بے قصور پنجاب…؟

مزمل سہروردی  منگل 21 مارچ 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست میں پنجاب کے خلاف بیان دینا فیشن بن گیا ہے۔ شرجیل میمن بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے‘ سندھ اور پنجاب میں احتساب کے تقاضے مختلف ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ میں احتساب کے حوالے  سے سختی ہے اور پنجاب میں نرمی۔

ادھر سابق صدر آصف زرداری لاہور میں قیام پذیر ہیں اور یہ نعرہ لگا رہے ہیں اس دفعہ پنجاب پیپلزپارٹی کا ہو گا۔ وہ پنجاب کی سیاست میں پیپلزپارٹی کی نہ صرف بحالی بلکہ پنجاب کو حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ پیپلزپارٹی کیا پنجاب مخالف سیاست کر کے پنجاب کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ یا پنجاب کے لوگوں کا دل جیت کر پنجاب میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا پنجاب کی مسلسل مخالفت کر کے پنجاب سے ووٹ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کیا پنجاب میں سیاست کے لیے تعصب کو ہوا دینا ضروری ہے۔

محترم شرجیل میمن ایک لمبی جلا وطنی گزار کر وطن واپس آئے ہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے تو پھر انھوں نے اسلام آباد واپسی کا کیوں پروگرام بنایا۔ وہ کراچی سے گئے تھے اور انھیں کراچی ہی واپس آنا چاہیے تھا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کا انتخاب صرف اس لیے کیا ہے تا کہ پنجاب کے حوالے سے ماحول بنایا جا سکے۔پنجاب حکومت بھی پریشان ہے کہ اسلام آباد اس کی حدود میں بھی نہیں ۔ لیکن باتیں پنجاب کو سننا پڑ رہی ہیں۔

بے قصور پنجاب تو سوال بھی نہیں کر سکتا کہ میرا کیا قصور ہے۔ پنجاب کو تو اپنی بے گناہی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن بھی پانامہ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ بہت نرمی کی ہے۔ وہ اس نرمی کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا۔

حیرانی کی بات تو یہی ہے کہ یہ بات بھی بیرسٹر اعتزاز احسن ہی کر رہے ہیں ۔جن کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ دیوانی کیس میں فریقین کی طرف سے وکیل ہی پیش ہو تا ہے ۔ جہاں تک عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کی سپریم کورٹ میں پانامہ کے دوران پیشی کا تعلق ہے تو انھیں بھی عدالت نے طلب نہیں کیا ہوا تھا ۔ وہ تو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت وہاں جاتے تھے۔ جس کے جواب میں ن لیگ کا بھی ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی وہاں موجود ہو تا تھا۔ حالانکہ دونوں کی وہاں کوئی ضرورت نہیں تھی۔

صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں دیتی بلکہ تحریک انصاف بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پنجاب کو گالی دیتی ہے ۔ تحریک انصاف کے کے پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی سندھ حکومت کی طرح پنجاب کو گالی دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مجھے تحریک انصاف کے پنجاب دشمن رویہ پر زیادہ حیرانی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کا دکھ تو سمجھ میں آتا ہے کہ پنجاب سے ان کا ووٹ بینک بہت کم ہو گیا ہے۔ اور پنجاب میں ان کی سیاست کا بویا بستر تو گول ہو گیا ہے۔

زیادہ بری بات یہ بھی ہے کہ فی الحال پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اپنی سیاست کی بحالی کے آثار نظر بھی نہیں آرہے لہذا اگر سندھ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی پنجاب کے خلاف بات کرتی بھی ہے تو انھیں سیاسی طور پر زیادہ نقصان نہیں۔ لیکن تحریک انصاف تو پنجاب کی سیاست میں مکمل طور پر موجود ہے۔ تحریک انصاف بلاشبہ اس وقت پنجاب کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پنجاب میںایک مستحکم اور بڑا ووٹ بینک ہے لیکن پھر بھی اس کی جانب سے پنجاب مخالف بیانات اور پنجاب کو برا بھلا کہنے کی سیاست سمجھ سے بالا تر ہے۔

اس ضمن میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پنجاب کو گالی دراصل پنجاب پر حکمران قیادت کی وجہ سے پڑتی ہے۔ پنجاب کی حکمران قیادت کی وجہ سے پنجاب بھی بد نام ہو تا ہے۔ لیکن اگر ایسا بھی ہے تو بھی نہایت افسوسناک ہے۔ سندھ اور دیگر صوبوں کو پنجاب کی حکمرانوں کو گالی دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ پنجاب کو گالی نہ دی جائے۔

جہاں تک ا حتساب کا تعلق ہے تو مجھے نیب پر بھی حیرت ہے کہ انھیں شرجیل میمن کو گرفتار کرنے کے لیے اتنی پھرتی دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔جب ساری دنیا کو پتہ تھا کہ ان کے پاس اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل ہے تو پھر نیب کی لا علمی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ویسے تو سپریم کورٹ پانامہ کیس میں نیب کو مردہ قرار دے چکی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ مردہ جب جی چاہتا ہے زندہ ہو جاتا اور جب دل چاہتا  ہے مردہ ہو جاتاہے۔ نیب کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اسے تمام کام قانون آئین کے تقاضوں کے تحت ہی کرنے ہیں۔

کئی مقدمات میں نیب کی سست رفتار بھی اس پر تنقید کا باعث ہے۔ جب کہ کئی مقدمات میں اس کی پھرتیاں بھی اس پر تنقید کا باعث ہیں۔ ایسے میں نیب کی جانب سے یہ سوال جائز ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ جب کچھ نہیں کرتا تو تنقید ہوتی ہے سپریم کورٹ نیب کو مردہ قرار دے دیتا ہے۔ اور جب کچھ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اتنی پھرتیاں دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ تا ہم اس ضمن میں نیب کا اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس کی جانب سے ایسی پالیسی واضع ہونی چاہیے کہ ایسالگے کہ وہ بس ملزمان کے ساتھ یکساں سلوک کر رہی ہے۔

جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہی پنجاب کا حسن ہے کہ یہ پنجاب کو گالی دینے والوں کو بھی گلے لگا لیتا ہے۔یہاں سب کے لیے سیاست کے دروازے کھلے ہیں۔ یہاں کوئی لسانی سیاست نہیں۔ یہاں زبان کی سیاست نہیں۔ یہاں کالاباغ ڈیم کے مخالف بھی سیاست کر رہے ہیں۔ اسی لیے پنجاب پنجاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔