تیزی سے کٹتے جنگلات؛ پاکستان ماحولیاتی تنزلی کا شکار ہونے کو ہے

محمد عاطف شیخ  اتوار 19 مارچ 2017
منفی موسمی تغیرات، بارشوں کے دورانیے میں کمی، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی، دھند، سموگ اور صحرا زدگی۔ فوٹو: فائل

منفی موسمی تغیرات، بارشوں کے دورانیے میں کمی، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی، دھند، سموگ اور صحرا زدگی۔ فوٹو: فائل

’’ پاکستان کے محل وقوع اور سماجی و معاشی کمزوری نے اسے ایسے ممالک کی فہرست میں آگے کر دیا ہے جو کلائیمیٹ چینج کے ماحولیاتی، سماجی اور معاشی اثرات سے زیادہ متاثر ہیں‘‘۔

جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کا یہ بیان ماحولیاتی عدم توازن کی طرف بڑھتے پاکستان کی واضح نشاندہی کر رہا ہے۔کیونکہ ہم جس تیزی سے اپنی سر زمین کو بے شجر کر رہے ہیں اُتنی ہی تیزی سے ہم ماحولیاتی تنزلی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس کے نتائج کی ابتداء مو سمیاتی تغیرات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو چکی ہے۔

موسموں کا بدلتا انداز اور دورانیہ، بارشوں کے دورانیہ میں کمی اور شدت میں اضافہ، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اورخشک سالی، دھند اور اب سموگ جیسے تغیرات نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔اس کے علاوہ ہوا اور پانی کی آلودگی، صحرا زدگی، حیاتیاتی تنوع میں کمی، زمینی کٹاؤ اور دریاؤں کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی جیسے دیگر جن ماحولیاتی چلینجزکا وطن عزیز کو سامنا ہے اُس کی بڑی اور بنیادی وجہ ملک میں جنگلات کی کمی کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر جنگلات کی کٹائی (Deforestation) ہے۔ جس کا اندازہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی گلوبل فارسٹ ریسورس اسیسمنٹ2015 کے ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے جن کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں 1990 سے2015  کے دوران جنگلات کے رقبہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مذکورہ عرصہ کے دوران ملک میں2.1 فیصد سالانہ کے حساب سے ہر سال 42 ہزار 2 سو ہیکٹر رقبہ جنگلات سے محروم ہوا ہے۔ یوں پاکستان دنیا کا وہ آٹھواں بد قسمت ملک ہے جہاں جنگلات کے رقبہ میں سالانہ سب سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

ملک میں اس وقت جنگلات کا رقبہ ایف اے او کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق 14 لاکھ 72 ہزار ہیکٹر ہے جو 1990 میں 25 لاکھ 27 ہزار ہیکٹر تھا۔ یوں گزشتہ 25 سال میں ملک میں جنگلات کے رقبہ میں مجموعی طور پر 41.74 فیصد کمی ہو چکی ہے۔جنگلات کے رقبہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں اس وقت 114 ویں نمبر پر ہے۔

ملک میں جنگلات کی کمی پر قابو پانے کے لئے سال میں دوبار شجر کاری مہم شروع کی جاتی ہے لیکن اس کے نتائج اس لئے واضح طور پرمحسوس نہیں ہوتے کہ پاکستان میںسرکاری سطح پر جنگلات کے رقبہ میں کوئی نیا رقبہ شامل نہیں ہو پایا ۔ اس لئے جہاں سے درخت کاٹے جاتے ہیں عموماً وہیں پر دوبارہ درخت لگائے جاتے ہیں۔ جبکہ نجی زمینوں پر شجر کاری کی صورتحال کوئی اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ اس لئے پاکستان شجر کاری کے حوالے سے دنیا کے 165 ممالک میں62 ویں نمبر پر ہے اور سال 2015 میں ملک میں 3 لاکھ62 ہزار ہیکٹر پر پلانٹیشن کی گئی۔

ملک میں جنگلات کے کم ہوتے ذخائر میں اضافہ کے لئے خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا ہے تو پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلات کے فروغ کے لئے ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کے نام سے ادارہ قائم کیا ہے۔ان دونوں اقدامات کے ملکی جنگلات پر کیانتائج مرتب ہوں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن تا حال ملک میں شجر کاری کی صورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں ۔

کرہ ارض کے’’ پھیپھڑے‘‘ جنگلات اگر چہ کھیل اور فرنیچر کی صنعت کو خام مال مہیا کرتے ہیں۔ ادویہ سازی کی صنعت کو جڑی بوٹیاں اور بیج فراہم کرتے ہیں۔ سیاحت اور کمپنگ کے لئے تفریحی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ ایندھن کے لئے لکڑی دیتے ہیں۔ سیلابوں کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ پانی کے بہاؤ کو تواتر دیتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی کو بڑھاتے ہیں۔ روزگار کے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ بارشوں کا باعث بنتے ہیں۔

زمین کو کٹاؤ سے روکتے ہیں۔ زمین کی زرخیز مٹی کو باندھے رکھتے ہیں۔ مویشیوں کے لئے چارہ مہیا کرتے ہیں۔ زیر زمین پانی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کا مسکن ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کا موجب ہیں۔ پہاڑوں میں لینڈ سلائیڈنگ کو روکتے ہیں۔ فضائی آلودگی کو کشید کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں ۔ شور کی آلودگی کوکم کرتے ہیں۔ ہوا کی شدت کو روکتے ہیں لیکن اس کے باوجود سونے کی مرغی کو یک مشت ذبحہ کرنے کے مصداق کلہاڑیوں اور آریوں کی نذر ہو رہے ہیں ۔

پاکستان میں جنگلات کی مستقل بنیادوں پرکٹائی (Deforestation) ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ ہے اور اس کی رفتار تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ سرکاری سطح پر یہ اعشاریہ 2 فیصد سے اعشاریہ 4 فیصد سالانہ ہے۔ جبکہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق 2007 میں یہ قدرتی جنگلات میں اعشاریہ 75 فیصد سالانہ اور فارم لینڈ درختوں میں 3.86 فیصد سالانہ تھی۔ اس کے علاوہ گیارویں پانچ سالہ منصوبہ کے مطابق ملک میں ہر سال 27 ہزار ہیکٹر رقبہ پر جنگلات کا مستقل بنیادوں پر صفایا ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ لکڑی کی طلب اور رسد میں موجود فرق، خشک سالی، جنگلات میں آتش زدگی ، سیلاب اور زرعی مقاصد کے لئے زمین کا حصول ہے۔

ایف اے او کے ریجنل آفس برائے ایشیاء اور پیسفک کی پاکستان فارسٹری آؤٹ لک اسٹڈی کے مطابق2007  میں ملک میں لکڑی کی طلب 43.7 ملین مکعب میٹر تھی جس میں سے 32 ملین مکعب میٹر جلانے کے لئے اور 12 ملین مکعب میٹر دیگر مقاصد کے لئے درکار تھی۔ اس طلب کے برعکس ملک میں لکڑی کی رسد کی صورتحال یہ رہی کہ مذکورہ سال لکڑی کی دستیابی 14.4 ملین مکعب میٹر تھی۔ یعنی 29.3 ملین مکعب میٹر کا طلب اور رسد میں فرق موجود تھا جسے غیر قانونی شجر کشی اور کاغذ اور لکڑی کی درآمد سے پورا کیا گیا۔

اسی طرح وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق2015 میں ملک میںلکڑی کا استعمال7 کروڑ73 لاکھ 62 ہزار مکعب میٹر رہا جو 2005 میں 3 کروڑ 16 لاکھ 49ہزار مکعب میٹر تھا۔ یعنی گزشتہ عشرے میں ملک میں لکڑی کے استعمال میں 144 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ جبکہ جنگلات کے رقبہ میں مجموعی طور پر 23  فیصد کمی واقع ہوئی۔ ایف اے او کے مطابق 2005 میں ملک میں جنگلات کا رقبہ 19 لاکھ2 ہزار ہیکٹر تھا جو 2015 تک کم ہوکر 14 لاکھ  72ہزار ہیکٹر تک آچکا ہے۔

گزشتہ سال ملک میں استعمال ہونے والی لکڑی کا 93 فیصد بطور بالن جلانے کی خاطر ہوا ۔ اور کیوں نہ ہو ملک کے 51 فیصد گھروں میں آج بھی لکڑی بطور ایندھن کھانا پکانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میئیرمنٹ سروے 2014-15 کے مطابق دیہات کے 73 فیصد گھروں میں توانائی کی ضروریات ( کھانا پکانے کے لئے) لکڑی سے پوری کی جاتی ہیں۔ ملک میں جلانے والی لکڑی کا 81.8 فیصد گھروں میں جلایا جاتا ہے جبکہ کمرشل سیکٹر میں 3.3 فیصد اور انڈسٹری میں14.9 فیصد استعمال ہوتا ہے۔

اسی طرح ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں ایک لاکھ افراد جلانے والی لکڑی کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ جن میں سے 73  فیصد مستقلاً اس کام سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ27 فیصد عارضی طور پراس کام سے وابستہ ہیں اور اس کاروبار کی سالانہ مالیت 11.3 ارب روپے ہے ۔ جو ملک کی 10 فیصد برآمدات کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات سے مستقل محرومی کا ایک اور محرک جنگلات میں پیش آنے والے آتش زدگی کے واقعات ہیں۔

2000ء میں پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہر سال 49 ہزار 9 سو 86 ہیکٹر رقبہ پر موجود جنگلات آتش زدگی کا شکار ہوتے ہیں جس سے درخت، ان کی افزائش، نئے پودے (ننھے درخت) اور دیگر نباتاتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن د نیا میں جنگلات سے مستقل محرومی کی سب سے بڑی وجہ کوئی اور ہے اور وہ وجہ زراعت ہے۔ اس لئے جنگلات اور زراعت میں مثبت ربط کی ضرورت ہے تاکہ زرعی مقاصد کے لئے زمینوں کے حصول اور اس حوالے سے جنگلات کی کٹائی کو ایک پائیدار نظام کے تحت کیا جائے۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2011 میں جنگلات سیکٹر  نے پاکستانی اکانومی کو 1.3 ارب ڈالر مہیا کئے جو ملکی جی ڈی پی کا اعشاریہ 6 فیصد (0.6) ہے۔ اس کے باوجود ملک میں جنگلات تیزی سے معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی لکڑی کی ضروریات کو پورا کرنے کے شدید دباؤ کا سامنا ہمارے جنگلات کو روز بروز اپنی بقاء کے خطرے سے قریب تر کر رہا ہے۔ اس پر متعلقہ اداروں کی بد انتظامی اور بدعنوانی صورتحال کو اور زیادہ سنگین کر رہی ہے۔ جبکہ شہروں میں ترقی کے نام پر د رختوں کی کٹائی اور اُن کے متبادل شجر کاری سے اجتناب ہمیں ماحولیاتی نقصانات کے جس منحوس چکر میں پھنسا رہا ہے اس کی بروقت روک تھام کے لئے ہمیںجنگلات کی پائیدار انتظام کاری  (Sustainable Management)  پر بھر پور توجہ دینی ہوگی۔ تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی

ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو طاہر رشید پنجاب میں کمرشل فارسٹری کے فروغ کے حوالے سے بنائی گئی اس کمپنی کے ماڈل کو منفرد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انفرادی خصو صاً لکڑی کی صنعت سے وابستہ افراد اور نجی ادارے شجر کاری کے لئے سرکاری زمین لیز پر لے سکتے ہیں۔ اور لیز چارجز جب فصل کٹائی کے لئے تیار ہو تب لیز پر لی جانے والی زمین کے25  فیصد حصہ پر ہونے والی پیداوار(درخت) بطور چارجزادا کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لئے کمپنی ون ونڈو آپریشن کے تحت تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے مہیا کرتی ہے۔

ایس پی ایف سی کے سی ای او بتاتے ہیں کہ کمپنی کے پاس جنوبی پنجاب کے 2 سول ڈویژن کے6 اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں حکومت پنجاب کا فراہم کردہ ایک لاکھ 34 ہزار 9 سو95 ایکڑ رقبہ موجود ہے۔ کمپنی کی قانونی حیثیت اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کارکے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت پنجاب کی ایک کمپنی ہے اور فاریسٹ، وائلڈ لائف اینڈ فیشریز ڈیپارٹمنٹ کا ایک حصہ ہے۔ جو کسی بھی سرمایہ کار کو جنگلات لگانے کیلئے ابتدائی طور پر زمین 15سالہ لیز پر دیتی ہے اور اگر انویسٹر کی جانب سے لیز کی مکمل پاسداری کی جائے تو مزید 15سال کے لئے زمین مل سکتی ہے۔

یعنی کل 30 سال تک زمین لیز پر لے کر جنگلات لگانے کی سہولت کمپنی کی جانب سے فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات لگانے کے لئے فنی معاونت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ جبکہ کمپنی کے پاس بہت سا ایسا رقبہ بھی موجود ہے جہاں نہری پانی دستیاب ہے اور مختلف انواع کے درختوں کی کاشت کے لئے مختلف اقسام کی زمینیں اور ایسی اقسام کے درخت بھی موجود ہیں جو کم مدت میں زیادہ منافع دیتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب 18 ماہ میں تیار ہونے والے درختوں کی اقسام بھی موجود ہیں جن سے 15 سال میں 7 اور30 سال میں 15 فصلیں (درخت) حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اور ایسی اقسام بھی ہیںجو 53 فیصد تک ریٹرن دیتی ہیں جومنافع کی ایک بہت ہی اچھی شرح ہے ۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے تحت 12 ہزاربراہ راست اور 15 ہزار بلاواسطہ ملازمتیں پیدا ہوں گی جس سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ویژن کے مطابق جنوبی پنجاب میں غربت میں کمی اور پنجاب کے لکڑی اور اس کی مصنوعات کے امپورٹ بل کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اور صوبے کی ووڈ بیسڈ انڈسٹری کی خام مال کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے گا۔

کمپنی کا مقصد بھی یہی ہے کہ پنجاب میں شجر کاری میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے جنگلات میںاضافہ کیا جائے تاکہ ماحولیاتی بہتری کے ساتھ ساتھ لکڑی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا اورجنگلات کے وسائل پر موجود دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ شجر کاری کے حوالے سے کمپنی ٹارگٹ کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ کمپنی کے پاس موجود رقبہ پر8 کروڑ 82 لاکھ 5 ہزار درخت لگائے جا سکتے ہیں اور یہ ہی ہمارا ہدف بھی ہے۔ انھوں نے بتا یا کہ کمپنی زمین ایسے انفرادی سرمایہ کاروں اورنجی اداروں کو لیز پردیتی ہے جن کی معاشی حالت ایسی ہو کہ وہ مطلوبہ زمین پر جنگلات لگانے، بچانے اور اسے سنبھالنے کا انتظام و انصرام بہتر طور پر کر سکیں ۔

اس کے علاوہ جنگلات یا کاشت کاری سے متعلقہ تجربہ اور افرادی قوت کے حامل ہوں ۔ اور سب سے اہم بات جس کا انھوں نے ذکر کیا وہ رقبہ پر موجود جنگلات کی کٹائی کے لئے کمپنی کے دیئے گئے نظام الاوقات کی پابندی اور کٹائی کے لئے اجازت کا حصول ہے جس کے بغیر کمپنی کے رقبہ سے کوئی ایک درخت بھی کاٹا نہیں جا سکے گا۔ اس کے علاوہ کسی ایسی قسم کی کاشت کی اجازت نہیں دی جائے گی جو مقامی افراد کی صحت اور علاقہ کے ایکو سسٹم کے لئے مسائل کا باعث بنیں۔ طاہر رشید نے بتایا کہ پوری دنیا میں اس وقت کمرشل فارسٹری میں200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ کیونکہ دنیا میں سب سے کم رسک کی حامل فصل فارسٹری (درختوں) کی ہے جو دیگر فصلوں کی نسبت موسم کی شدت  اور قدرتی آفات کو زیادہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

جنگلات کا عالمی منظر نامہ

دنیا میں جنگلات کا رقبہ گزشتہ 25  سال کے دوران 4 ارب 12 کروڑ 80  لاکھ ہیکٹر سے کم ہوکر 3 ارب 99  کروڑ 90  لاکھ ہیکٹر ہو چکا ہے۔  1990 سے 2015  تک 12 کروڑ 90  لاکھ ہیکٹر رقبہ پر موجود جنگلات سے دنیا محروم ہوئی۔ یہ رقبہ جنوبی افریقہ کے برابر ہے۔ سالانہ اعشاریہ 13 فیصد (0.13 ) کے حساب سے دنیا میں اس عرصہ کے دوران جنگلات کے رقبہ میں کمی واقع ہوئی۔ ان 25 سال میں دنیا کے93  ممالک میں جنگلات میں کمی ریکارڈ کی گئی جو مجموعی طور پر 24 کروڑ20 لاکھ ہیکٹر ہے جبکہ88 ممالک میں جنگلات کے رقبہ میں اضافہ ریکارڈ ہوا جو مجموعی طور پر11 کروڑ 30 لاکھ ہیکٹر ہے۔ دنیا کے پہلے دس ممالک دنیا کے67 فیصد جنگلات رکھتے ہیں۔

روس دنیا میں سب سے زیادہ رقبہ پر جنگلات رکھنے والا ملک ہے۔ اور دنیا کے 20 فیصد جنگلات اکیلے روس کی ملکیت ہیں۔ دوسرے نمبر پر برازیل ہے جس کے پاس دنیا کے جنگلات کا 12  فیصد ہے۔ اس کے بعد کینیڈا ہے جو 9 فیصد عالمی جنگلات کا حصہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ 2010 سے 2015  کے دوران سب سے زیادہ درختوں سے محرومی کا شکار برازیل ہوا جس کا ہر سال9 لاکھ 84 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات سے محروم ہوا۔ دوسرے نمبر پر انڈونیشیا اور تیسرے نمبر پر میانمار رہا۔ گزشتہ پانچ سالوںکے دوران سب سے زیادہ جنگلات کے رقبہ میں اضافہ چین میں ہوا جہاں سالانہ 15 لاکھ42  ہزار ہیکٹرز پر جنگلات لگائے گئے۔ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا اور تیسرے نمبر پر چلی رہا۔

2015 میں دنیا بھر میں 226 ارب ڈالر مالیت کی جنگل کی مصنوعات کی بر آمدات ہوئیں۔اس کے علاوہ گزشتہ سال 3714 ملین مکعب میٹر لکڑی کی پیداوار حاصل ہوئی۔ جس میں سے  1866 ملین مکعب میٹر بالن ( جلانے کی لکڑی) اور 1848ملین مکعب میٹر صنعتی مقاصد میں استعمال ہونے والی لکڑی تھی۔ اقوام ِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے پندرہویں ہدف کی شق2  کے مطابق 2020  تک تمام اقسام کے جنگلات کی پائیدار انتظام کاری (مینجمنٹ) کے اطلاق کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ تنزلی کا شکار جنگلات کو بحال کیا جائے گا اور جنگلات سے ماضی قریب میں محروم رقبہ اور نئے رقبہ پر حقیقی طور پرشجر کاری کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔