ضرب عضب کے بعد ملک میں کسی دہشتگرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر نہیں، چوہدری نثار

ویب ڈیسک  پير 20 مارچ 2017

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد اب ملک میں کوئی بھی دہشت گرد نیٹ ورک موجود نہیں اور دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں کام نہیں کرسکتیں۔

سینٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 2013 سے پہلے ملک میں  دہشت گردوں کے دفاتر ہوتے تھے، ملک میں روزانہ کی بنیاد پر 5 سے 6 دھماکے ہوتے تھے، اس وقت کسی میں توفیق نہیں تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے اور آج کئی ہفتے اورماہ ہو جاتے ہیں دھماکا نہیں ہوتا، ہم نے دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک توڑے ہیں اور ہزاروں گرفتاریاں کیں جس کی پوری دنیا متعرف ہے، ساڑھے 3 سال میں بے شک کوئی بھی گونگا اور بہرہ بن جائے لیکن میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: نہ پہلے کسی آزمائش سے گھبرائے اور نہ آئندہ ہمارے قدم ڈگمگائیں گے

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد اب ملک میں کوئی بھی دہشت گرد نیٹ ورک موجود نہیں، سندھ سے لے کر خیبرپختون خوا تک انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہوئے، سیکیورٹی صورتحال کی بہتری کو دنیا مانتی ہے، داخلی و خارجی سیکیورٹی اور آپریشن ردالفساد کے فیصلے بھی وفاقی حکومت نے کئے ، کالعدم تنطیموں کے ہزاروں کارکن ہوتے ہیں لیکن پھر بھی  ہمارے دور میں متعدد فرقہ پرست جماعتیں کالعدم ہوئیں، کئی جماعتوں کے رہنماؤں کو جیل بھیجا لیکن فرقہ پرست جماعتوں کے سربراہوں کے خلاف مقدمات نہیں تو ان کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی کریں یہ قانون کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ نے گزشتہ انتخابات میں حصہ لیا تو کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور جب مجھ سے کوئی ملنے آجاتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے اگر یہی شور اس وقت مچایا جاتا تو مجھے خوشی ہوتی۔  میری ملاقات شناختی کارڈ کی بندش پر ہوئی ایسا قانون بتایا جائے جس کے تحت کوئی سرکاری افسر کسی وزیر سے نہیں مل سکتا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: دہشت گردی کے واقعات ہماری کوتاہیوں سے ہوتے ہیں

چوہدری نثار نے کہا کہ گزشتہ 5 سال کا ریکارڈ نکلوائیں کسی کو علم نہیں تھا کہ ملک میں کتنی کالعدم تنظیمیں ہیں میں نے نیکٹا کو ہدایت کی کہ نیا قانون لایا جائے جس کے تحت فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں پر زمین تنگ کی جائے لیکن قانون سازی کے حوالے میری مدد کرنے کے بجائے سب الٹا کردیا گیا،  اگر کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013 کے اخبارات نکال لیں تو کہا جاتا تھا کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے لیکن میں نے اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھایا اور کہا کہ اس پر بحث ہونی چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کراچی کے دورے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے ہمیں مل کر مسئلے کا حل نکالنا ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ قائم علی شاہ نے بھی کراچی آپریشن میں بھرپورساتھ دیا، ہم سب نے مل کر شہر قائد کے حالات بہتر بنائے میں نے کبھی کریڈٹ نہیں لیا لیکن کچھ لوگوں کو خوامخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہوتا ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: کراچی آپریشن کو منطقی انجام تك پہنچانے كی ضرورت ہے

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں کالعدم تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں اوراگر کوئی اب ان کا نام بھی لے تو اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، پابندی کی شکار فرقہ وارانہ جماعتیں ہم سے پابندی ہٹانے کی اپیل کرتی ہیں لیکن ہم نے کوئی اپیل نہیں مانی جس کے بعد وہ عدالت سے رجوع کرلیتے ہیں یہ راستہ بھی بند ہونا چاہئے۔ تھوڑا سا سفر باقی رہ گیا ہے اس کے لئے سب کو مل کر کاوشیں کرنا ہوں گی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: پاکستان کے دشمن سول و عسکری تعلقات میں قربت نہیں دیکھناچاہتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔