تھر:عشق کی ہر دَم نئی بہار (دوسری قسط)

عبد الطیف ابو شامل  اتوار 13 جنوری 2013
’’سائیں! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آدمی آدمی کو جان سے ماردے‘‘ ایک معصوم تھری کا استفسار  فوٹو : فائل

’’سائیں! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آدمی آدمی کو جان سے ماردے‘‘ ایک معصوم تھری کا استفسار فوٹو : فائل

 ہم اسلام کوٹ سے ہوتے ہوئے ننگرپارکر کے لیے روانہ ہوئے۔ بارش کے بعد تھر میں خوب صورت پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔ طرح طرح کے پرندے… میں تو اُن کے نام نہیں جانتا، میں نے ایک جگہ کوئل کو کُوکتے ہوئے سنا، تو مجھے میاں محمد بخش یاد آئے ؎

پگلی کوئل کُو کُو کرکے کس کو کُوک سنائے
دکھ سے بھری ہے دنیا ساری، سُکھ پھر کہاں سے آئے

میں نے سوچا، کوئل کو کیا معلوم کہ دنیا دکھوں کا مسکن بن رہی ہے۔ وہ تو بس اپنا کام کررہی ہے۔ اُس کا کام تو صرف اِتنا ہی ہے، کُوکنا۔ کیا ہم اپنا کام کررہے ہیں؟ ہم تو سمجھ دار ہیں ناں… اور اشرف المخلوقات بھی… ہمارا کیا کام تھا؟ کیا فرائض تھے؟ کیا ہم نے اپنے حصے کے سُکھ بانٹے، کیا ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا؟ چلیے چھوڑیے، ابھی تو ہمیں اور بھی بہت سے کام ہیں۔ فرصت ملی تو سوچیں گے۔

میں نے اتنی ساری فاختائیں اور ایک جگہ پر، کبھی نہیں دیکھیں۔ فاختہ کو دیکھتے ہی مجھے شاخِ زیتون یاد آئی… امن کی پیام بر فاختہ اور زیتون یاد آتے ہی مجھے فلسطین اور لبنان یاد آئے اور پھر مہذب، پڑھی لکھی اور ترقی یافتہ دنیا اور اُس کے باسی‘ موت برسانا جن کا کام ہے۔

ایک جگہ رک کر میں نے ایک تھری سے پوچھا،’’تمہیں معلوم ہے لبنان پر بم باری ہورہی ہے!‘‘ اُسے سمجھانے میں مجھے بہت مشکل پیش آئی، پَر وہ سمجھ گیا تھا، کہنے لگا، ’’سائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آدمی آدمی کو مارے!‘‘

میں نے کہا ’’کیا تھر میں آدمی کو آدمی نہیں مارتا؟‘‘

’’سائیں بالکل نہیں، ہاں کبھی کبھی چھوٹا موٹا جھگڑا ہو بھی جاتا ہے، بس زبانی کلامی… یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آدمی کو جان سے مار دے۔‘‘

وہ یہ بات ماننے پر تیار نہیں تھا کہ نہتے معصوم شہریوں پر بم برساکر اُنھیں فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ میرے اندر خیال جاگا… یہ تو دیہاتی ہے، اِس نے تو کبھی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی… سادہ لوح انسان… یہ کیا جانے ترقی کے معنی، جس کا ایندھن انسان ہیں۔ اِتنا سارا بگاڑ اب کیسے نمٹائیں گے؟ کوئی نہیں سوچتا۔ کوئی بھی نہیں۔ وہ روشن دین نے بالکل صحیح کہا تھا ؎

کیا بیچا، کیا بیچ کمایا
بدیوں کا سر بوجھ اٹھایا
جان بچاری چُھپ چُھپ جائے
لینے والے، لینے آئے
جب لینے والا لینے آئے گا تب ہم کیا کریں گے؟ پتا نہیں۔

ننگرپارکر روانہ ہونے سے پہلے ہم نے اپنے دوست ’’جانُو ڈھاٹی‘‘ کو اطلاع کردی تھی اور اُس کا بھی پیغام مل گیا تھا کہ وہ سڑک کے کنارے ہمارا‘ انتظار کرے گا، لیکن ہم خوب صورت مناظر میں اِس قدر محو تھے کہ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہا تھا۔

خوش باش تھری اپنی زمینوں میں ہل چلا رہے تھے اور خواتین اُن کا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ تھر کی خواتین بہت باحیا اور بہت جفاکش و محنتی ہیں… وہ اپنے مردوں کا پورا ساتھ دیتی ہیں… گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ وہ کھیتی باڑی میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہیں۔ ایک کھیت میں کام کرنے والے نوجوان تھری سے میں نے پوچھا، ’’تم نے کیا کاشت کیا ہے؟‘‘ پہلے تو وہ مسکرایا اور پھر بولا،’’سائیں یہاں کیا کاشت کرنا ہے، بس اپنے گزارے کے لیے جوار، باجرا اور تل کاشت کیے ہیں۔‘‘،’’اچھا تو کب تک فصل تیار ہوجائے گی؟‘‘،’’سائیں بس بارش پر ہے۔ ابھی تو ہم نے بیچ بودیا ہے، اﷲ سائیں پھل بھی دے گا۔‘‘ ’’اور اگر زیادہ تیز بارش ہوگئی تب کیا کروگے؟‘‘ میں نے پوچھا،’’ہم نے کیا کرنا ہے سائیں، ہم نے جو کرنا تھا کردیا اب تو رب سائیں کرے گا اور وہ جو کرے گا بھلا کرے گا۔‘‘

آپ اِسے کیا کہتے ہیں؟ اِسے کہتے ہیں توکل اپنے رب پر، کامل بھروسا۔ مجھے اپنا ’’دادُو‘‘ یاد آیا۔ داد محمد بلوچ کو ہم پیار سے دادو کہتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگا،’’دیکھو واجا! زیادہ سوچ موچ کا ضرورت نہیں ہے، جس نے چونچ دیا ہے وہی دانہ بھی دے گا، نہیں تو اپنا چونچ بھی واپس لے لے گا۔ ابھی اپنا آخرت کا فکر کرو ڑے۔‘‘ اِس کے لہجے پر مت جائیے، ذرا غور کیجیے، یہ ہے اصل بات۔

تھریوں کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ مہندر چار بچوں کا باپ ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کی بیوی اب بھی اُس کے ماں باپ کے سامنے اُس سے بات نہیں کرتی، راستے میں مرد آگے اور عورت پیچھے چلتی ہے۔ شادی کی رسومات دو ڈھائی ماہ پہلے شروع ہوجاتی ہیں اور شادی کے دو، ڈھائی ماہ بعد تک چلتی رہتی ہیں، لیکن سادگی کے ساتھ۔ شادی کے گیت، تھریوں کا والہانہ رقص… پورا گائوں خوشیوں اور غموں میں ساجھے دار ہوتا ہے۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔

ایک درخت کے سائے تلے میں نے تین بچیوں کو دیکھا تو میں رُک گیا۔ ’’تم لوگ کیا کررہی ہو یہاں پر۔‘‘ وہ ہنسنے لگیں۔ ’’تم کیوں ہنس رہی ہو؟‘‘ اُنھوں نے میرے بالوں کو دیکھ کر پوچھا،’’کیا تم جوگی ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ ’’کیا سانپ پکڑنے آئے ہو؟‘‘ ’’ہاں اُسے ہی پکڑنے آیا ہوں۔‘‘ ’’تو پکڑونا اُسے‘‘۔ ’’کہاں ہے وہ؟‘‘ ’’یہیں پر ہوگا، ہمیں کیا پتا؟‘‘

ہاں میرا بہت جی چاہتا ہے… سانپوں کو پکڑلینا چاہیے… وہ لوگوں کو ڈس لیتے ہیں۔ حالاںکہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا ڈسنے سے، بس عادت ہوتی ہے۔ کیا آپ نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جو دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں چاہے اُنھیں کوئی فائدہ نہ ہو۔ بس وہ سانپوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بھٹ شاہ کے لطیف نے کہا تھا، ’’سانپ دیکھنے میں خوب صورت ہوتے ہیں مگر اُن کے پہلو میں شہد نہیں زہر ہوتا ہے۔‘‘

تھر کے ہر گائوں میں آپ کو ایسے بڑے بوڑھے ضرور ملیں گے جو تھر کی پوری تاریخ سے واقف ہیں۔ پوری تاریخ سے ہی نہیں لوگوں کے شجرۂ نسب تک اُنھیں یاد ہیں۔ آپ گائوں کے کسی فرد کے متعلق دریافت کرلیں۔ اُس کا پورا شجرہ آپ کے سامنے بیان کردیں گے۔ نوجوان بزرگوں کی بہت عزت کرتے ہیں… اُن کے آگے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے… وہ اگر ڈانٹ دیں تو خاموشی سے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔

ہم پڑھے لکھے مہذب کیا کرتے ہیں؟ کبھی ہم نے سوچا! میں نے چوپالوں میں دیکھا، گائوں کے لڑکے بالے اپنے کسی دوست کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ بس کسی نا کسی کی شامت آہی جاتی ہے، لیکن مجال ہے تلخی پیدا ہو۔ اِتنی برداشت، اتنا تحمل… ہم شہری اِس سے محروم ہیں۔ کبھی فرصت ملے تو ضرور جائیے تھر… اور دیکھیے ہم کس کس نعمت سے محروم ہیں اور وہ دورِ جدید کی ساری آسائشیں نہ ہونے کے باوجود کس قدر ہنس مکھ، ملنسار اور پُرسکون ہیں۔ وہاں کسی سیمینار کی ضرورت نہیں ہے، کہ وہ پُرامن رہیں، پُرسکون رہیں، برداشت سیکھیں، انسانیت سے پیار کریں… اُن کی گُھٹّی میں یہ سب کچھ ہے۔ انہیں کسی لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ بھی تو کسی یونیورسٹی کے پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بھٹ شاہ کے لطیف سائیں کے اِس سوال کا جواب ہے ہمارے پاس…؟

’’کونجوں نے اُڑان بھرتے غول ہی کو
اپنا وطن بنالیا ہے
اِن کے میل ملاپ کا بندھن نہیں ٹوٹتا
آخر انسانوں میں اتحاد کیوں نہیں ہے؟‘‘
ایک دوسرے کے کام آنے، ایک دوسرے کا سہارا بننے کو بھٹائی لطیف سائیں نے اِس طرح بیان کیا ہے:
’’آبِ جُو کے کنارے اُگی گھاس کتنی غیرت مند ہے
ڈوبنے والے کو سہارا دے کر بچا لیتی ہے
اور اگر نہ بچاسکے
تو خود بھی اُس کے ساتھ ہی ڈوب جاتی ہے۔‘‘
آپ کیا کہتے ہیں اس کے بارے میں۔!!!

……٭٭٭……

سائیں! آپ آئے تو ہمارے بھاگ جاگ گئے
تھر کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں… بہت زیادہ۔ جان نہ پہچان، بس آپ اُن سے سلام دعا کرلیں، وہ آپ کی خاطر مدارت شروع کردیں گے۔ کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ بالکل بھی نہیں… بس آپ مہمان ہیں، پردیسی ہیں… اب آپ کی رہائش، کھانے پینے، آسائش و آرام کی ذمے داری اُن کی ہے۔ آپ لاکھ انکار کردیں، وہ نہیں مانیں گے۔ ایک تھری نے ہمیں کھانے کے لیے روکنا چاہا… ہم نے اپنی مصروفیت سے آگاہ کیا تو وہ کہنے لگا: نہیں سائیں، آپ کو میری چائے تو پینی ہی پڑے گی، ورنہ میں ناراض ہوجائوں گا۔

کھلے صحرا میں ایک چھپر تلے وہ چائے بنانے کی تیاری کرنے لگا۔
اِدھر اُدھر سے جھاڑیاں جمع کیں۔ تین اینٹوں کے چولہے کے اوپر دیگچی میں پانی ڈالا اور آگ سلگاکر اسے پھونکیں مارنے لگا۔ دھویں سے اُس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، لیکن وہ منہمک تھا۔ پانی گرم ہونے پر اُس نے ایک چائے کی پڑیا اور شکر ڈالی، اُبال آنے پر دودھ ڈال کر وہ ہم سے مخاطب ہوا،’’سائیں آپ بہت اچھے ہو۔‘‘

’’کیوں؟ تم بہت اچھے ہو یار… نہ جان نہ پہچان اور چائے پلارہے ہو ہمیں۔‘‘
’’نہیں سائیں، آپ کا وقت بہت منہگا ہے، ہمیں کیا کام ہے یہاں…! بس آپ نے ہمیں عزت دی‘ اﷲ سائیں آپ کو عزت دے۔ بہت مہربانی سائیں۔‘‘

جب میں سسّی کے گائوں پہنچا تھا، تب مجھے بتایا گیا کہ یہاں پر ہر پردیسی کا استقبال کھلے دل سے کیا جاتا ہے۔ ایک گھر کو باقاعدہ مہمان خانہ بنایا گیا ہے جس میں اپنے تئیں ہر سہولت فراہم کی گئی ہے۔ خود بھوکے سو جائیں گے آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ گھر میں موجود ہر نعمت آپ کے لیے حاضر کردیں گے۔ مجھے وہ تھری بھی یاد ہے جس نے کہا تھا،’’سائیں! آپ لوگ آئے، میرے تو بھاگ جاگ گئے۔‘‘ جب میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو اس نے کہا،’’سائیں! مہمان تو اﷲ سائیں کی رحمت ہوتے ہیں، جس سے اﷲ سائیں خوش ہوتا ہے اُس کے گھر مہمان بھیجتا ہے۔ مہمان آنے سے رزق میں، روٹی میں برکت ہوتی ہے۔ ہم نے آپ کو کھلایا‘ اﷲ سائیں ہم کو کھلائے گا۔ آپ کے حصے کا دانہ ہمارے گھر لکھا تھا، ہم نے وہ آپ کو کھلادیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلاّ۔‘‘

ہمارے ہاں اب کیا ہوتا ہے، ’’گھر آنے سے پہلے فون کرلیجیے گا۔‘‘، ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ شہری زندگی میں اب مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ انسان کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ لاکھ مسائل ہیں… ہم سب زندگی سے جنگ میں کھپ رہے ہیں۔ لیکن آپ اِسے کچھ اور نہ سمجھیے۔ میں نے دیکھا ہے اب ہم گھر پر مہمان آنے سے کوفت میں مبتلا ہوجاتے ہیں… مہمان کے سامنے تو مسکرا کر کہتے ہیں: اچھا کیا آپ آئے۔ اُس کے جانے کے بعد ہم کیا کہتے ہیں! چلیے کوئی اور بات کرتے ہیں۔

تھر کول پروجیکٹ سے گزرتے ہوئے ارباب مالک کی آواز آئی، ’’لطیف بھائی! یہاں ہیں کوئلے کی کانیں، اگر یہاں پر یہ پروجیکٹ لگ گیا تو تھر میں بہت خوش حالی آجائے گی، سب دکھ درد دور ہوجائیں گے، روزگار ملے گا… اور بھی بہت کچھ۔‘‘ لیکن میں دوسری طرف نکل گیا تھا… میں سوچنے لگا: ہاں خوش حالی تو آہی جائے گی، آسائشیں بھی، شہری تمدن بھی سر اٹھائے گا، پیسے کی ریل پیل بھی… لیکن کیا ایسا ہوگا بھی! اوّل تو یہاں سرمایہ دار ہمارے خوب صورت اور سادہ دل تھریوں کا خون چوس لے گا۔ سب کچھ سرمایہ دار سمیٹ کر لے جائے گا۔

چلیے، اﷲ کرے ایسا نہ ہو، تب بھی ہمارا تھر کیا اتنا ہی خوب صورت رہے گا؟ تھری جیسے اب ہیں ویسے ہی رہیں گے؟ یا صنعتی ترقی ہمارے تھر کو نیست و نابود کردے گی؟ تھر میں اُس وقت بھی اسی طرح چوپال جمے گی؟ اسی طرح سب باہم شیرو شکر رہیں گے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات سر اٹھائے کھڑے تھے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ بس اندیشے تھے… وحشت ناک خدشات… اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کا کوبرا پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ اﷲ ہمارا تھر سلامت رکھے، اور ہمارے تھریوں کو بھی۔ دُور سے مجھے میاں بردے خان برداؔ کی پُرسوز آواز سنائی دی ؎

عمر حباب ہے، جیسے سایا سورج سے ڈھل جائے
جس دَم پر مغرور ہوا تُو، یہ دَم آئے نہ آئے
کبھی نہ جَو سے گندم پھوٹے، آک نہ آم اگائے
برداؔ جب تک تیل دیے میں، تب تک جلتا جائے

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔