کے ایک اہم سردار نے اپنی غداری بھی تسلیم کرلی ہے۔ میری ذاتی نظر میں حسین حقانی نے جو بھی کیا ہے، اُس نے یہ کام اکیلے نہیں کئے ہیں بلکہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اُس نے یہ تمام کام کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اُس نیٹ ورک کے خلاف کوئی آپریشن ہوگا؟ کیونکہ اِس ’حقانی نیٹ ورک‘ کے خلاف آپریشن کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔

کیا حسین حقانی کے اعتراف غداری کے زمرے میں نہیں آتے ہیں؟ اگر ایک آرٹیکل کو بنیاد بنا کر پورا چینل بند کیا جاسکتا ہے، ایک آرٹیکل یا رپورٹ کو بنیاد بنا کر حملے کئے جاسکتے ہیں، ایک آرٹیکل کو بنیاد بنا کر آپریشنز کئے جاسکتے ہیں تو ایک اعترافی آرٹیکل کو بنیاد بنا کر سابق سفارتکار پر غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا؟ اگر قانون طاقتور ہے اور ملک میں قانون کی حکمرانی ہے تو پھر ایسا ہونا چاہیئے وگرنہ دوسری صورت میں اگر حسین حقانی کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا ہے تو یہ باقی ماندہ بیوروکریسی کیلئے کیسی مثال ہوگی، یہ سوچنے کی بات ہے۔

کیا آپ بھی اِس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ حسین حقانی پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔