کچھ اصطلاحات کے بارے میں

مقتدا منصور  پير 20 مارچ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل سوشل میڈیا پر بعض شرانگیز پوسٹس کی وجہ سے آزاد خیال لوگ تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ساری شرارت آزاد خیال لوگوں کی ہے۔ حالانکہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے، انھیں آزاد خیال نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ حرکت ایسے افراد نے کی ہے جو نفسیاتی مریض اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں، جو خود کو نمایاں کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس قسم کی حرکات کرتے رہتے ہیں۔

دراصل ہمارے معاشرے میں بعض اصطلاحات کی غلط تفاہیم اور تشریحات رائج ہوگئی ہیں یا دانستہ کر دی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہو چکے ہیں۔ ان اصلاحات میں سیکولرازم (Secularism)، لبرل ازم (Liberalism)، لامذہبیت (Atheism)،لاادریت (Agnosticism)، جماعتی وابستگی (Partisan)، غیر جانبدار (Neutral) وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان اصطلاحات کی تفہیم و تشریح کا ازسرنو جائزہ لے لیا جائے، تاکہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصل معنی و مطالب کیا ہیں اور ان کے غلط استعمال کے نتیجے میں کیا غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں؟

سب سے پہلے سیکولر ازم کی بات کرتے ہیں۔ ماہرین سیاسیات نے اس کی جو تعریف کی ہے، اس کے مطابق A state, which remains neutral on the matters of beliefs of its citizens and abstains in imposition of any faith or religious believes upon them, is called a secular state. In this way Secularism is different from Atheism. Atheism is a lack of belief in God (or gods)۔ یعنی ایک ایسی ریاست جو اپنے شہریوں کے عقائد کے ضمن میں غیر جانبدار رہے اور ان پر کوئی عقیدہ یا مذہبی نظریہ مسلط کرنے سے گریز کرے، سیکولر ریاست کہلاتی ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ سیکولرازم لادینیت سے مختلف ہے، کیونکہ لادینیت کی اساس خدا (اور دیوتاؤں) کے تصور سے انکار پر ہوتی ہے، جب کہ سیکولرازم ریاستی امور میں مذہبی عقائد و نظریات کی عدم مداخلت ہے۔ اس لیے سیکولر ازم کے لیے زیادہ مناسب ترجمہ ’’ہمہ دینیت‘‘ ممکن ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ انگریزی اردو لغت تقسیم ہند سے بہت پہلے مکمل ہو گئی تھی۔ اس میں ان کی معاونت معروف دانشور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کی تھی۔ اغلب امکان یہی ہے کہ سیکولرازم کا ترجمہ لادینیت کرتے وقت بابائے اردو اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا ترجمہ آنے والے دنوں میںعوام میں فکری ابہام کا سبب بن جائے گا۔ آج برصغیر میں سیکولرازم کے مخالفین سیکولرازم کے اسی ترجمہ کو اپنے دلائل میں پیش کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے گویا یہ مذہب سے متصادم کوئی نظریہ ہے۔

لبرل ازم کا آسان سا ترجمہ آزاد خیالی ہے۔ عالمی سطح پر مروجہ تعریف کے مطابق Liberalism is a political philosophy, which is based on the ideas of liberty and equality. It promotes the views supporting freedom of faith and freedom of expression. It advocates democratisation of state and society with civil rights for all citizens irrespective of their faith, caste, creed and gender. ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک آزاد خیال شخص عقائد کی بحث میں نہیں الجھتا، وہ دوسروں کے عقائد کا احترام کرتا ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ اس کے نظریات کا احترام کیا جائے۔

اس تناظر میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص یا اشخاص کے عقائد و نظریات کی توہین کرتا ہے یا ان کا تمسخر اڑاتا ہے، تو وہ اس اصطلاح کی معروف تعریف کے مطابق آزاد خیال کہلانے کا حقدار نہیں ہے، جس طرح تکفیری عناصر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی طرح مذہب کی توہین کرنے والے عناصر لبرل نہیں ہوتے۔ ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ آزاد خیال فرد ریاست اور معاشرے کے جمہوریائے جانے پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے اس کا فاشسٹ ہونا بعید از قیاس ہے۔ چنانچہ جو دوست گزشتہ کئی برسوں سے ’’لبرل فاشسٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں، وہ منطقی طور پر غلط اور مبہم ہے۔ کیونکہ لبرل کبھی فاشسٹ اور فاشسٹ کبھی لبرل نہیں ہوسکتا۔ دونوں ایک دوسرے سے متضاد اصطلاحات ہیں۔

اب دو دیگر اصطلاحات یعنی لادینیت (Atheism)اور لا ادریت (Agnosticism) کی طرف آئیے۔ یہ وہ اصطلاحات ہیں، جنھیں ہمارے جیسے معاشروں میں گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ Atheist وہ فرد ہوتا ہے، جو خدا (یا دیوتاؤں) کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، یعنی ہر مذہب کا منکر ہو اور مذاہب کو غیر ضروری سمجھتا ہو۔ اس کے برعکس Agnistic اس شخص کو کہا جاتا ہے، جسے مذہب سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ وہ مذاہب  کے حوالے سے مباحث کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ مارکسسٹوں (Marxists) کا ہے۔ وہ شخص مارکسسٹ کہلاتا ہے، جو کارل مارکس کے فلسفے کو بطور سیاسی معیشت نافذ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لہٰذا ایک مذہبی شخص بھی مارکسسٹ ہو سکتا ہے اور ایک لادین بھی۔

اب ذرا ان اصطلاحات کی طرف آئیے، جن کا تعلق زیادہ تر ذرایع ابلاغ سے ہے، ان میں ایک ہے Non-partisan اور دوسری Apolitical۔ Non-partisan وہ شخص ہوتا ہے، جو سیاست کے اسرار و رموز سے کلی واقفیت رکھنے کے باوجود کسی جماعت کا رکن نہیں ہوتا، بلکہ وقت اور حالات کے تحت ان جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ان کی کارکردگی پر تنقید کرتا ہے، جب کہ Apolitical سے مراد وہ شخص ہے، جو سیاست میں عدم دلچسپی رکھتا ہو یعنی Having no interest or involvement in political affairs۔ ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سیاسی معاملات پر گہری نظر ہو۔ البتہ یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ Non-partisan رہے تاکہ غیر جانبداری کے ساتھ عوام کو سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کے بارے میں آگاہی دے سکے، لیکن کسی بھی طور Apolitical نہیں ہونا چاہیے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیکولرازم کی سب سے جامع تعریف ’لکم دینکم ولیَ دین‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص ’’اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت‘‘ کے فلسفہ پر یقین رکھتا ہے، وہ معروف معنی میں لبرل اور سیکولر ہے۔ چنانچہ جو فرد ریاست میں بلاامتیاز رنگ، نسل، صنف اور عقیدہ تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے لیے پیروی کرتا ہے، اسے لادین قرار دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایک سیکولر اور آزاد خیال (لبرل) شخص سچا مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور اکثر ہوتا بھی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور مولانا وحید الدین مرحوم اعلیٰ پائے کے اسلامی جید علما تھے، جن کی دینی علمیت اور خدمات پر انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ہے، مگر اپنی سیاسی فکر میں سیکولر خیالات کے حامل تھے۔

لہٰذا جس طرح انسانوں کی تکفیر کر کے خلق خدا کو ان کے قتل پر اکسانا جتنا قبیح جرم ہے، اتنا ہی سنگین جرم مذاہب اور عقائد کا تمسخر اڑانا ہے۔ ایسے لوگ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، جو اپنی انا کی تسکین اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسی بیہودہ باتیں کرتے ہیں۔ معاشرے کو مہذب اور شائستہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے جو یا تو عقیدے کی بنیاد پر خون خرابے کو فروغ دیں یا پھر عوام کے عقائد و نظر یات کی توہین کرکے ان کی دل آزاری کا باعث بنیں۔ اس لیے عرض ہے کہ سیاسی اصطلاحات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو مطعون کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔