سقراط سے بڑے دانشور

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 18 مارچ 2017

سابق امریکی صدر براہام لنکن نے کہا تھا ’’مجھے وہ آدمی یاد آتا ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بنا پر رحم کی درخواست کی کہ وہ یتیم ہے۔‘‘ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مشکل کشاؤں نے اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور آج پاکستان کو انھوں نے درست سمت میں گامزن کر دیا ہے تو آپ بے شمار غلطیوں کے بعد ایک اور شرمناک غلطی کر رہے ہیں۔ ہم اپنی ناکامیوں کی راکھ سے کامیابی کو جنم دینے میں اب تک ناکام ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہم مکمل ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے یہ بات نہ مان کر ہمارے مشکل کشا اپنے آپ پر ظلم نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک بار پھر مظالم کی بارش ملک کے 20 کروڑ عوام پرکر رہے ہیں۔

آج کے دنیا بھرکے ترقی یافتہ، خوشحال، آزاد ممالک ماضی میں ناکامی سے دوچار رہے ہیں۔ ان ممالک کے لوگوں کے حالات زندگی پڑھ کرکپکپی چڑھ جاتی ہے لیکن ان کے رہنماؤں، دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں نے تاریخ کھنگال ڈالی اور اس میں سے وہ سبق ڈھونڈ نکالا کہ کس طرح اپنے بدترین حالات کو شرمناک شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے پھر وہ سبق بار بار پڑھا اور اپنی اپنی قوموں کو بھی باربار پڑھایا۔ وہ سبق یہ تھا کہ اپنے ملک کی معیشت کو کھڑا کر دو، ملک خود بخود کھڑا ہو جائے گا۔

ملکی تجارت کو فروغ دیدو، پیسے Generate کرو۔ زراعت کو ترقی دو ٹیکسوں کا نیٹ ورک بڑھا دو، ملک سے کر پشن کا مکمل خاتمہ کر دو تمام ملکی معاملات میں میرٹ لاگوکر دو، تعلیم کو فروغ دو، شہر شہر گاؤں گاؤں بجلی، سڑک، گیس اور پانی پہنچا دو، پورے ملک میں سٹرکوں کا جال بچھا دو، ٹرانسپورٹ کا نظام بہترکر دو، ملک کے تمام افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار پر لگا دو ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھا دو، صحت کی سہولیات عام لوگوں کو میسرکر دو۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بھی یہ ہی سبق نہ خود بار بار پڑھتے بلکہ اپنے عوام کو بھی بار بار پڑھاتے اور پھر دنیا بھر کی طرح ا س سبق پر عمل کرنا شروع کر دیتے، لیکن کیا کریں شرمندگی اور رسوائی کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے نہ تو خود یہ سبق پڑھا اور نہ ہی عوام کو اسے پڑھایا بلکہ اس کے برعکس ہم وہ سبق بار بار پڑھتے رہے، جس کو پڑھنے میں صرف ہمارا خود کا فائدہ تھا۔ یعنی صرف اپنے آپ کو خوشحال کرتے رہو، صرف اپنے آپ کو ترقی دیتے رہو، اپنے اور اپنے پیاروں کو فائدہ پہنچاتے رہو، اپنے اثاثوں اور اپنے بینک بیلنس کو فروغ دیتے رہو، اپنے آپ کوکھڑا کرتے رہو، ملک لیٹتا ہے تو لیٹتا رہے اور معصوم عوام کے سامنے بڑی بڑی بڑھکیں مارتے رہو اور رفوچکر ہوتے رہو، جیسے ماضی میں پنجابی فلموں کے ولن کیا کرتے تھے۔

ہیرو کے آنے سے پہلے بڑی بڑی بڑھکیں مارتے تھے۔ بڑی بڑی باتیں کرتے تھے اور جیسے ہی ہیرو آتا تھا۔ دبک کر ٹھیلے یا پان کی کیبن کے پیچھے چھپ جاتے تھے اور ہیرو بیچارا ڈھاریں مار مارکر اپنا گلا خراب کر لیا کرتا تھا اور اگلے روز بیچارا اشاروں میں بات کر رہا ہوتا تھا۔ ویسے ہمارے مشکل کشاؤں کو بولنے کی بیماری بھی لگ چکی ہے، بغیر سوچے سمجھے بس بولے ہی جاتے ہیں۔ حالانکہ وقت سب سے بڑی درس گا ہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ عقل کے استعمال کو بھی کفر کے زمرے میں لاتے ہیں مشہور کہاوت ہے کہ جب بچہ سیکھنے کا آرزومند ہوتا ہے تو استاد فوراً وہاں آ جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھ رہی ہے، ہمارا ذہنی سفر آگے کے بجائے پیچھے کی سمت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ نااہلی میں تو ہم ایتھوپیا کو بھی پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن اپنے آپ کو سقراط سے زیادہ سمجھ دار ذہین سمجھے بیٹھے ہیں۔

سقراط نے زہر پینے سے پہلے عدالت میں اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ’’مجھے تو معلوم ہے کہ مجھ میں دانش و حکمت تھوڑی نہ بہت سرے سے ہی نہیں۔ پھرآخر دیوتا پے تھیا کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ میں سب انسانوں سے زیادہ دانش مند ہوں۔ بہرحال وہ دیوتا ہے جھوٹ تو بول نہیں سکتا یہ تو اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ بہت غورکرنے کے بعد اس بات کو آزمانے کا ایک طریقہ سمجھ میں آیا۔ میں نے سوچا کہ اگر مجھے کوئی اپنے سے زیادہ دانش مند آدمی مل جائے تو اس قول کے خلاف ایک دلیل ہاتھ آجائے گی اور میں اسے لے کردیوتا کے سامنے جا سکوں گا۔

میں اس سے کہوں گا دیکھو یہ شخص مجھ سے زیادہ دانشمند ہے۔ تم نے توکہا تھا کہ میں سب سے زیادہ دانش مند ہوں، چنانچہ میں ایک شخص کے پاس گیا، جو دانش مند مشہور تھا اوراسے ٹٹولا اس کا نام بتانے کی ضرورت نہیں وہ ایک سیاسی لیڈر تھا جسے میں نے امتحان کے لیے چنا تھا تو یہ نتیجہ نکلا۔ اس سے باتیں کرنے کے بعد مجھے یہ رائے قائم کرنا پڑی کہ حقیقت میں وہ دانش مند نہیں ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ اسے دانش مند سمجھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ خود اپنے آپ کوسمجھتا ہے۔

میں نے اسے یہ سمجھانا چاہا کہ وہ اپنے آپ کو دانش مند سمجھتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے غالباً ہم دونوں میں سے ایک کو بھی کسی اچھی اور معقول چیزکا علم حاصل نہیں ہے مگر اس سے میں پھر بھی بہتر ہوں اس لیے کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا یہ ہے کہ جانتا ہے اور میں نہ کچھ جانتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں اور چھان بین کا نتیجہ یہ نکلا میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کی سب سے زیادہ شہرت ہے وہی سب سے زیادہ بے وقوف ہیں اورجو لوگ معزز نہیں ہیں وہ حقیقت میں ان سے بہتر اور زیادہ دانش مند ہیں ۔‘‘ پاکستان کے حالات، واقعات اورمشکل کشاؤں کو دیکھ کر مجھے بار بار سابق امریکی صدر لنکن کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی ہے کہ ’’مجھے وہ آدمی یاد آتا ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بنا پر رحم کی درخواست کی کہ وہ یتیم ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔