مشفق خواجہ

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 16 مارچ 2017

تم جو پوچھو کہ تمنا کیا ہے
میں یہ سوچوں مجھے کہنا کیا ہے
شہر بستے ہیں خیالوں میں مرے
مجھے تنہائی نے سمجھا کیا ہے؟

ڈاکٹر تحسین فراقی، مشفق خواجہ کی یادوں کو سمیٹے ہوئے لکھتے ہیں۔’’کاش خواجہ صاحب ایسے شعرکہتے اورکثرت سے کہتے۔ افسوس انھوں نے اپنے اندرکے فطری شاعرکا گلا گھونٹ دیا۔ شاعری ان کی محبوبہ تھی، تحقیق منکوحہ۔ ازدواج ثانی ظرافت سے کیا۔ دونوں سے نبھی اور خوب نبھی مگر ۔ اے وائے وائے شاعری۔‘‘

تحسین فراقی اپنے اس مضمون میں جو ڈاکٹر سید نعمان الحق کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’مشفق خواجہ ادارہ، فرد، نابغہ‘‘ میں شامل ہے۔ لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب اپنی شاعری کا تذکرہ شاذ ہی اپنی تحریروں میں یا گفتگو میں کرتے تھے حالانکہ شاعری ان کے اندرکی دنیا کی سچائی تھی۔ یہ اندر سے ٹوٹے ہوئے شخص کا نوحہ غم تھا۔

ڈاکٹر نعمان کی کتاب میں مشفق خواجہ کے دوستوں اور چاہنے والوں کے تاثرات ہیں ان کے علمی اور تحقیقی کاموں، ان کی کتاب دوستی، ان کے طنزومزاح سے پراخباری کالم کی،ان کی شخصیت، ان کی شاعری کے بارے میں کچھ یادیں،کچھ باتیں۔ شمس الرحمن فاروقی کے الفاظ میں مختصراً یہ کہ ’’شاعر وہ، ظریف وطناز وہ شوخ لیکن بالغ نظرکالم نگار وہ منتظم ادب وہ ادبی صحافی وہ محقق وہ نہایت باشعور اور وسیع المطالعہ تنقیدی ذوق کے مالک وہ کتابوں کا شایق اور دوست وہ دوستوں کا خدمت گزار وہ دوستوں کو مراسلے لکھنے والا اور فون کرنے والا وہ کتابت کے فن کی باریکیوں کو اور کتابت کی تہذیب کو سمجھنے والا وہ مشفق خواجہ کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے۔ ان کی شخصیت کچھ ایسی موہنی تھی کہ خود کوکچھ بہت لیے دیے رہنے کے باوجود ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں ’’مشفق خواجہ اردوکے شاید واحد مزاح نگار تھے جنھوں نے ادب، ادیب اور معاشرے کی ناہمواریوں کو ایک مستقل موضوع کی حیثیت دی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ادیب کو معاشرے کا حساس ترین فرد تصور کرتے تھے۔‘‘

مشفق خواجہ کے کالم کے بارے میں جو خامہ بگوش کے فرضی نام سے چھپتے تھے، پہلے ’’جسارت‘‘ میں اور پھر ’’تکبیر‘‘ میں، ڈاکٹر اسلم فرخی بتاتے ہیں کہ وہ یہ کالم بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔ لکھتے ہیں۔ ’’میں نے ایک دن فون کیا، چند مسائل پر بات کرنا تھی مگر انھوں نے کہا آج کالم کا دن ہے، آج لمبی بات نہیں ہوگی۔‘‘ پروفیسر اسلوب احمد انصاری مشفق خواجہ کی کالم نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’خواجہ صاحب بڑے کڑھے ہوئے اور مہذب و مرتعش حسیت کے مالک انسان تھے۔ ان کے طنز میں کاٹ تو ضرور تھی لیکن اتنی نہیں کہ مردم بیزاری کی حدوں کو چھولے۔ ان میں دل آزاری اور جذبہ انتقام کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔‘‘

مشفق خواجہ اپنا کالم فرضی نام سے کیوں لکھتے تھے،اس کی وجہ ڈاکٹر طاہرمسعود بتاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’خواجہ صاحب کے دل کے کسی گوشے میں شہرت اور نام ونمود کی تمنا نہ تھی۔ اصل میں وہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھنا چاہتے تھے لیکن جتنا وہ اپنے آپ کو چھپاتے، ان کا نام اور شخصیت اتنی ہی زیادہ ابھرکر سامنے آتی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ آدمی اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے، لہٰذا اصل اہمیت کام کی ہے، نام میں کیا رکھا ہے۔ شیطان سے زیادہ مشہورکون ہوگا، آپ کتنی ہی کوشش کرلیجیے، شیطان سے زیادہ مشہور نہیں ہوسکتے۔‘‘

راشد شیخ نے مشفق خواجہ کے کالم کی شگفتہ نثرکا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نجی محفلوں میں ان کی گفتگو بھی ایسی ہی شگفتہ ہوتی تھی۔ایک بار ایک محفل میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ذکر ہو رہا تھا۔ محمود احمد عباسی بھی موجود تھے۔ ان کی یہ عادت مشہور تھی کہ وہ دوسروں سے مستعار لی گئی کتابیں واپس نہ کرتے تھے۔ محمود احمد عباسی نے پوچھا ’’کیا کسی نے بابائے اردو کو ان کے انتقال کے بعد خواب میں دیکھا ہے؟‘‘ خواجہ صاحب نے فوراً کہا ’’میں نے دیکھا ہے۔‘‘ عباسی صاحب نے بڑے اشتیاق سے پوچھا ’’وہ کس حال میں تھے، کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ خواجہ صاحب نے جواب دیا ’’وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے اس وقت تک قبر میں چین نہیں آئے گا جب تک محمود احمد عباسی انجمن ترقی اردو سے مستعار لی گئی کتابیں واپس نہیں کرے گا۔‘‘

خواجہ صاحب کے بھائی عبدالرحمن طارق بتاتے ہیں کہ حس مزاح ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کا ہدف عموماً میں ہی بنتا تھا کہ شفقت کا اظہار بھی سب سے زیادہ مجھ پر ہی فرماتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے’’ طارق تمہارے بچے ماشااللہ بہت اچھے ہیں، ذہین بھی ہیں، سعادت مند بھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ خوبیاں ان کے باپ میں بھی ہوتیں۔‘‘

مشفق خواجہ کو کتابوں سے عشق تھا،ان کا گھرکیا تھا کتب خانہ تھا۔کتابوں کے علاوہ خطوط اور کاغذات کا بھی بڑا نادر ذخیرہ تھا۔ قلمی نسخوں کا بھی ذخیرہ تھا۔ مشفق خواجہ ٹرسٹ کے رکن، ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے مطابق خواجہ صاحب کی کتابوں کی تعداد جب کیٹلاگ بنانے کا کام ختم ہو رہا تھا، ساڑھے اٹھارہ ہزار تھی۔ خواجہ صاحب فوٹو گرافی بھی کرتے تھے۔ وہ بہت اچھے فوٹوگرافر تھے۔ شمس الرحمن فاروقی بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ تصویریں تھیں افراد اور مقامات کی اور انھیں اس طرح رکھا گیا تھا کہ بلا توقف مطلوبہ تصویر انھیں مل جاتی تھی۔

مشفق خواجہ کی دوست نوازی کا سب ہی نے ذکر کیا ہے۔ وہ جب کسی دوست کو پریشان یا فکر مند یا تلاش معاش کی الجھنوں میں گرفتار دیکھتے توکوشش کرتے کہ پہلے اس شخص کی خدمت کرلوں، باقی کام پھر ہوں گے۔

سلطان جمیل نسیم بتاتے ہیں کہ ان کا معمول تھا کہ رات کو دو تین گھنٹے ہی سوتے تھے۔ ڈھائی تین بجے سے صبح دس بجے تک کام کرتے، پھرگھنٹہ بھر تک خط لکھنا اور آئے ہوئے خطوط کا جواب دینا۔ اس کے بعد ملاقاتی آجائیں تو ان کے ساتھ وقت گزارنا، ٹیلی فون سننا، دوپہرکوالبتہ دو تین گھنٹے ضرور آرام کرتے۔ اردو کے تمام اہل قلم کے کوائف ایک خاص ترتیب سے فائل بنا کر رکھتے، ہر ادیب کے خط اور خط کے جواب کی نقل بھی فائل میں ترتیب سے رکھتے۔

ڈاکٹر سلیم اختر، خواجہ صاحب کے دوستوں میں سے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشفق خواجہ صحبت نا جنس سے الرجک تھے، اس لیے انھوں نے اپنے آپ کو ادیبوں اورادیبوں کے اجتماعات سے، ادبی تقریبات، مشاعروں اور ضیافتوں سے دور رکھا لیکن جنھیں وہ دوست سمجھتے تھے، یا جن کی علمیت، ذہانت اورشرافت کے قائل تھے ان کے لیے جی جان حاضر تھے۔ مجلسی انسان نہ تھے لیکن جس مجلس میں ہوتے وہاں صرف وہی بولتے کہ علم کی ہنڈیاں میں طنز کا بگھار لگانے کے ماہر تھے۔

خواجہ صاحب کی زندگی کے آخری سال جن ذہنی پریشانیوں اورجسمانی بیماریوں میں گزرے ان کے اظہار سے انھوں نے ہمیشہ گریزکیا۔ان کے چھوٹے بھائی طارق بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب کے قریب ترین احباب بھی یہ اندازہ نہ لگاسکے کہ ہر وقت ہنسنے اورہنسانے والے اس شخص کی روح کے ساتھ تنہائی کے اور جسم کے ساتھ دکھوں کے کیسے کیسے زہریلے ناگ لپٹے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے اور ہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ جمیل الدین عالی کے نام ایک خط میں خواجہ صاحب نے لکھا تھا۔’’میں اپنی فقیری اورگوشہ نشینی میں اتنا مطمئن ہوں کہ اس معیار عافیت سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں بیدل کی زبان میں اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا:

دنیا اگر دہند نہ جنبم ز جائے خویش
من بستہ ام حنائے قناعت بپائے خویش

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔