ایک بار پھر میمو (آخری حصہ)

جاوید چوہدری  جمعرات 16 مارچ 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ملکی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن پارٹی کے سربراہ‘ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے کسی سفیر کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں جواب جمع کرائے‘ سپریم کورٹ نے حسین حقانی کا نام ای سی ایل پر ڈالا اور تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن بنا دیا‘ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے ‘ کمیشن نے 11 جون 2012ء کو رپورٹ پیش کر دی۔

رپورٹ میں میمو کو حقیقت اور اس حقیقت کا خالق حسین حقانی کو قرار دیا گیا‘ کمیشن نے لکھا‘ حسین حقانی سفیر کی حیثیت سے پاکستان سے سالانہ 20 لاکھ ڈالر(دو ملین) تنخواہ لیتے تھے لیکن ان کی وفاداریاں امریکا کے ساتھ تھیں‘ حسین حقانی نے پاکستان میں رہنا تک پسند نہیں کیا‘ ملک میں ان کی کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی بینک بیلنس‘ یہ ہمیشہ امریکا کو پاکستان پر ترجیح دیتے رہے‘ میمو لکھنے کی وجہ پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنا تھا ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت کر سکتی ہے‘ پاکستانی سفیر نے میمو کے ذریعے امریکا کو پاکستان میں نئی سیکیورٹی ٹیم بنانے کی ترغیب بھی دی اور یہ اس ممکنہ سیکیورٹی ٹیم کا سربراہ (وزیراعظم) بننا چاہتے تھے چنانچہ کمیشن یہ سمجھتا ہے حسین حقانی نے اس میمو کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی ‘ آپ یہ رپورٹ جہاں سے بھی پڑھیں آپ کو حسین حقانی امریکی ایجنٹ اور پاکستان کے مخالف دکھائی دیں گے۔

آپ کو محسوس ہو گا امریکا نے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے‘ ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور 2 مئی 2011 کے آپریشن کے لیے پاکستان کے سفیر کو استعمال کیا اور یہ اپنی رضا اور رغبت کے ساتھ استعمال ہوئے اوراگر یہ 2010ء اور 2011ء میں امریکا کی مدد نہ کرتے‘ یہ ریمنڈ ڈیوس جیسے کانٹریکٹرز اور بلیک واٹر جیسی سیکیورٹی ایجنسیوں کو ویزے جاری نہ کرتے‘ یہ اگر امریکی انتظامیہ کو ان لوگوں کے بارے میں بریفنگ نہ دیتے جنھیں پاکستان میں خریدا جا سکتا تھا‘ ترغیب دی جا سکتی تھی یا پھر دبایا جا سکتا تھا تو امریکا کبھی اسامہ بن لادن تک پہنچ پاتا اور نہ ہی یہ 2 مئی جیسا آپریشن کر پاتا چنانچہ یہ حسین حقانی تھے جنہوں نے عہدے‘ پیسے اور تھپکی کے لالچ میں پاکستان سے غداری کی اور اس غداری سے صدر آصف علی زرداری‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ میاں نواز شریف‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا سمیت ملک کے زیادہ تر مقتدر لوگ واقف تھے‘ یہ حقائق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری اور تین رکنی عدالتی کمیشن کے نوٹس میں بھی تھے لیکن حسین حقانی اس کے باوجود31 جنوری 2012ء کو ملک سے باہر بھی چلے گئے اور ان کے خلاف کوئی فیصلہ بھی نہیں آیا‘ کیوں؟ شاید امریکا کا دباؤ تھا اور اس دباؤ نے ایک ایک کر کے حسین حقانی کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں خاموش کرا دیں‘وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افتخار محمد چوہدری نے اپنی ترجیحات بدل لیں۔

جنرل پاشا اور جنرل کیانی ریٹائر ہو گئے‘ یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘ آصف علی زرداری حسین حقانی کے دوست اور مدد گار تھے اور پیچھے رہ گئے میاں نواز شریف تو یہ 2013ء میں اقتدار میں آگئے اور یہ آتے ہی فوج کو اپنے صفحے پر لانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے‘یہ کوشش انھیں دھرنوں تک لے گئی اور یہ ببانگ دہل یہ کہنے پر مجبور ہو گئے میں نے میمو سکینڈل میں آصف علی زرداری کے خلاف فریق بن کر غلطی کی تھی‘ یوں یہ ایشو تاریخ کی پچھلی‘ اندھی اور سیلن زدہ کوٹھڑی میں دفن ہوتا چلا گیا‘ عدالت ‘فوج اور پارلیمنٹ تینوں نے میمو سکینڈل فراموش کر دیا‘ آصف علی زرداری مدت پوری کر کے دوبئی میں بیٹھ گئے اور حسین حقانی امریکا میں اپنی ’’جمع پونجی‘‘ سے لطف اندوز ہونے لگے۔

یہ ایشو شاید قوم کے حافٖظے سے بھی محو ہو جاتا لیکن حسین حقانی نے 10 مارچ کو واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ کر اپنا ہی گڑھا مردہ دوبارہ زندہ کر دیا‘ مضمون کا عنوانYes, the Russian ambassador met Trump’s team. So? That’s what we diplomats do.(جی‘ روسی سفیر نے ٹرمپ کی ٹیم سے ملاقات کی‘ تو کیا ہوا؟ہم سفیر یہ کرتے رہتے ہیں)تھا‘ حسین حقانی نے اس مضمون میں انکشاف کیا‘ میں نے سویلین قیادت کی اجازت سے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے سی آئی اے کے اہلکاروں کو مدد دی تھی‘ حسین حقانی نے اعتراف کیا میں نے صدر بارک حسین اوباما کی الیکشن مہم کے دوران چند اہم لوگوں سے تعلقات استوار کیے‘ یہ لوگ الیکشن جیتنے کے بعد اوباما کی نیشنل سیکیورٹی کا حصہ بن گئے‘ میں نے ان کی درخواست پر پاک فوج سے بالا بالا سی آئی اے کی مدد کی‘ میں نے یہ مدد پاکستان کی سویلین قیادت (صدر اور وزیراعظم) کی اجازت سے کی‘ حسین حقانی نے لکھا‘ میری وجہ سے امریکی حکومت نے پاکستان کے خفیہ اداروں اور فوج کی مدد کے بغیر اسامہ بن لادن کو تلاش کر لیا‘ امریکا کو فوج اور خفیہ اداروں پر اسلامی انتہا پسندوں سے ہمدردی کا شک تھا‘صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی چاہتے تھے پاکستان طالبان کی حمایت ختم کرے‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی سے فوج کا کردار ختم ہو‘ یہ اس سلسلے میں امریکا سے مدد چاہتے تھے۔

حسین حقانی کے اس اعتراف نے ساری کہانی کھول کر رکھ دی‘ یہ ثابت ہو گیا پاکستان پیپلزپارٹی نے امریکیوں کو بے شمار سہولتیں فراہم کیں‘ امریکا نے ان سہولتوں کی بنیاد پر پاکستان میں جاسوسی کا خوفناک نیٹ ورک بنایا‘ یہ نیٹ ورک جہاں اسامہ بن لادن کے گرد گھیرا تنگ کرتا رہا یہ وہاں پاکستان کے انتہائی حساس علاقوں میں بھی گھس گیا یہاں تک کہ امریکا نے جب اپنے ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد بھجوائے تو ہمارا فضائی نظام انھیں ’’ٹریس‘‘ کر سکا اور نہ ہی ہمارا زمینی نظام انھیں دیکھ سکا‘ یہ ہیلی کاپٹر کالا ڈھاکا میں اترتے اور پرواز کرتے رہے ‘یہ وہاں ری فیولنگ بھی کراتے رہے اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی‘کیوں؟ وجہ بہت آسان تھی‘ امریکا نے جہاں پاکستانی سفیراور سول حکومت کو ہاتھ میں لے رکھا تھا وہاں اس نے ملک میں جاسوسوں کا جال بھی بچھا دیا‘ یہ جاسوس اسلام آباد میں پولیس‘ ریٹائر فوجی افسروں اور اعلیٰ سابق بیورو کریٹس کے گھروں میں بیٹھے تھے‘ یہ اپنے مالک مکان سے معلومات بھی لیتے تھے اور پناہ بھی۔ امریکی جاسوسوں نے ان گھروں میں بم پروف کمرے بنا رکھے تھے‘ یہ فضائی آلات بھی ساتھ لے کر آئے تھے اور یہ لوگ جلال آباد سے ایبٹ آباد تک زمینی روٹ بھی بنا چکے تھے چنانچہ یہ دو مئی کو مکھن کے بال کی طرح آئے اور مکھن کے بال کی طرح نکل گئے اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

میں سمجھتا ہوں حسین حقانی کے اعتراف کے بعد خاموشی کی کوئی گنجائش نہیں بچی‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کو فوری نوٹس لینا چاہیے‘ میمو سکینڈل کی رپورٹ نکالنی چاہیے‘ صدر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ میاں نواز شریف‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو طلب کرنا چاہیے‘ حسین حقانی کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے چاہئیں‘ کیس کی نئے سرے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمے داروں کو کڑی سزا دینی چاہیے‘حسین حقانی کے خلاف پارلیمانی کمیشن بھی بننا چاہیے‘ یہ کمیشن حسین حقانی کو غدار قرار دے‘ دوسرا‘ وقت آ چکا ہے ہم سفارت جیسے اہم عہدوں کے لیے کرائی ٹیریا بنائیں اور اس کرائی ٹیریا پر مکمل عمل کیا جائے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں برطانیہ اور امریکا دونوں اہم ملکوں میں ایسے لوگوں کو سفیر بنایاگیا تھاجن کاپاکستان میں کوئی سٹیک نہیں تھا‘ واجد شمس الحسن مدتوں پہلے برطانیہ شفٹ ہو چکے تھے‘ یہ جون 2008ء میں وہیں سے سفیر بنا دیے گئے۔

یہ دوران سفارت کبھی پاکستان تشریف نہیں لائے‘ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی دوماہ اور چودہ دن سفیر رہے‘ شنید ہے آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے درخواست کی تھی اور میاں صاحب نے اپنے سابق اتحادی کی درخواست پر واجد شمس الحسن کو مزید دو ماہ دے دیے تھے‘ واجد صاحب استعفے کے بعد بھی پاکستان تشریف نہیں لائے‘ حسین حقانی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر اطلاعات بننے کی کوشش کی‘ یہ ناکام ہو ئے اور یہ امریکا ’’جلاوطن‘‘ ہو گئے‘یہ 2008ء میں امریکی اثرورسوخ کی وجہ سے سفیر بن گئے‘ سفارت انجوائے کی‘ امریکیوں کو ’’نوازا‘‘ ای سی ایل تڑوائی‘‘ امریکا گئے اوریہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی نظروں میں آنے کے لیے پاکستان مخالف مضامین لکھ رہے ہیں چنانچہ حسین حقانی ہوں یا واجد شمس الحسن یہ غیرملکی تھے‘ یہ غیرملکی ہیں اور یہ غیرملکی رہیں گے۔

پاکستان ان کا ملک تھا اور نہ ہی ہو گا‘ پاکستان میں ان کی ایک چپہ زمین ہے اور نہ ہی اکاؤنٹ لہٰذا ہم اگر ملک کو غداروں سے بچاناچاہتے ہیں تو پھر ہمیں حسین حقانی جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنا ہو گی‘ یہ لوگ کسی قیمت پر اعلیٰ عہدوں تک نہیں پہنچنے چاہئیں‘ ہم نے اگر آج قانون نہ بنایا‘ ہم نے اگر آج ایسے لوگوں کا راستہ نہ روکا تو یہ لوگ کسی بھی وقت ہمارا ایٹمی پروگرام امریکا کے حوالے کر دیں گے‘ ہیلی کاپٹر آئیں گے اور ہمارا نیو کلیئر پروگرام تباہ کر کے واپس چلے جائیں گے‘ ہم اگر ایسے سانحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں میمو سکینڈل دوبارہ کھولنا ہوگا‘ ہمیں ذمے داروں کو سزا دینی ہو گی‘ یہ معاملہ اب ناؤ اور نیور کے فیز میں داخل ہو چکا ہے‘ ہم نے اگر اب بھی دیر کر دی تو ہم وقت کے بیلنے میں پس جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔