مینا کی کہانی

کوثر جبیں  جمعـء 17 مارچ 2017
 اگر لڑکی کے پاس تعلیم ہوگی تو کسی ہنر کے بغیر بھی اپنے گھر کو کمزور نہیں ہونے دے گی، کیونکہ اُس کے پاس سمجھ ہوگی۔ فوٹو: فائل

اگر لڑکی کے پاس تعلیم ہوگی تو کسی ہنر کے بغیر بھی اپنے گھر کو کمزور نہیں ہونے دے گی، کیونکہ اُس کے پاس سمجھ ہوگی۔ فوٹو: فائل

سالوں پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر بچوں کے لئے ایک بامقصد کارٹون سیریز ’مینا کی کہانی‘ اردو زبان میں دکھائی جاتی تھی۔ اِس میں مینا ایک چھوٹی سی بچی تھی جو گاؤں میں رہتی تھی۔ مینا کے گھر میں والدین مینا کے مقابلے میں اُس کے بھائی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ کھانے پینے، کام کرنے اور اسکول جانے، غرض ہر چیز میں بھائی کو چھوٹا ہونے کے باوجود مینا پر فوقیت حاصل تھی کیوںکہ وہ ایک لڑکا تھا۔ مینا کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہونے کے باوجود اسکول نہیں بھیجا جاتا تھا، کیوںکہ اُس کے والدین کی نظر میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا غیر ضروری اور گھر کے کام کاج اور کھانا پکانا سیکھنا زیادہ اہم تھا۔

مینا ایک ذہین بچی تھی اور اسکول جانا چاہتی تھی۔ وہ چُھپ چُھپ کر اسکول جاتی اور جب سب بچے پڑھ رہے ہوتے تو کھڑکی کے پیچھے چُھپ کر خود بھی پڑھ لیا کرتی تھی۔ جلد ہی اُس کی ذہانت اور تعلیم کے شوق کا سب کو معلوم ہوگیا اور پھر محلے والوں کے سمجھانے پر اُس کے والدین کو بھی احساس ہوا کہ اُنہیں اپنی بیٹی کو تعلیم دلوانی چاہیئے۔ اِس طرح وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ اسکول جانے لگی، یعنی اِس کہانی کا انجام ہر کہانی کی طرح اچھا ہی تھا۔

کچھ سال پہلے تک ہمارے معاشرے کے زیادہ تر گھرانے مینا کے گھر جیسے ہی تھے جہاں تعلیم سمیت ہر معاملے میں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت حاصل تھی کیوںکہ بیٹی کو پیا دیس سدھارنا ہوتا ہے، جبکہ لڑکے خاندان کا چراغ اور والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں بتدریج اِس خیال اور عقیدے میں تبدیلی اور بہتری آرہی ہے اور لوگ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوانے لگے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے۔ بہت سی جگہوں پر اب بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دینے کا زبردست رجحان پایا جاتا ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ لڑکیاں تعلیمی میدان میں لڑکوں سے زیادہ پڑھائی میں سنجیدہ اور ذہین ہوتی ہیں، جبکہ لڑکے ذہانت کے باوجود لااُبالی پن اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اِسی بناء پر جن جگہوں پر بغیر کسی جنسی تفریق کے تعلیم دی جاتی ہے، وہاں اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں زیادہ تعداد طالبات کی ہوتی ہے اور امتحانات میں نمایاں کامیابیاں بھی طالبات کے ہی حصے میں آتی ہیں۔

ہمارے ہاں پچھلے کچھ سالوں میں لڑکیوں کی خواندگی کے تناسب میں اضافہ ہوا تو ہے لیکن صورتحال میں آنے والی بہتری کی رفتار انتہائی سست ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام میں مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے، لیکن اِس کے باوجود ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، اُن کو صرف اتنی تعلیم دلوا دی جاتی کہ وہ لکھ پڑھ لیں، اُس کے بعد اکثریت کو شادی کے انتظار میں گھر بِٹھا دیا جاتا ہے اور اِس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمیں لڑکی سے کوئی نوکری نہیں کروانی ہے جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔

حالانکہ لڑکیوں کو نوکری سے بھی زیادہ اہم کام کرنا یعنی ایک نسل کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اگر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوگی تو اپنی اولاد کے لیے بھی تعلیم کی اہمیت سمجھیں گی اور انہیں معاشرے کا تعلیم یافتہ، باشعور اور کارآمد شہری بنائے گی۔ کیونکہ علم ہی اچھے بُرے میں فرق کرنا سکھاتا ہے۔

تعلیم عورت کو باغی نہیں، باشعور بناتی ہے، اُنہیں بہتر فیصلہ سازی کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ ہمارے یہاں بیٹیوں کی تربیت میں اُٹھنے بیٹھنے کی تمیز، سلائی کڑھائی، کھانا پکانا اور گھر بنانے کے سارے گُر سکھائے جاتے ہیں لیکن انہیں تعلیم نہیں دلوائی جاتی۔ جبکہ اگر لڑکی کے پاس تعلیم ہوگی تو کسی ہنر کے بغیر بھی اپنے گھر کو کمزور نہیں ہونے دے گی، کیونکہ اُس کے پاس سمجھ ہوگی۔

درحقیقت بچپن کا دور موم کے مماثل ہوتا ہے۔ اُس وقت بچے کو جس صورت میں بھی ڈھالنا چاہیں آسانی سے ڈھال سکتے ہیں اور یہ کام ماں ہی کرتی ہے۔ بچے کی بنیادی ابتدائی تربیت گھر میں ہوتی ہے، اسکول جانے کے بعد بھی وہ اپنے دن کا زیادہ وقت ماں کے ساتھ ہی گزارتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں کی زیرِ نگرانی بچوں میں بہترین ذہنی اور فکری صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ بچہ زیادہ تر گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے خود بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر، ذہن کی آبیاری میں سب سے زیادہ کردار ہمارے معاشرے میں ماں کا ہی ہوتا ہے۔ اب اگر ماں تعلیم سے آراستہ ہوگی تو بچے بھی اُسی کی طرح تعلیم و شعور کو اہمیت دیں گے اور دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کی اولین ترجیح تعلیم ہوتی ہے۔ لہذا ہمیں ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے لیے تعلیم کو روٹی اور کپڑے جیسی بنیادی ضروریات جتنی اہمیت دینا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔