ہولی کی محفل اور نواز شریف

زاہدہ حنا  اتوار 19 مارچ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان کے سر کا ایک بال سیاہ نہیں تھا، چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ کاتب تقدیر نے ان کی زندگی کا آغاز 30 کی دہائی سے کیا ہوگا۔ مجھے دیکھ کر ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھیں شعلے اگلنے لگیں۔ ’’یہ آپ لوگوں نے کیا وتیرہ اختیار کیا ہے؟‘‘ ان کی آواز کی گھن گرج سے میں گھبرا گئی۔ ’’جناب کچھ تو فرمائیں کہ آپ کس بات پر اتنے خفا ہیں اور کیوں کف در دہن ہیں؟‘‘ میں نے جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کیا۔

’’ جی چاہتا ہے کہ خود کشی کرلوں‘‘۔ اب ان کے لہجے کی کمان قدرے اتری۔ کئی تیکھے اور طنز آمیز جملوں کے بعد اندازہ ہوا کہ انھیں طیش اس بات پر ہے کہ میاں نواز شریف نے کراچی میں ہندوؤں کے تہوار ہولی میں کیوں شرکت کی اور یہ کیوں کہا کہ کوئی بہ جبر کسی دوسرے سے اس کا آبائی مذہب ترک نہیں کروا سکتا اور نہ کوئی کسی کو دوسرا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ میرا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ معقولیت کی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے اور انھیں اس پر کیا اعتراض ہے۔

بہت مشکل سے میں انھیں یہ باور کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی کہ میاں صاحب کا ہندوؤں کے کسی تہوار میں شریک ہونا اور ان سے گھل مل جانا دراصل اس لیے تھا کہ ہمارے یہاں تعصبات اور نفرت کا جو کاروبار دین کے نام پر ہورہا ہے، اسے روکا جائے۔ انتہا پسندی، دہشتگردی اور نفرت کے بیج بونے کے بجائے ہم اپنی تمام برادریوں اور گروہوں کو یقین دلائیں کہ کیا اکثریت اور کیا اقلیت، ریاست کی نظر میں سب برابر ہیں، سب کے حقوق مساوی ہیں اور یہ ریاست کا فرض منصبی ہے کہ وہ بہ طور خاص اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور انھیں فسادیوں کے ہاتھوں نقصان نہ پہنچنے دے۔

میاں صاحب نے ہندوؤں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کی شکایتوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، تو ایسا انھیں کرنا ہی چاہیے تھا کیونکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں، کسی ایک فرقے یا کسی ایک مسلک کے نہیں۔ انھیں پاکستان میں جب ووٹ ڈالے گئے اور جن کی بنیاد پر انھوں نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا، اس میں سب کے ووٹ شامل تھے۔ ایک جمہوری ریاست میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ صرف اکثریت کے حقوق کی پاسداری کریں۔ انھوں نے وہی کہا جو بانی پاکستان محمد علی جناح کا موقف تھا۔

کچھ دیر بعد وہ صاحب تھک ہار کر چلے گئے کیونکہ وہ مجھے قائل نہ کرسکے تھے اور ان کے دل سے یہ قلق نہیں گیا تھا کہ پاکستان جو ایک اسلامی جمہوریہ ہے، وہاں ہندوؤں، سکھوں یا دوسرے گروہوں کی تالیف قلب کی کوشش ہورہی ہے۔ جاتے جاتے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی نوعمری کے دن متحدہ ہندوستان میں گزرے ہیں، کیا آپ نے وہاں رواداری اور وسعت القلبی کے مظاہرے نہیں دیکھے تھے۔ کیا آپ نے مختلف تہواروں کے موقع پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو شیر و شکر ہوتے اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ میرے اس سوال پر انھوں نے مجھے اتنی خشمگیں آنکھوں سے دیکھا کہ اگر آنکھوں سے آتش و آہن کی برسات ہوسکتی تو یقیناً میرے پرخچے اڑ جاتے۔

ان کے جانے کے بعد میں نے میاں صاحب کی تقریر توجہ سے پڑھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم سب خدا کی مخلوق ہیں۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی خدا، کوئی بھگوان اور کوئی ایشور۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمام مذاہب احترام آدمیت کا سبق سکھاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی سب کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ آئین میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ یہاں زبردستی مذہب کی تبدیلی جرم ہے اور مذہب کی بنیاد پر اختلافات پیدا کرنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت تمام مسجدوں، گرجا گھروں، مندروں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔

میں یہی سوچتی رہی کہ جب پچھتر اسی برس کی عمر کے بزرگ کو اپنی ثقافتی روایات یاد نہیں تو ہم نئی نسل سے بھلا کیا شکایت کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھئے تو ہماری فلموں نے نئی نسل کے ذہنوں کو روادار بنانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

ہمارا اٹھارویں انیسویں اور بیسویں صدی کا شعری اور نثری ادب وسعت القلبی اور دوست داری کی روایات سے مالا مال ہے۔ ہندوستان کی غالب اکثریت غیر مسلم آبادی پر مشتمل تھی۔ سچ پوچھئے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ ہندوستان فتح کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ایسے میں سخت گیری اور بے لچک رویے بعض انتہا پسند افراد کو خوش تو کرسکتے تھے لیکن رعیت کے دل جیتنا محال تھا۔ یہ سہرا ہمارے صوفیا کے سر ہے جنھوں نے اپنی خانقاہوں کے دروازے تمام مذاہب اور مسالک کے ماننے والوں کے لیے کھلے رکھے اور اس کے ساتھ ہی طبقاتی اونچ نیچ کو بھی انھوں نے راہ نہ دی۔

دوسری طرف ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمران بھی یہ جانتے تھے کہ وہ دل جوئی اور دل گیری سے اس وسیع و عریض ملک پر حکومت کرسکتے ہیں لیکن سخت گیری اور کسی خاص فقہہ کا اطلاق ان کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ اس رویے کو اختیار کرنے میں مغل پیش پیش رہے۔ اورنگ زیب عالمگیر ان حکمرانوں میں ایک استثنیٰ ہے لیکن بابر سے آخری مغل بادشاہ،سراج الدین بہادر شاہ ظفر تک سب نے ہندوستانی رسوم و رواج اور ثقافت کو اختیار کرنے میں کسی تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔ سید صباح الدین عبدالرحمان کی کتاب ’مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے‘ کا مطالعہ کیجیے تو وہ ہولی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

جہانگیر کے مطابق ہندی سال کے آخر میں منایا جاتا ہے، اور جب آفتاب برج حوت میں داخل ہوتا ہے تو اس رات کو گلیوں اور گزر گاہوں میں آگ جلاتے ہیں اور جب دن ہوتا ہے، تو اس کی راکھ ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں اور بہت شورو غوغا کرتے ہیں، اس کے بعد نہا دھو کر کپڑے پہنتے ہیں اور میدان اور باغات کی طرف چلے جاتے ہیں، ہولی کی رات سال کی آخری رات ہوتی ہے، اس لیے وہ سال کو مردہ سمجھ کر جلا دیتے ہیں۔

اکبر اور جہانگیر کے محل میں راجپوت شہزادیاں آئیں تو ان کے ساتھ بہت سی ہندو کنیزیں اور سہیلیاں بھی تھیں، اس لیے شاہی محل میں وہ ہولی کھیلتیں، ان کے ساتھ اکبر اور جہانگیر بھی ہولی کھیلتے۔ لندن میں مصوری کے مجموعوں میں ایک ایسی تصویر محفوظ ہے جس میں جہانگیر اپنے محل کے اندر بیگمات اور شہزادیوں کے ساتھ ہولی کھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کنیزیں گا بجا رہی ہیں جب کہ بیگمات اور شہزادیاں پچکاریاں بھر بھر کر ایک دوسرے پر رنگ پھینک رہی ہیں۔ ہولی کی رنگینیوں سے میر تقی میرؔ جیسے خستہ دل شاعر نے بھی لطف اٹھایا:

پھر لباب ہیں آبگیر رنگ
اور اڑے ہے گلال کس کس ڈھنگ

چھڑیاں پھولوں کی دلبروں کے ہاتھ
سیکڑوں پھولوں کی چھڑی ہو ساتھ

قمقمے جو گلال کے مارے
ضوفشاں لالہ رخ ہوئے سارے

خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑا تے ہیں

جشن نوروز ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔