روشن راستہ

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  اتوار 19 مارچ 2017
آپ کی زندگی سے جڑے سوالوں کے بہتر جوابات۔ فوٹو : فائل

آپ کی زندگی سے جڑے سوالوں کے بہتر جوابات۔ فوٹو : فائل

مراقبے کے اثرات
(گزشتہ سے پیوستہ)
مراقبہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟مزید چند معروضات:
انسانی ذہن بے شمار صلاحیتوں اوران صلاحیتوں سے کام لینے کے لیے نہایت اعلیٰ استعداد کا حامل ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر لوگ اپنی کئی صلاحیتوں سے واقف ہی نہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی صلاحیتوں سے تو واقف ہیں لیکن وہ ان سے کام لینے کی استعداد کو متحرک (Activate) نہیں کرپاتے۔ مراقبہ کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی اپنی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کے قابل ہوسکتا ہے۔

مراقبہ ذہن کے ان حصوں کو متحرک کرتا ہے جن کا تعلق سوچ بچار، یادداشت، ترتیب وتوازن، فہم وفراست ، تخلیقی امور، حرکت وغیرہ سے ہے۔ ان مفید اثرات کے پیش نظر:

طالب علم بہتر گریڈ کے حصول کے لیے مراقبہ سے فائدہ اْٹھا سکتے ہیں۔ خواتین ِخانہ اپنی تخلیقی سوچ (Creativity) کو اجاگر کرکے اپنے گھر کی آرائش وزیبائش کے ساتھ گھر کے ماحول کو پرسکون بنانے کے لیے مراقبہ سے مدد لے سکتی ہیں۔ مختلف پروفیشنز سے وابستہ افراد مثلاً اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بینکار، بزنس ایگزیکٹیو اور دیگر شعبوں سے متعلق حضرات وخواتین ذہنی سکون، یکسوئی، فہم وفراست میں اضافے اور قوت کار کی بہتری کے لیے مراقبہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

قلب، نظام ِدوران ِخون، اینڈوکرائن نظام وغیرہ پر اچھے اثرات کی وجہ سے مراقبہ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ دوران مرض جلد شفایابی کے لیے مراقبہ معاون ہے۔ حالت صحت میں مختلف جسمانی نظاموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جلد کے لیے بھی مفید اثرات کا باعث بنتا ہے۔ جلد کی شفافیت، چہرے پر نکھار اور کشش وجاذبیت کے لیے مراقبے سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ کم خوابی یا بے خوابی میں بھی مراقبہ مفید ہے۔ ٹھیک طرح مراقبہ کرنے سے گہری اور پرسکون نیند آتی ہے۔

راہِ سلوک کے مسافر خود اپنی ذات سے آگہی کے لیے، اس کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے اور خالق کائنات کے عرفان کے لیے مراقبے سے مدد لیتے ہیں۔

غرض جسم کے معاملات ہوں یا روح کے، مادی دنیا ہو یا روحانی عالم مراقبہ ہر جگہ کسی نہ کسی طرح مفید ومعاون ہے۔

بے پرواہ بھائی
سوال: ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں، ہمارے والد صاحب انتقال کرچکے ہیں۔ والد نے جائداد اور اتنا بینک بیلنس چھوڑا ہے کہ آرام سے گزر بسر ہورہی ہے۔ والد مرحوم کے بعد بڑے بھائی گھر کے ذمے دار ہیں۔ ہمارے دور کے ایک رشتے دار گھرانے نے ہمارے بھائی کو نہ جانے کس طرح اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ وہ دن رات انہی لوگوں کے گُن گاتے ہیں۔ لوگوں نے بتایا ہے کہ بھائی اُن کے اوپر خاصی رقم بھی خرچ کرچکے ہیں۔ امی بھائی کو سمجھاتی ہیں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔
(نام نہیں لکھا)
جواب: رات سونے سے قبل 21 بار بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظO اول آخر تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بھائی کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ وہ والدہ کے فرمانبردار اور سب گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہیں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک کیا جائے۔

ہچکی
سوال: مجھے کافی عرصے سے ہچکیوں کی شکایت ہے۔ کبھی یہ تکلیف اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دفتر میں کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
(کاشف۔ اسلام آباد)
جواب: صبح شام ایک ایک پیالی زرد شعاعوں میں تیارکردہ پانی پر اکیس مرتبہ یا شافی پڑھ کر دم کرکے پییں ۔ چند ہفتوں تک روزانہ الائچی کھایا کریں۔ کھانوں میں ثقیل اور بادی اشیاء اور تیز نمک مرچ مسالوں سے چند دنوں کے لیے پرہیز کیجیے۔

والدہ کا حکم اور بیوی
سوال: پانچ سال پہلے میری شادی والدہ نے خالصتاً اپنی پسند سے کی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ساس بہو میں کشیدگی ہوئی۔ میری بیوی دوسرے تیسرے دن اپنے میکے جایا کرتی تھی۔ میری والدہ نے مجھے کہا کہ تمہاری بیوی کا مہینے میں ایک بار میکے جانا کافی ہے۔ والدہ کے اس حکم پر میری بیوی نے احتجاج کیا روئی دھوئی بھی۔ لیکن میں نے کہا کہ اپنی ماں کے حکم کی تعمیل میرا فرض ہے۔ ماں کی نافرمانی سے میں سخت گناہ گار ہوں گا۔ دوسری طرف ساس، بہو کے تعلقات روز بروز بگڑتے رہے۔ اب میری والدہ کہتی ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ میرے دو بچے ہیں۔ میں شدید ذہنی دباؤ میں ہوں۔ اگر بیوی کو نہ چھوڑوں تو ماں کی نافرمانی ہوتی ہے۔ اگر ان کے حکم کی تعمیل کروں تو بچوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔
(نام شائع نہ کیا جائے)
جواب: اسلام نے مرد و عورت، والدین اولاد، میاں بیوی سب کے حقوق و فرائض کا بالکل واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ ماں کے اپنے حقوق اور درجات ہیں۔ بیوی کے اپنے حقوق اور اپنا مقام ہے۔ ان میں کہیں باہم تصادم نہیں ہے۔ ساس بہو کا قضیہ ہزاروں برس سے چلا آرہا ہے۔ جو لوگ اپنی ماں کے کہنے پر بیوی کے ساتھ ناجائز سلوک کرتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی بیوی کی باتوں میں آکر ماں باپ کو نظرانداز کرتے ہیں، دونوں کا یہ عمل احسن نہیں بل کہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ آپ اپنی والدہ کی عزت و تکریم کیجیے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کے تمام حقوق کا خیال بھی رکھیے۔ آپ کی والدہ کا یہ مطالبہ ذاتی انا اور بہو کے خلاف معاندانہ جذبات کا عکاس ہے۔ مطمئن رہیے! اس مطالبے کو پورا نہ کرکے آپ والدہ کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔

کبوتر
سوال: میرا 27 سالہ بیٹا اچھی طبیعت کا مالک ہے۔ والدین، بہن بھائیوں کا خیال رکھتا ہے۔ اسے بس ایک بُرا شوق، کبوتر پالنے کا ہے۔ شام کو پابندی سے کبوتر اڑاتا ہے۔ ان کے دانے پانی، پنجرے کی صفائی ستھرائی کے لیے بہت فکرمند رہتا ہے۔ میں چاہتی ہوںکہ وہ اس فضول شوق سے چھٹکارا حاصل کرلے۔
(ن۔س: حیدرآباد)
جواب: آپ کا بیٹا اپنی معاشی اور گھریلو ذمے داریاں ٹھیک طرح ادا کررہا ہے۔ اگر وہ کبوتروں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر خوش ہولیتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اس کے ایک شوق کی تکمیل کی مزاحمت کرنے کے بجائے اسے یہ شوق پورا کرلینے دیں۔ کبھی آپ خود بھی اس سے کبوتروں کے بارے میں پوچھ لیا کریں۔ آپ کی اس بات سے آپ کا بیٹا خوشی محسوس کرے گا۔

مرحومہ ماں کی یاد
سوال: دو ماہ پہلے میری والدہ صاحبہ اس دنیا سے چلی گئیں۔ ان کی وفات کے بعد اس دنیا سے میرا دل اچاٹ ہوگیا ہے۔ ہر وقت ان کی یاد میں روتی رہتی ہوں۔ میری امی انتہائی شفیق اور نیک دل خاتون تھیں۔ میں بی اے کی طالبہ ہوں مگر صدمے کی وجہ سے پڑھ نہیں پا رہی۔
(شاہدہ۔ گجرات)
جواب: ماں باپ کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں۔ انسان کی عمر خواہ کتنی ہی ہوجائے اور وہ معاشرے میں کتنا ہی بلند مقام حاصل کرلے۔ ماں باپ خاص طور پر ماں کی موجودگی میں اسے بہت تقویت اور سہارا رہتا ہے۔ ماں باپ میں سے کسی ایک کے اس دنیا سے چلے جانے سے پیدا ہونے والا خلا پُر نہیں ہوتا۔ آپ ہر نماز کے بعد 101 مرتبہ انا ﷲ وانا الہ راجعون O گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر والدہ کو ایصالِ ثواب کریں اور اپنے لیے صبرِجمیل کی دعا کریں۔ اپنی والدہ مرحومہ کو مستقل ایصالِ ثواب کرتی رہیں۔

اعصابی کمزوری
سوال: میرا دل ہر وقت پریشان رہتا ہے۔ گھبراہٹ اور بے چینی بہت ہوتی ہے۔ مجھے اکثر اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نیند بھی بار بار اچاٹ ہوتی ہے۔ کئی طرح کے ٹیسٹ کرواچکی ہوں ۔ سب رپورٹس نارمل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں سے رجوع کیا ۔ کسی نے کچھ بتایا کسی نہ کچھ۔ ایک صاحب نے بتایا ہے کہ تمہیں کسی وظیفے کی رجعت ہوگئی ہے۔
(مہوش۔ کراچی)
جواب: یہ سب علامات کسی وظیفے کی رجعت کی نہیں ہیں۔ اس بارے میں کسی قسم کے وہم یا بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں۔ آپ شدید اعصابی کمزوری اور ٹینشن میں مبتلا ہیں۔ صبح شام 100 مرتبہ اسم الہٰی ’’یاحمید‘‘ اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے پییں۔ نیلی شعاعوں میں تیار کردہ پانی ایک ایک پیالی صبح شام پییں۔ سہیلیوں کے ساتھ میل جول رکھیں۔ ہفتے میں دو تین بار گھر سے باہر سیروتفریح کے لیے جایا کریں۔ اچھی کتابیں اپنے مطالعے میں رکھیں۔ ڈاکٹری علاج بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔

دوسری شادی
سوال: میری شادی چند سال پہلے اپنے ماموں زاد سے ہوئی۔ وہ انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ میں شادی سے پہلے اپنے گاؤں سے باہر صرف جہلم تک گئی تھی۔ کبھی لاہور یا راولپنڈی بھی جانا نہ ہوا تھا۔ شادی کے بعد میں بریڈ فورڈ چلی گئی۔ مجھے انگلش بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے منگنی کے بعد پاکستان میں رہتے ہوئے اور انگلینڈ جانے کے بعد بھی اپنے شوہر سے بات چیت میں مجھے بہت مشکلات ہوئیں۔ میری ساس اور سسر نے میری بہت مدد کی لیکن میرے شوہر میرے ساتھ ٹھیک طرح نہیں ملتے تھے۔

انہوں نے مجھے انگلینڈ بلا تو لیا لیکن نیشنلٹی کے لیے کاغذات جمع نہیں کروائے۔ تقریباً چھے ماہ انگلینڈ میں قیام کے بعد میں پاکستان واپس آئی۔ اپنے ساس سسر کی ہدایت کے مطابق میں نے پاکستان آتے ہی برطانیہ کے ویزے کے لیے اپلائی کردیا، لیکن میرے شوہر نے اپنی ملازمت اور آمدنی کے کاغذات نہ بھیجے اس لیے برطانوی ویزے کے لیے میری درخواست مسترد ہوگئی۔ مجھے چھے ماہ بعد دوبارہ اپلائی کرنا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی میرے شوہر نے وہاں ایک لبنانی مسلمان عورت سے شادی کرلی ہے۔ اب میں بہت پریشان ہوں۔

برطانوی قانون کے تحت مرد ایک سے زاید شادی نہیں کرسکتا۔ مجھے پتا نہیں کہ انہوں نے اس عورت سے صرف نکاح کیا ہے یا شادی کو کونسل میں رجسٹر بھی کروالیا ہے۔ اگر انہوں نے اس لبنانی عورت کے ساتھ شادی کو رجسٹرڈ کروالیا تو پھر میں بطور ان کی بیوی کے انگلینڈ نہیں جاسکوں گی۔ میرے شوہر کو پنجابی نہیں آتی، مجھے انگلش نہیں آتی، اس لیے ہمارے درمیان بات نہیں ہوپاتی۔ اب میں اپنے شوہر کی خاطر انگلش سیکھ رہی ہوں۔
(نام شائع نہ کریں۔ جہلم)
جواب: انگلینڈ یا یورپ میں رہنے والے کئی پاکستانی اپنے بچوں کی شادی پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے 1960یا 1970 کے عشروں میں ترک وطن کرکے برٹش یا یورپین نیشنلٹی حاصل کرلی۔ ایسے زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کی شادی پاکستان میں اپنے بھائی یا بہن کے بچوں کے ساتھ یا کسی اور قریبی رشتے دار کے ہاں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا چاہتے ہوئے وہ یورپ میں پروان چڑھنے والے اپنے بچوں اور پاکستان کے کسی قصبے یا گاؤں میں پروان چڑھنے والے بچوں کے گھریلو اور سماجی پس منظر، ذوق، ذہنی معیار اور تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ پاکستان سے جانے والے منگیتر، میاں یا بیوی کا انگلش یا متعلقہ یورپی زبان نہ آنا بھی مسائل کا سبب بنتا ہے۔

مغرب میں پروان چڑھنے والے نوجوانوں کے رشتے طے کرتے ہوئے ترجیح وہیں آباد پاکستانی یا دیگر ملکوں کے مسلم گھرانوں کو دی جانی چاہیے۔ اگر نسل در نسل چلی آرہی خاندانی روایات اور رواج کی پابندی کی وجہ سے اپنی ہی برادری میں شادی کرنی ضروری ہو تو اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ نوبیاہتا جوڑے میں کم از کم زبان کی خلیج تو نہ حائل ہو۔ رشتہ طے ہونے کے بعد پاکستان میں رہنے والے لڑکے یا لڑکی کو رخصتی سے پہلے متعلقہ ملک کی زبان سیکھ لینی چاہیے۔

رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں۔ یہ عمل کم ا ز کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

سانس کی تکلیف
سوال: مجھے تین سال سے سانس کی تکلیف ہے۔ دوائیں مسلسل لینا پڑتی ہیں۔ کوئی دعا بتائیں جو علاج کے ساتھ پڑھ سکوں۔
(رحمت اﷲ۔ ساہیوال)
جواب: صبح شام اکیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء یا شافی یا رحیم، تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر نارنجی شعاعوں سے تیارکردہ پانی یا سادہ پانی پر دم کرکے پییں۔ دن میں جب بھی پانی یا کوئی مشروب پییں تو تین مرتبہ یا شافی یا رحیم پڑھ کر اس پر دم کرلیا کریں۔

بہت بولتی ہوں
سوال: عیدالفطر کے بعد میری شادی ہے۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے بہت زیادہ بولنے کی عادت ہے۔ میں وقت بے وقت بہت باتیں کرتی ہوں۔ شاید اسی وجہ سے میرے گھر والے بھی میری باتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ میں ڈرتی ہوں کہ جب اپنے گھر میں مجھے ایسے سلوک کا سامنا ہے تو اس عادت کی وجہ سے سسرال میں اپنا مقام کیسے بنا پاؤں گی۔
(ف۔ ح: کراچی)
جواب: ابھی شادی میں چند ماہ باقی ہیں۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ بہت زیادہ باتیں کرنے کی عادت پر قابو پاسکتی ہیں۔ اس کام کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ جو کچھ پڑھیں اس پر اپنے تاثرات کسی کو زبانی بتانے کے بجائے لکھ لیجیے۔ کوشش کیجیے کہ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار تحریری طور پر زیادہ کیا جائے۔ ایک نوٹ پیڈ لے لیجیے اور اُس پر روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھیے۔ بطور روحانی علاج صبح شام سورۂ بقرہ (2)کی آیت 83میں سے اکیس اکیس مرتبہ: قولو للناس حسنا، تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پییں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ یہ عمل دو ماہ تک جاری رکھیں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: [email protected]
فون نمبر: 021-36685469

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔