معاملہ عدالتی نظام کا

مقتدا منصور  جمعرات 16 مارچ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ جمعے کو وزیر قانون نے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع کے لیے دستور میں28ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل بھی پیش کردیا ہے۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد یہ ایکٹ فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔ گویا حکومت نے فوجی عدالتوں کو دو برس کے لیے توسیع دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ البتہ ابھی تک پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اس بل کی مخالفت کررہی ہیں۔ توقع یہ ہے کہ جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا حکومت ان دونوں بلوں کو منظور کرانے میں کامیاب ہوچکی ہوگی، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ملک کے عدالتی نظر میں وقت و حالات کے مطابق اصلاحات لانے کے بجائے فوجی عدالتوں پر کیوں تکیہ کیا جارہا ہے؟

اس میں شک نہیں کہ ملک میں مروج عدالتی نظام اپنی فرسودگی کے باعث مسائل کا شکار ہے۔ مقدمات کی طوالت اور فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر عام سی باتیں ہیں۔ یہاں  1972میں بننے والی شباب کیرانوی مرحوم کی فلم ’’انصاف و قانون ‘‘ کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا جس میں فلم کے ہیرو محمد علی مرحوم کلائمکس سین میںعدالت میں بلند آہنگ جذباتی ڈائیلاگ کے ذریعے جیل میں گزرے اپنے 14سال واپس مانگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک فلم کا جذباتی منظر نہیں ۔ بالکل عملاً ایسا ہوتا رہا ہے اور آج تک ہو رہا ہے۔

حال ہی میں چند ایسے رقت آمیز مقدمات سامنے آئے، جن میںبعض ملزمان کو ماتحت عدالتوں سے موت کی سزا سنائی گئی۔ وہ گزشتہ 14 سے 24سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ان میں سے کئی دوران حراست جیل ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مگر سپریم کورٹ میں جب ان کا مقدمہ نظرثانی کے لیے پیش ہوا، تو انھیں بے گناہ قرار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا جو طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاردیا، وہ کون واپس دلائے گا۔ جو جرم کا داغِ ملامت لیے اس دنیا سے چلے گئے، ان کی بے گناہی کی سند کہاں پہنچائی جائے گی۔ لاہور  میں ایک کالج کے طالب علم کا واقعہ تو بالکل تازہ ہی ہے، جسے عدالت عظمیٰ کے احکام پر24برس بعد رہائی مل سکی۔

اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ پورے پاکستان میں18لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان مقدمات کے زیر التوا ہونے اور ان میں تاخیرکی ذمے داری ججوں پر نہیں بلکہ کسی اور پر عائد ہوتی ہے۔وہ سوال کرتے ہیں کہ چار ہزار جوڈیشیل افسران اور جج صاحبان کس طرح اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کو نمٹاسکتے ہیں؟یہاں ’’کسی اور‘‘سے ان کی مراد حکومت اور پارلیمان ہے،جو اس مسئلہ کے حل میں دانستہ یا نادانستہ رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور ریاستی منصوبہ ساز آنکھوں پہ پٹی اورکانوں میں روئی ٹھونسے بیٹھے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کو جب انصاف نہیں ملتا تو وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وطن عزیز میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا۔ اس لیے لوگ اپنے فیصلے خود اپنی طاقت کی بنیاد پر کررہے ہیں۔ جو کہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

خرابی بسیار کی وجہ ہمارا موجودہ عدالتی نظام یعنی Judicial systemہے، جو نوآبادیاتی دور کاعطیہ ہے۔ کرمنل پروسیجر کوڈ(CrPC)، پاکستان پینل کوڈ (PPC)جو اصل میں انڈین پینل کوڈ (IPC)ہے اور پولیس آرڈرسمیت پورا انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ 1860 سے1872کے درمیان ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ قوانین اور عدالتی ڈھانچہ ڈیڑھ سو برس پرانا ہونے کی وجہ سے اس حد تک بوسیدہ ہو چکا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرنے اور تنازعات کو احسن طریقہ سے حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔ جسے قیام پاکستان کے فوراً بعد Re-visit کیا جانا چاہیے تھا، مگر جس طرح آئین سازی کا عمل ٹال مٹول کا شکار رہا۔ اس سے زیادہ بے اعتنائی انتظامی اور عدالتی نظام کی بہتری کے ساتھ برتی گئی۔مگر 7دہائیاں بے مقصد مباحث میںضایع کردی گئیں ۔

اس وقت عدالتی نظام میں تین بنیادی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ اول، عدالتی نظام کی Devolution، یعنی عدالتی نظام کو تحصیل اوراس سے نیچے برطانیہ اور امریکا کی کاؤنٹی کورٹس کی طرز پر یونین کونسل تک منتقل کرنا۔ ان عدالتوں میں چھوٹے مقدمات منتقل کرنے سے ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹس پر سے دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ دوئم، موجودہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور انھیں سہولیات فراہم کی جائیں ، تاکہ زیرالتوا مقدمات کا جلد تصفیہ ہوسکے۔ سوئم، کرمنل جسٹس سسٹم اور قانون شہادت کو ترجیح بنیادوں پر فعال بنانے کے لیے اراکین پارلیمان اور ماہرین قانون(Jurist) پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جائے، جو ایک متعینہ مدت میں اپنی سفارشات پارلیمان میں پیش کرے، تاکہ مقدمات کا جلد تصفیہ ممکن ہوسکے۔

لیکن یہ ساری تجاویز بے سود ہیں، کیونکہ اس قسم کے فیصلوں اوراقدامات کے لیے جس سیاسی عزم (political will)کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری حکمران اور سیاسی اشرافیہ اس سے قطعی عاری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے مفادات بغیرکسی اصلاح احوال پورے ہورہے ہیں۔ اس لیے انھیں مزید دردِ سر پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی اس وقت قانون کے شکنجے میں صرف عام شہری آتا ہے۔ عدالتوں میں خواری اس کا مقدر ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ کے لیے قوانین کی الگ تفہیم ہے۔ عدالتیں بھی ان کے لیے مختلف رویوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ پھر وہ تبدیلیوں کے لیے کیوں ہلکان ہوں۔

2007میں جب عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو امکان پیدا ہوا تھا کہ شاید یہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی شکل میں منتج ہو، مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ اصلاحی نہیں تھی۔ جس کے پس پشت کچھ اور ہی مقاصد تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے اپنے دور میں پوری توجہ سیاسی مقدمات پر مبذول کیے رکھی اور عدالتی نظام میں اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔

اس میں دو منفی رجحانات زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔اول، وکلا اپنی اجتماعی طاقت کا غلط استعمال کرنے لگے ہیں۔ ضلع کچہریوں میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ ججوں کے ساتھ بھی دست اندازی روزکا معمول بن گیا ہے۔ دوئم، مختلف عدالتوں میں بیٹھے جج صاحباں بھی مقدمات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے ریمارکس کی اشاعت اور نشرکیے جانے میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان ریمارکس کو لے کر شام7بجے سے12بجے کے دوران ٹیلی ویژن چینلوں میں عدالتیں سج جاتی ہیں جس کہ وجہ سے اس قدردانشورانہ آلودگی(Intellectual Pollution) پھیل گئی ہے کہ عوام کو سوائے کنفیوژن کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔

معاملہ یہ ہے کہ عدالتیں فوجی ہوں یا خصوصی، مسائل کا دیرپا اور ٹھوس حل نہیں ہیں۔ دو برس کے لیے ایمرجنسی کی صورت میں آپ نے فوجی عدالتیں تشکیل دیں، بہت اچھا کیا۔ مگر اس دوران عدالتی نظام کی بہتری کے لیے کیا کیا؟ کوئی جواب نہیں۔ اب پھر دو برس کے لیے فوجی عدالتیں قائم ہوجائیں گی اور حکومت اپنی جان چھڑا کر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جائے گی۔

یہی کچھ معاملہ رینجرز کے اختیارات کا ہے۔جس طرح رینجرز کو پولیس کی ذمے داریاں سونپنے سے امن و امان کی پائیدار بحالی ممکن نہیں۔اسی طرح فوجی عدالتیں عدالتی نظام کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔اگر حکمران خود کچھ کرنے کے بجائے سب کام فوج ہی سے کرانا ہیں، تو نمائشی طور پر مسند اقتدار پر براجماں رہنے کا تکلف کس لیے ہے۔وہ بھی فوج ہی کے حوالے کردیں، تاکہ قومی خزانے پرسے کچھ تو بوجھ کم ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔