اخبار والا…

شیریں حیدر  اتوار 19 مارچ 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میرا نام بلال ہے، میں راولپنڈی میں، ڈھوک رتہ میں رہتا ہوں۔

میں جاگ کر جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو سب لوگ محو خواب ہیں، صبح سویرے کا وقت ہے، ساڑھے تین بجے کا۔ اپنے گھر سے تیار ہو کر نکلتے ہوئے مجھے آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے، سورج آج کل سوا چھ بجے طلوع ہوتا ہے، جب میں گھر سے روانہ ہوتا ہوں تو اس وقت اچھا خاصا اندھیرا ہوتا ہے۔ میں ڈھوک رتہ سے اپنی بائیک پر موتی محل چوک تک جاتا ہوں، وہیں سے ایجنسی سے ہم سب اس روز کے اخبار حاصل کرتے ہیں۔اڑھائی سو اخبار میں ہر روز اٹھاتا ہوں، اخبار کھلے ملتے ہیں، اپنے جیسے باقی سب لوگوں کی طرح انھیں وہاں بیٹھ کر ترتیب سے تیار کرتا ہوں ، تہہ لگاتا ہوں اور اپنی منزل کی طرف رواں ہو جاتا ہوں ۔

چھ بجے سے اخبارات کی تقسیم شروع کرتا ہوں۔ میں موتی محل سے نکل کر، کئی محلوں اور گلیوں سے ہوتا ہوا، لوگوں کے گھروں ، دفاتر، دکانوں، کھوکھوں اور ہوٹلوں سے گھوم پھر کر واپس نو بجے واپس اپنے گھر پہنچتا ہوں ۔ اس وقت تک میں تھکاوٹ اور نیند کے ادھورے رہ جانے سے نڈھال ہو چکا ہوتا ہوں ، جلدی جلدی ناشتہ کرتا ہوں اور کچھ دیر کے لیے آرام کر نے کو دوبارہ لیٹ جاتا ہوں ۔

لوگ مجھے اخبار والا کے نام سے جانتے ہیں مگر میں نہ اخبار میں لکھتا ہوں ، نہ چھاپتا ہوں اور نہ ہی کسی اخبار کا مالک ہوں، میں ملک میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کی طرح اخبارات ہول سیل ڈیلر سے اٹھا کر انھیں ان لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتا ہوں جنھوں نے اخبارات لگوا رکھے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی محدود سی تعداد ہے جن میں اخبار پڑھنے کا شوق ابھی تک قائم ہے ورنہ انٹر نیٹ پر اخبارات کی دستیابی نے اخبارات کی اشاعت اور سرکولیشن میں انتہائی واضح کمی کر دی ہے۔ کوئی بھی اخبار والا، خالی اخبار بیچنے سے اپنے گھر کا چولہا ہانڈی نہیں چلا سکتا، اس لیے ہر کوئی کوئی نہ کوئی اضافی کام بھی ضرور کرتا ہے، میں بھی شام میں ایک اور ملازمت کرتا ہوں ۔

ہم اخبار والے… ایک اخبار کی فروخت کے عوض اڑھائی روپے کماتے ہیں، میں ہر روز مارکیٹ سے اڑھائی سو اخبارات اٹھاتا اور ان کی ترسیل کا کام کرتا ہوں تو اس کے عوض 625/- روپے روزانہ کما لیتا ہوں … لیکن یہ سب میری کمائی تو نہیں، ہر روز کا میرا لگ بھگ تین سو چالیس روپے پٹرول پر خرچ ہوتا ہے۔ دو سو پچاسی روپے کی آمدن کے لیے میں کتنی مشقت جھیلتا ہوں، کس قدر سویرے اٹھتا ہوں، نور کا تڑکا بھی میرے جاگنے کے تین گھنٹے کے بعد لگتا ہے۔

ہر روز وہی اخبارات کو لے کے تہہ کرنے کا ایک طویل کام اور پھر ان کی تقسیم، لوگ بیڈ ٹی کے ساتھ اخبارات چاہتے ہیں، ہوٹلوں اور کھوکھوں پر بھی صبح سویرے اخبار چاہیے ہوتا ہے۔ سردی ہو یا گرمی، بہار ہوں یا خزاں، میں تندرست ہوں یا بیمار، مجھے ہر حال میں اپنا کام کرنا ہے۔ جس روز میں کسی مجبوری سے اپنے دن کا آغاز حسب معمول نہ کر سکا، اس روز جن گھروں میں اخبار نہیں پہنچے گا، ان میں سے کئی گھر مجھ سے چھوٹ جائیں گے، اگر میری مجبوری کی وجہ سے میرا فرض کوئی اور پورا کرے گا تو وہ یقینا دیر سے کرے گا کیونکہ اسے اپنا کام بہر حال پہلے کرنا ہے۔

کئی گھروں میں وہ پہنچ سکے گا تو کئی اسے ملیں گے ہی نہیں، کئی وہ غلطی سے یا جان بوجھ کر مس کر دے گا اور اس روز کی کمائی بھی اسی کی جیب میں جائے گی۔ میں اس وقت سے اخبارات کی ترسیل اور تقسیم کا کام کر رہا ہوں جب میں ایک طالبعلم تھا اور مجھے یہ رقم پاکٹ منی کے طور پر مل جاتی تھی۔ پڑھ کر اب ایک اور ملازمت بھی کر رہا ہوں ، نہ صرف یہ کہ وہ ملازمت گھر چلانے کے لیے ناکافی ہے، میرے لیے اہم ہیں وہ لوگ جنھیں میں کئی سال سے اخبارات دے رہا ہوں، میرے اور ان کے درمیان ایک تعلق اور یگانگت کا رشتہ سا قائم ہو گیا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ وہ ہر روز میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، انھیں مجھ سے جو امید ہوتی ہے، اس امید کو میں توڑنا نہیں چاہتا۔ کئی بار سوچتا ہوں کہ یہ کام چھوڑ کر کوئی اور آسان کام اپنی ملازمت کے علاوہ شروع کر لوں مگر اس کام سے مجھے ایک لگاؤ سا ہو گیا ہے۔

میں سالہا سال سے دیکھتا آرہا ہوں کہ اخبارات پڑھنے والے کم ہو گئے ہیں، لوگوں کے پاس اخبار رسالے اور کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔ اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد کے کم ہونے کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ تمام اخبارات اب انٹر نیٹ پر مل جاتے ہیں، لوگ اپنے ٹیلی فون یا کمپیوٹر پر اخبار کا وہ حصہ پڑھ لیتے ہیں جس میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے،ا س میں ان کے دس روپے تو کیا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا… دوسری اور سب سے اہم وجہ ان اخبارات میں کچھ نیا نہ ہونا ہے۔ اس دن کے اخبارات میں وہ چند خبریںہوتی ہیں جو اس سے پہلے کی شام میں لوگ ٹیلی وژن پر سن چکے ہوتے ہیں۔

اخبارات اب خبروں کا نہیں بلکہ اشتہارات کا پلندہ ہوتے ہیں، ان میں فیشن، فلم اور اشتہارات کے علاوہ صرف بیان بازی رہ گئی ہے۔ میں اخبار لوگوں تک پہنچاتا ہوں مگر مجھ سے پوچھیں تو میں اخبار خود بھی نہیں پڑھتا، چند شہ سرخیاں جو پیک کرتے ہوئے نظر سے گزر جائیں، ان پر بھی توجہ دینے کا وقت نہیں ہوتا، نہ ہی اہم لگتی ہیں۔

کچھ لوگ اس لیے اخبار پڑھتے ہیں کہ اس میں انھیں کالم پڑھنے کا شوق ہوتا ہے، اب سوشل میڈیا پر کالم شئیر کر کے سب لوگ پڑھ لیتے ہیں۔ جو لوگ اخبار لیتے بھی ہیں وہ بھی شاید صرف اس لیے لیتے ہیں کہ انھوں نے ساری زندگی اپنی صبح کا آغاز ایک ہاتھ میں چائے کے کپ اور دوسرے ہاتھ میں اخبار کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اخبار ان کے لائف اسٹائل کا ایک حصہ ہے۔ وہ اتنی ہی دیر اخبار کی شہ سرخیوں اور اندرونی صفحات کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں جتنی دیر میں ان کا چائے کا کپ ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد اخبار میز پر سے ہی ملازمین اٹھا کر یا ردی میں رکھ دیتے ہیں یا الماریوں وغیرہ میں بچھانے کے کام آتے ہیں یا انھیں پکوڑے تل کر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ ان میں اضافی تیل کو جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

میرا کام بھی ایک ایسا کام ہے جسے Thankless کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لو گ اخبار لیتے ہیں، اس کے بدلے مہینے کے آخر میں میں انھیں بل دیتا ہوں ، پھر کئی کئی پھیرے لگانے کے بعد مجھے ہر گھر سے بل کی وہ رقم ملتی ہے۔ مجھے کوئی شکریہ نہیں کہتا، کوئی مجھے سراہتا نہیں، کوئی احساس نہیں کرتا کہ میں ان کے دروازے تک ہر صبح ایک معمول کیمطابق اخبار پہنچاتا ہوں تو اس کے لیے مجھے کتنی کاوش کرنا پڑتی ہے۔ جب کبھی بارش ہو تو مجھے اخبارات کو تہہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر مومی لفافے بھی چڑھانا پڑتے ہیں تا کہ اخبارات بھیگیں نہیں، یہ ایک اضافی خرچہ ہوتا ہے اور میری اس روز کی کمائی میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ ایک انتہائی کٹھن کام ہے مگر کسی کو اس سے کیا۔

اگر آپ کو اس کام کے بارے میں ذرا سا بھی سمجھنا ہے تو آپ اپنے کسی نوجوان بچے کو رات کو تین بجے گہری نیند سے بیدار کریں ، اسے کوئی بھی بڑے سے بڑا لالچ دیں اور کہیں کہ اگلے ایک گھنٹے میں وہ بائیک پر گھر سے نکلے اور کچھ بھی سامان اسے دیں کہ وہ کسی کے گھر پر چھوڑ کر آئے، کسی بھی موسم میں اسے آزما لیں۔ میری عمر کے کسی نوجوان کا یوں آرام دہ بستر کو چھوڑنا، نیند کو ادھورا چھوڑ کر گھرسے نکلنا، یوں سفر کر کے ایک چھوٹا سا کام کرنا بھی اسے گراں گزرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو ماننے سے سرے سے انکار ہی کر دے، اور اگر آپ کے حکم کی تعمیل کرے بھی تو اس کا موڈ کتنا خراب ہو گا۔

ہمارے ہاں معترف ہونے کا رواج ہی نہیں ہے، مجھ جیسے وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح آپ کی زندگی میں آسانیاں لاتے ہیں، خواہ آپ اس کے لیے ہمیں عوضانہ دیتے ہیں، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کام ہمارے سوا آپ کے لیے کوئی کر بھی نہیں سکتا، خواہ وہ آپ کے گھر کے دروازے پر اخبار یا دودھ کی سپلائی ہو یا آپ کے گھر سے روزانہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کی ذمے داری۔ آپ سے صرف یہ درخواست ہے کہ ہمیں انسان بھی سمجھیں، صرف اخبار والا، دودھ والا یا جمعدار نہیں۔

ہمارے لیے بھی اتفاقات کے امکانات ہوتے ہیں، ہم بھی بیمار ہوسکتے ہیں، ہماری سواری بھی خراب ہو سکتی ہے، ہمارے گھروں میں بھی مجبوریاں ہو سکتی ہیں… کسی وجہ سے اپنے فرض پر دیر سے پہنچ سکتے ہیں،کسی دن نہیں بھی پہنچ سکتے۔ ان چیزوں کی وجہ سے ہماری ہتک نہ کریں جن پر ہمارا اختیار نہیں ہے۔

شنید ہے کہ باہر کے ممالک میںلوگ زمین سے دور کے کئی سیاروں پر کمند ڈال چکے ہیں مگر ان کے ہاں اب بھی اخبار کی اہمیت قائم ہے، ان کے ہاں ہر شخص کے ہاتھ میں آپ کو ٹرین یا بس کے سفر کے دوران اخبار یا کتاب نظر آتی ہے، شاید ان کے ہاں آگاہی ہے، تعلیم ہے اور اخبار میں کوئی نہ کوئی دلچسپی کا مواد بھی ہوتا ہو گا۔ ہمارے ہاں بھی اگر اتنی بڑی انڈسٹری کو مرنے سے بچانا ہے تو شاید اخبارات کے مالکان کو سر جوڑ کر بیٹھ کر یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اخبارات کے معیار کو بہتر اور ان میں ’’ خبریت ‘‘ کے عنصر کو زندہ کیا جا سکتا ہے… ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم بچوں کو بتایا کریں گے کہ خبر پڑھنے کے لیے پرانے زمانوں میں کاغذ کے بنے ہوئے اخبارات ہوا کرتے تھے جو …

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔