عالمی یوم مسرت اور ہم

ثمینہ ریاض  پير 20 مارچ 2017
ہم نے خوش رہنے کے ہنر، عادت کو نہ خود اپنایا اور نہ یہ وراثت اپنی نسلوں کو منتقل کی، ماننا (تسلیم و رضا)، معاف کرنا اور بانٹنا ہمیں نہیں آتا اسی لئے آج پریشانی، گھٹن، ڈپریشن اور اکلاپے کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

ہم نے خوش رہنے کے ہنر، عادت کو نہ خود اپنایا اور نہ یہ وراثت اپنی نسلوں کو منتقل کی، ماننا (تسلیم و رضا)، معاف کرنا اور بانٹنا ہمیں نہیں آتا اسی لئے آج پریشانی، گھٹن، ڈپریشن اور اکلاپے کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں 20 مارچ، یومِ مسرت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اِس دن کو منانے کی تحریک اقوام متحدہ کے مشیر ’جیم ایلین‘ نے 28 جون 2012ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی تھی۔ جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 193 ممبران کے ووٹ سے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ پہلا یومِ مسرت دنیا میں 20 مارچ 2013ء کو منایا گیا اور اب ہر سال پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔

اِس دن اِس بات کو اُجاگر کیا جاتا ہے کہ دنیا میں خوش کیسے رہا جاسکتا ہے؟ اِس دن یہ باور کروایا جاتا ہے کہ خوش رہنے کے لئے آپ کا امیر ہونا، مشہور ہونا اور بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری نہیں، بس آپ میں خوش رہنے کی عادت ہونی چاہیئے کہ آپ قدرت کو اور اِس کی لطافت کو محسوس کرسکیں۔ اپنے آس پاس بِکھری خوشیوں کا اندازہ لگا سکیں اور دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوکر اپنے لئے مسرت کشید کرسکیں۔

محترم واصف علی واصف کا قول ہے کہ،

’’خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے‘‘

ہمارے ہاں معاشرتی طور پر بچوں کو خوش رہنے کی تربیت نہیں دی جاتی بلکہ اُنہیں اِس آرٹ سے ناآشنا رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب بھی کوئی ملے تو اُس سے مسکرا کر ملیں، اُس پر سلامتی بھیجیں اور بات نرمی سے کریں۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’مسکرانا بھی صدقہ ہے‘۔ محبت، رواداری اور بھائی چارے کا درس دینے والے معاشرے میں عدم برداشت، حسد اور کینہ سے لوگ بھرپور کیوں ہیں؟ اِس لئے کہ ہم نے خوش رہنے کے ہنر، عادت کو نہ خود اپنایا اور نہ یہ وراثت اپنی نسلوں کو منتقل کی۔ ماننا (تسلیم و رضاء)، معاف کرنا اور بانٹنا ہمیں نہیں آتا اِسی لئے آج پریشانی، گھٹن، ڈپریشن اور اکلاپے کا شکار ہیں۔ مسکراہٹ کے حوالے سے جمیل مظہری کا خوبصورت شعر پیش خدمت ہے،

میں صدقے تجھ پہ ادا تیرے مسکرانے کی
سمیٹے لیتی ہے رنگینیاں زمانے کی

اشفاق احمد سے اُن کے پروگرام زاویہ میں کسی نے پوچھا کہ خوش کیسے رہا جائے؟ تو انہوں نے اپنے دھیمے لہجے میں بڑا خوبصورت جواب دیا، اپنی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات سے خوش رہنے کے راز سے پردہ اُٹھایا۔ آج یومِ مسرت پر میں آپ سے اشفاق صاحب کی تحریر شیئر کروں گی، اُمید ہے آپ اِس سے بہت کچھ سیکھیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں، انسان عجیب عجیب قسم کی مشکلات میں مبتلا رہتا ہے اور اُسے اِن مشکلات کا کوئی مناسب حل سوجھتا نہیں ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے قد اور سوچ سے بڑی بات کرنے لگ جائے تو وہ پھر بُری طرح سے پھنس جاتا ہے۔ مجھ سے لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ آخر ”خوش کیسے رہا جائے‘‘ اور سکونِ قلب کے لئے کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے؟ اب ظاہر ہے کہ میرے پاس کوئی طب یا ہومیو پیتھک کی دوا تو نہیں ہے جو میں انہیں دے کر کہوں کہ اِس کی چند خوراکیں کھاؤ تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے پاس تو تجربات و مشاہدات ہی ہیں جن کی بناء پر میں اُن سے کچھ کہہ سکتا ہوں۔ گو تمام کے تمام واقعات مجھے پر گزرے نہیں ہیں، لیکن میں ان کا شاہد ضرور ہوں۔ خواتین و حضرات خوش رہنے کے لئے ایک مشکل سا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک کیا جائے۔ خوشی کے حصول کے لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے، وگرنہ آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ اگر خوش قسمتی کے ساتھ کوئی ایسی کیفیت حاصل ہوجائے کہ آدمی کے پاس اتنا علم نہ ہو جتنا علم وہ ساری زندگی اکٹھا کرتا رہتا ہے اور انسان میں معصومیت کی وہ لہر باقی ہو جو اسے اللہ نے عطا کر کے دنیا میں بھیجا ہے، اس کیفیت یا صورت میں تو آسانی میسر آسکتی ہے۔ اِس طرح کا آدمی اپنے ارد گرد کو دیکھ کر بھی پریشان نہیں ہوتا بلکہ خوش رہتا ہے۔

آپ دیکھتے ہوں گے کہ درختوں کو قادرِ مطلق نے جس طرح کا پیدا کردیا، وہ وہاں ہی کھڑے ہیں۔ ایک درخت کبھی دوسرے درخت سے حاسد نہیں ہوتا۔ کبھی درخت یہ نہیں کہتا کہ ہمیں تو جی آم کا درخت بنادیا اور لوگ ہمیں کھا کھا کر موجیں کر رہے ہیں اور ہمیں نوچ نوچ کر ٹوکریاں بھر کر لے جا رہے ہیں۔ کاش خدا نے ہمیں شہتوت کا درخت بنایا ہوتا اور مجھ پر رنگ برنگے شہتوت لگتے۔

خواتین و حضرات! انسان ہمیشہ اپنی قسمت پر شاکی رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے ایسا ہونا چاہیئے تھا، کوئی کہتا ہے مجھے ویسا ہونا چاہیئے تھا لیکن درخت ایسا شکوہ نہیں کرتے۔ کبھی درختوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ جناب جب سے پیدا ہوئے ہیں وہیں گڑے ہوئے ہیں۔ نہ کہیں سیر کی ہے نہ گھوم پِھر کے دیکھا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ خوشی سے جھومتے رہتے ہیں اور آپ کو بھی خوشیاں عطا کرتے ہیں۔ ایسے ہی پرندے اور جانور ہیں کبھی کسی شیر نے زیبرا بننے کی خواہش نہیں کی یا کسی ہرن نے کبھی فاختہ بننے کا نہیں سوچا۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کو بنانے والا علیم مطلق بہتر سمجھتا ہے کہ ہمیں کیسا ہونا چاہیئے۔ اگر میں اپنے آپ کو نہ بدلوں تو مجھے کہا جائے گا کہ اشفاق صاحب آپ اپنے رتبہ کا خیال رکھیں۔ ہمارے ہاں اِس قسم کی عجیب و غریب اقدار بن چکی ہیں جو انسان کو شرمندہ کرتی ہیں۔ ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس کو دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے؟ یہ مالی طور پر بھی کمزور ہے۔ علمی و عقلی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہے لیکن یہ خوش ہے۔

ہمارے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک ڈاکیا ہے جو بڑا اچھا ہے۔ اب تو شاید چلا گیا ہے۔ اُس کا نام اللہ دتہ ہے۔ اُس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اُس کا عشق ڈاک اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے۔ چاہے رات کے نو بج جائیں وہ خط پہنچا کر ہی جاتا ہے۔ وہاں علاقے میں کرنل صاحب کا ایک کتا تھا، اللہ دتہ کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اُس کتے نے اُس کی ٹانگ پر کاٹ لیا اور اس کی ایک بوٹی نکال لی۔ خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاکخانے آگیا۔ اُسے دیکھ کر پوسٹ ماسٹر صاحب بڑے پریشان ہوئے۔ اللہ دتہ نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ کیا تم نے کچھ لگایا بھی کہ نہیں!

وہ کہنے لگا نہیں جی بس بے چارہ پھیکا ہی کھا گیا۔ میں نے وہاں کچھ لگایا تو نہیں تھا۔ اب وہ ناداں سمجھ رہا تھا کہ آیا پوسٹ ماسٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے ٹانگ پر کتے کے کاٹنے سے پہلے کچھ لگایا ہوا تھا کہ نہیں۔ ہم اسے بعد میں اسپتال لے کر گئے اور اسے ٹیکے ویکے لگوائے۔ وہ بڑی دیر کی بات ہے لیکن وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبراتا ہی نہیں تھا اور ایسے آدمی پر کبھی خواہش گھیرا نہیں ڈال سکتی۔

انسان جب بھی خوش رہنے کے لئے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ امارت تو خوف ہوتا ہے اور آدمی، دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے امیر بننا چاہتا ہے۔ جب یہ باتیں ذہن کے پسِ منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہوئے تھے۔ وہاں ایک سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو۔ میں اُس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا۔ اُس میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو بیان نہیں کی جاسکتیں۔

ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اُسے چالیس روپے دیتے تھے۔ وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک دن دفتر نہ آیا تو میں نے ٹھیکدار سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آیا؟ میں نے اُس کا پتہ کرنے کا کہا۔ وہ اچھرہ کی کچی آبادی میں رہتا تھا۔ میں اپنے سیکرٹری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اُسے لینے چلا گیا۔ بڑی مشکل سے ہم اُس کا گھر ڈھونڈ کر جب وہاں گئے تو سیکرٹری نے سلطان کہہ کے آواز دی۔ اُس نے کہا کہ کیا بات ہے؟

میرے سیکرٹری نے کہا کہ صاحب آئے ہیں۔ اُس نے جواب دیا کیہڑا صاحب! سیکرٹری نے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب۔ وہ جب باہر آیا تو مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا اور اُس نے انتہائی خوشی کے ساتھ اندر آنے کو کہا۔ لیکن میں نے اُس سے کہا کہ میں سخت ناراض ہوں اور میں تمہاری سرزنش کے لیے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ سر میں بس آج نہیں آسکا۔ ایک مشکل ہوگئی تھی۔

میں نے کہا کونسی مشکل؟ تم ہمیں بغیر بتائے گھر بیٹھے ہوئے ہو اور اِس طرح سے میری بڑی توہین ہوئی ہے کہ تم نے اپنی مرضی سے چھٹی کرلی۔ وہ کہنے لگا کہ سر آپ برائے مہربانی اندر تو آئیں۔ وہ مجھے زبردستی اندر لے گیا۔ اُس کی بیوی چائے بنانے لگ گئی۔ میں نے اُس سے کہا میں چائے نہیں پیوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے چھٹی کیوں کی؟

وہ کہنے لگا کہ سر جب کل شام کو میں گھر آیا تو ٹین کے کنستر میں میں نے سورج مکھی کا ایک پودا لگایا ہوا تھا اور اُس میں ڈوڈی کِھل کے اتنا بڑا پھول بن گیا تھا کہ میں کھڑا کھڑا اُسے دیکھتا رہا اور میری بیوی نے کہا کہ یہ پہلا پھول ہے جو ہمارے گھر میں کھلا ہے۔

وہ کہنے لگا کہ سر مجھے وہ پھول اتنا اچھا لگا کہ میں خوشی سے پاگل ہورہا تھا اور جب ہم کھانا کھاچکنے کے بعد سونے لگے تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ ”سلطان کیا تمہیں معلوم ہے آج ہمارا کاکا چلنے لگا ہے اور اُس نے آٹھ دس قدم اٹھائے ہیں‘‘۔ اُس وقت کاکا سوچکا تھا لیکن جب میں صبح اُٹھا تو میں نے اپنے بیٹے کو بھی جگایا اور ہم میاں بیوی دور بیٹھ گئے۔ ایک طرف سے میری بیوی کاکے کو چھوڑ دیتی۔ اور وہ ڈگمگاتا ہوا میری طرف چلتا ہوا آتا اور جب وہ مجھ تک پہنچتا تو میں اس کی ماں کی طرف اس کا منہ کر دیتا تو وہ ڈگ مگ ڈگ مگ کرتا ماں تک پہنچتا اور ٹھاہ کرکے اُس سے چمٹ جاتا۔ ہم بڑی دیر تک اپنے بیٹے کو دیکھتے رہے۔ وہ کہنے لگا

”سر اتنا اچھا پھول کھلا ہو اور بچے نے ایسا اچھا چلنا سیکھا ہو اور ایسا خوب صورت دن ہو تو اُسے چالیس روپے میں تو نہیں بیچا جاسکتا ناں! سر آج کا دن میرا ہے۔‘‘

اب میں شرمندہ سا ہو کر واپس آگیا۔

خواتین و حضرات! اگر انسان میں اتنی طاقت ہو اور وہ ایسی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر وہ خوشیوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے لیکن اگر اُس کی زندگی کی خوشیاں ایسی ہوں جیسی ہماری ہیں اور جن کے ہم قریب بھی نہیں پھٹک سکتے اور ٹین کے کنستر میں لگا پھول ہمیں کبھی نظر ہی نہیں آسکتا ہے۔ ہمیں خوشیاں بانٹنا آتا ہی نہیں۔ ہم نے یہ فن سیکھا ہی نہیں ہے۔

شیئر کرنا ایک ایسا مشکل کام ہے جو ہمیں یہ کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی نے سکھایا نہیں ہے۔ ہمیں اپنی چیزیں سنبھال کر رکھنے کی ہی ہمیشہ تلقین کی گئی ہے۔ جب پاکستان نہیں بنا تھا اُس وقت تو ہمارے ہندو دوست کھانا کھاتے ہوئے اوپر پردہ ڈال لیتے تھے کہ کہیں کوئی اور کھانا نہ مانگ لے اور شریک نہ ہوجائے۔ اب ہمارے ہاں بھی ایسا رواج پروان چڑھ گیا ہے اور ہمیں بھی چھپانا آگیا ہے اور ہم شیئر کرنے سے گھبراتے ہیں، اور ہماری گردنوں پر یہی بوجھ وبال بنا ہوا ہے، میں اکثر چھوٹے بچوں، اپنے پوتوں، پوتیوں اور نواسیوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا زیادہ قصور نہیں ہے۔ ہمارے سارے ہی علاقے پر تیزاب کی بارش ہورہی ہے اور جب باہر نکلو گے تو اُس کے چھینٹے پڑیں گے ہی اور آپ کو ڈپریشن کا شکار ہونا پڑے گا کیونکہ آپ اپنا آپ کھول نہیں سکتے ہیں۔

آپ اپنے ناک، آنکھ ، کان اور بالوں کو دیکھ کر خدا کی تعریف کرو اور سبحان اللہ کہو پھر دیکھو کتنی نعمتیں آپ پر وارد ہوتی ہیں۔ جیسے جانوروں، درختوں اور پرندوں پر وارد ہوتی ہیں۔ آپ نے کبھی دیکھا کہ پرندہ کس قدر خوش نصیب ہے جو گاتے گاتے فوت ہوجاتا ہے۔ اُس کی موت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ وہ ہم انسانوں کی طرح موت سے خوف زدہ ہوکر کئی دفعہ نہیں مرتا ہے۔ اُسے فکرِ فردا نہیں ہوتی ہے۔ ہم فکرِ فردا کے عذاب میں مبتلا ہوکر مرتے جا رہے ہیں۔

بانو قدسیہ کی والدہ جو میری ساس تھیں وہ لمبے لمبے دوروں پر جایا کرتی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ ”کروشیا‘‘ ضرور رکھتی تھیں۔ (شاید ہمارے بچوں کو کروشیے کا پتہ نہ ہو)۔ وہ سفر میں اپنے ساتھ کروشیے کے ساتھ کھٹا کھٹ بُنتی جاتی ہوتی تھیں اور جب دورے سے لوٹ کر آتی تھیں تو اُن کے پاس کچھ نہ کچھ بنا ہوا اور مکمل ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہم اسلام آباد جا رہے تھے تو انہوں نے اپنا کروشیا نکال لیا اور کچھ بُننے لگیں۔ اُن کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگیں۔ (ان دنوں فوکر کا زمانہ تھا) وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے تو بڑے کمال کا ڈیزائن بنایا ہے۔ یہ بہت خوب صورت ہے۔ وہ گلاس کے نیچے رکھنے والی کوئی چیز تھی۔ میری ساس اُس خاتون کو کہنے لگی کہ یہ اب مکمل ہوگیا اور یہ اب تمہارا ہوا۔

اُس نے بڑی مہربانی اور شکریہ سے وصول کیا۔ جب میری ساس صاحبہ اِس طرح کی کوئی دوسری چیز بنانے لگیں تو اُس خاتون نے کہا کہ یہ تو میں حیدر کو دے دوں گی اور میں چاہتی ہوں کہ اِس جیسا ایک اور میرے پاس بھی ہو۔ میری ساس کہنے لگی کہ وقت تھوڑا ہے اور یہ بن نہیں پائے گا۔ آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں میں پہنچا دوں گی۔ لیکن انہوں نے بنانا شروع کردیا۔ جب ہم پنڈی پہنچے تو اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بہت دھند ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ ممکن نہیں ہے لہٰذا اس جہاز کو پشاور لے جایا جا رہا ہے۔ اُس اعلان سے میری ساس بڑی خوش ہوئیں کہ مزید وقت مل گیا ہے۔ جب پشاور لینڈ کرنے لگے تو پائلٹ کی آواز آئی کہ ہم یہاں لینڈ کرنے آئے تھے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اب یہاں کا موسم بھی پنڈی جیسا ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمیں واپس پنڈی جانا ہوگا کیونکہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں کا موسم ٹھیک ہوگیا ہے۔ جب ہم پنڈی آئے تو وہ چیز تھوڑی سی رہ گئی اور مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پائلٹ کی آواز پھر گونجی کہ ہم لینڈنگ کرنے والے ہیں لیکن ایک دو چکر اور لگائیں گے تاکہ رن وے کا درست اندازہ ہوسکے۔ جب وہ چیز مکمل بن چکی اور دو چکر بھی مکمل ہوگئے تو جہاز میں موجود ایک فوجی نے تالی بجائی اور میری ساس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ

”بیگم صاحبہ کیا اب لینڈ کرنے کی اجازت ہے؟”

میری ساس نے کہا کہ ہاں اب ہے کیونکہ یہ بن چکا ہے۔ ہم نے اور آپ نے کبھی شیئر کرنے والا کام نہیں کیا ہے۔ ہم نے کبھی خوشیوں کو شئیر نہیں کیا، ہم نے اپنی مسکراہٹ پر بھی کنٹرول رکھا ہوا ہے کہ خبردار مسکرانا نہیں۔ جب ہم کالج یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو ہمارا منہ ایسے سوجا ہوتا ہے جیسے پتہ نہیں کیا غضب ہوگیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم مسکراتے پھریں۔ ہمارا تو دین ہی سلامتی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب ہم کسی کو السلام و علیکم کہہ دیں تو پھر اُس کا قتل نہیں کرسکتے۔ آپ کا اگر کسی کو قتل کرنے کا ارادہ ہو، خدانخواستہ تو پھر السلام علیکم نہ کہنا (مسکراتے رہنا) کیونکہ آپ اس شخص پر پہلے سلامتی بھیج دیں گے تو اُسے قتل کیسے کریں گے؟ جب تک آپ خوشیاں بانٹیں گے نہیں خوشیاں پا نہیں سکتے۔

خواتین و حضرات ماننے والا شخص اِس زمین سے اُٹھ کر افلاک تک پہنچ جاتا ہے اور وہ براق پر سوار ہوکر جوتوں سمیت اوپر پہنچ جاتا ہے، اور جو نہ ماننے والا ہوتا ہے وہ بے چارہ ہمارے ساتھ یہیں گھومتا پھرتا رہ جاتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ زمین میں کششِ ثقل ہے تو پھر ہم آگے چلتے ہیں اور ہمارا اگلا سفر شروع ہوتا ہے جبکہ نہ ماننے سے مشکل پڑتی ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔