حسین حقانی پس پردہ حقیقت

جاوید قاضی  ہفتہ 18 مارچ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

نجانے حسین حقانی کو بھی کیا سوجھی کہ الاپ چھیڑ دیے، نہ مو سم دیکھا، دن نہ رات دیکھی، نہ ماہ و سال دیکھے، یار دیکھے نہ اغیار دیکھے، بس ابل پڑے۔ اور پھر جو زخم تھے پھر سے ابھرنے لگے، پھر سے ہجر و وصال کے باب کھلنے لگے۔

میں نے کہا نا ’’غدار‘‘ کے معنی بڑے موضوعی سے ہوتے ہیں۔ آپ کی نظروں میں جو غدار ہو، وہ ہو سکتا ہے میری نظروں میں نہ ہو۔ مشرف تو غدار نہ بن سکے، اس دیار یار میں، باچا خان بن گئے۔ مورخ کل کسے کیا کہتا ہے، کیا نہیںکہتا ہے، وہ اسی کے قلم کی سیاہی کا حصہ ہے۔ کوئی بتلائے تو بتلائے کیا۔ جنرل کیانی کے عہدہ میں توسیع یوسف رضا گیلانی نے کی تھی۔ تو جنرل کیانی نے یوسف رضا گیلانی کو کیا دیا؟ اسی طرح کہ بینظیر نے اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا تھا، اور اس کے بدلے جنرل بیگ نے بینظیر کو کیا دیا؟

کس نے کہا سی آئی اے نے یہاں ناغے کیے تھے، وہ تو موجود تھے، موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ ابھی تو صرف وکی لیکس آئی ہے، ورنہ لیاقت علی خان جب پہلی مرتبہ امریکا یاترا پر گئے تھے، پھر کس طرح سی آئی اے کے اڈے پشاور میں امریکا کو ملے تھے، سامراج کو کتنی اشدضرورت تھی، پھر سرد جنگ، پھر سیٹو… بات نکلے گی تو دور تک جائے گی۔

حسین حقانی سے پہلے محمد علی درانی تھے امریکا کے سفیر مشرف کے زمانے میں۔ یہ موصوف ضیاء الحق کے پرسنل سیکریٹری بھی رہے۔ بہاولپور میں جب ٹینکوں کے لیے جانا تھا جنرل ضیاء الحق کو، وہ ان کے اصرار پر گئے، بہت ہی قریب تھے ضیاء الحق کے۔ اب تو بہت سے لوگوں کا شک اس کی طرف ہی ہے۔ سانحہ بہاولپور کی چند کڑیاں۔ ان کو بہت کچھ خبر ہے۔ امریکا کے  بہت سے آنسو، بعض جہاں دیدہ  جرنلسٹ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے لیے رکھے ہوئے بیس ملین ڈالر بھی ان ہی کو ملے ہیں۔ اور وہ آج کل اپنی نئی بیوی کے ساتھ واشنگٹن کے نواح میں رہتے ہیں، اور زندگی کے باقی ایام بسر کر رہے ہیں۔

ہمارے حسین حقانی امریکی انتظامیہ میں اپنے نمبر بڑھانا چاہتے ہیں کہ کہیں ٹرمپ جیسے مہم جو کو ان کی کوئی کہی ہوئی بات بھا جائے، کوئی ان کے لیے کسی عہدے یا کسی کام کی نظر عنایت ہو جائے۔

چھوڑ یے ان ساری باتوں کو، ہم میں سے بہت سے اسامہ بن لادن کو بہت محترم، رہبر و ہیرو سمجھتے ہیں۔ ان کے ایسے خیالات سے ہٹ کر دنیا اسے بین الاقوامی دہشتگرد سمجھتی ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ دنیا کے پریوار میں رہنا ہے یا دنیا سے کٹ کر؟ آپ کا شورو  غوغا آپ کو تو کچھ نہ دے گا، مگر حقانی کو بہت کچھ دے گا۔

زرداری و گیلانی کی حکومت سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزا اپنی صوابدید پر دے ہی نہیں سکتی تھی۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہی تھے تو پھر آپ پاکستان کی سیاست کو ذرا بھی نہیں سمجھتے۔ ایسی تالیاں دو ہاتھ سے نہیں بجتیں، بہت سے ہاتھ پسِ پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔

پاناما کیس میں سنا ہے ایک کمیشن بننا ہے، بہت سی قیاس آرائیوں میں سے ایک ہے، تو آج کل کمیشن کمیشن کی گیم چل رہی ہے۔ اِدھر کمیشن، ادھر کمیشن۔ خواجہ آصف نے کہا سیاست کے اکھاڑے میں ایک کمیشن اور سہی۔ اور پھر بے چاری پاکستان پیپلز پارٹی کی زلف کا پریشاں ہونا، اور ایک دم سے پھر حسین حقانی سے رشتے ناتے توڑنے کا دعویٰ کرنا۔ مگر جو ایبٹ آباد کمیشن تھا وہ بھی حمود الرحمان کمیشن کی طرح خاموش ہے۔

جب جنرل نیازی کو پھانسی نصیب نہ ہوئی تو کسی اور کو کیوں؟ پھر ایک میمو گیٹ کمیشن بنا۔ حسین حقانی اس میں مجرم پائے گئے، مگر اس مجرم کو اس کے عدم میں سزا بھی نہ ملی ہوئی۔ ’’آخری شب کے ہمسفر کی طرح‘‘ کمشنز نجانے کدھر رہ گئے۔ جنرل نیازی کہاں، حقانی کہاں، مگر اسامہ بن لادن کمیشن میں اب بھی موجود ہیں۔ اب کون کھولے وہ اوراق۔ اسی لیے کمیشن کے TOR میں اب یہ متن بھی موجود ہونا چاہیے کہ اس کا عیاں ہونا ایک مخصوص مدت میں لازم ہے۔ تو پھر نہ کوئی زلف پیپلز پارٹی کی پریشاں نہ ہو اور نہ غداری کے اعزاز کسی بھوت کی مانند آپ کے پیچھے سائیں سائیں کرتے پھرتے رہیں۔

کمیشن کیا ہے؟ وقت کا زیاں ہے۔ سیدھا سیدھا عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں اور ایک آرڈینری و شفاف ٹرائل  کی ابتدا ہو، کمیشن میں جو آئے سامنے اس پر عمل نہیںہو گا، اور اگر کمیشن کی رپورٹ چھپا دی جائے تو کوئی قانون نہیں جس کی مدد سے اس کو کھلوایا جائے۔ ٹرائل میں کمیشن والا کام یا یوں کہیے ’’جیوری‘‘ والا کام، یا قانون شہادت کہیے، ایک لازمی عمل ہوتا ہے، ایک حصہ ہوتا ہے اور پھر سزا و جزا وہیں صادر ہوتی ہے۔ ملزم جب مجرم بنا تو اس کا ایک حق بھی بنتا ہے کہ وہ اس فیصلے کو بڑی عدالت میں چیلنج کرے۔ اور یہی کیا تھا جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کے ساتھ، جہاز اغوا کرنے کا کیس بنا، سزا ہوئی اور  آٹھ سال کے بعد سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی۔ بھلا ہو ہمارے بل کلنٹن کا، جس نے اسے بچایا، اسی لیے کہ اسامہ لادن کو مارنے کے لیے پاکستان کی حدود سے میزائل گرانے کی اجازت انھوں نے دی تھی۔

اسامہ بن لادن کو لانے والوں میں ایک میاں صاحب بھی تھے۔ میں نے عرض کیا نا! بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ حسین حقانی تو ایک بہانہ ہے، لہٰذا گڑے مردے مت اکھاڑیئے۔ ماضی کو ماضی رہنے دیجیے۔ جو ہوا سو ہوا، اور آگے بڑھیے، پاکستان کی تعمیر کیجیے۔ ایک ایسے پاکستان کی جو کہ کسی بیرونی طاقت کا دم چھلا نہ ہو۔ نہ ہمارا کوئی مرشد ہو اور نہ ہم کسی کے مرید ہوں۔ وہ جو ہمارے مفادات سے بن کر آئے اس سے بنائیے، اور جو نہ بنے تو نہ بنائیے۔ ہمیں اس دنیا کے پریوار میں رہنا ہے، ہم نے بہت سارا Deficit  بنایا ہے، اسے پر کرنا ہے۔

کل حسین حقانی جماعت اسلامی میں تھے، پھر میاں صاحب کے ساتھ رہے اور بینظیر کے قریب، بہت سے شوق ہیں ان کے۔ آپ دانشور بھی ہیں، ڈپلومیٹ و سیاستدان بھی۔ ان کی جانکاری کے لیے آپ کو اور کیا چاہیے، وہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہو سکتے ہیں۔ بس ہماری عرض یہ ہے کہ اس ڈبے کو بہتر ہے کہ بند رہنے دیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔