ایٹمی جنگ کی بازگشت

کشور زہرا  منگل 21 مارچ 2017

پاک وہند تنازعات پر عالمی قوتوں کے خدشات تیسری بڑی جنگ کی طرف اشارہ دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔جو آپس کی فضا کو بہتر بنانے کے بجائے مزید بوجھل کرتے نظر آرہے ہیں گزشتہ ہفتے امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل جوزف کا یہ بیان کہ پاک ہند کشیدگی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں دونوں ممالک میں اچھے تعلقات پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بھارت کی پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی پالیسی کشیدگی میں اضافہ کررہی ہے۔ دراصل امریکی جنرل کا یہ بیانیہ صرف دو ممالک کے لیے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کو بھی نوٹس کر رہا ہے۔

دوسری جانب امریکی ری پبلکن پارٹی کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن ’’ٹیڈپو‘‘ کی جانب سے ایک بل متعارف کروایا گیا، جس میں ہمیں بتاتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا ملک قراردیا جائے، جو پاکستان کو کسی اور طرف کھڑاکردینے کے مترادف ہے۔کیا یہ امریکا اورمودی کی محبت کا شاخسانہ ہے یا پھر قوتوں کے مابین مزید خلیج بڑھا کر ثالثی کی پیشکش کرکے اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کا ڈھنگ۔

جب کہ عوامی سطح پر حالات اس کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں ،جس کے منظرنامے میں نہ پاکستان کی عوام اور نہ ہی ہندوستان کی جنتا، نہ دونوں ملکوں کے تجارت پیشہ افراد اور نہ ہی دونوں اطراف کے تخلیق کار جن میں شاعر، فنکار،دانشورکوئی بھی لڑنے مرنے کو تیار ہیں سیاستدان بھی گفت وشنید کرنے کے راستے تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ماضی میں اٹل بہاری واجپائی بس میں سوار ہوکر لاہور تشریف لے آئے اورکچھ عرصہ قبل موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خصوصی پرواز سے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے آئے تو ایسے تمام مواقعوں پر پاکستان میں بھی ان کے ہم منصبوں نے پرتپاک استقبال کرکے میزبانی کی ثقافت کے رنگ جمائے۔ سشما سوراج نے پائے لاگن کہہ کر بزرگوں کے پاؤں چھولیے اور سرتاج عزیز کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر مفاہمت کا لہجہ اختیارکیا تو انھیں بھی سینے سے لگا کر دعاؤں کے حصار میں لے لیا گیا۔ جس سے یہ تاثر ایک بار پھر ابھرکر سامنے آیا کہ دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات اب بہتری کی طرف مائل ہونے لگے ہیں۔

افواج پاکستان جن پر پوری قوم کو فخر ہے اوران کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر کھڑی ہے۔اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو نیست ونابود کرنے کے لیے اپنا کردار عملاً ادا کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ آئی ایس پی آرکے ترجمان کے مطابق پاک فوج اپنی ضرب سے پوری دنیا کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں مصروف ہے۔ لہٰذا عسکری ادارے کی جانب سے بھی اپنی ذمے داری سنبھالتے وقت میجر جنرل عبدالغفور نے پریس کانفرنس میں پڑوسی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے پہلا پیغام امن کا دیا کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بار آورکیا ہے کہ ہماری اس خواہش کوکمزوری نہ سمجھا جائے۔

اور اب یہ تمام مثبت عمل کسی بیک ڈور پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ واشگاف الفاظ میں بہتری کا پیغام نظرآتا ہے سو ایسے میں تیسری عالمی جنگ کے خدشات کیوں؟ اور کس لیے؟کون نہیں جانتا کہ ایٹمی جنگ محض آتش بازی کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی تباہی کا نام ہے، جس میں کچھ نہیں بچتا اگر ایسی صورتحال محسوس ہورہی ہو تو اس کمزور اور منفی سوچ کے لوگ جو پیلی بتی کے بعد ہری بتی جلنے کا انتظارکررہے ہیں۔ وہ ان معاملات کو مثبت سمت لے جانے اور روکنے کے لیے سرخ بتی پہ فوکس کریں اوراس خوفناک تباہی سے بچنے کے لیے جسے جنگ کہتے ہیں ضروری ہے کہ خطے میں کسی کی اجارہ داری یا دھونس کی بدولت حالات کو کشیدگی کی طرف لے جانے کے بجائے تدبر کا مظاہرہ کرکے اپنی ملکی اور بین الاقوامی ذمے داریوں کا احساس اقوام عالم کو باور کروانا ہوگا۔ جوصرف عالمی قوانین کی پاسداری سے ہی ممکن ہوسکتا ہے نہ کہ کسی کی ناعاقبت اندیشی پر جنگ کا بازارلگا دیا جائے اس صورتحال سے بچنے کے لیے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں آفت آجانے پر اوراس کے تدارک کے لیے واویلا مچانے کے بجائے ایسی ہولناک تباہیوں سے بچنے کے اقدامات کے راستوں کا پرچارکریں کیونکہ خدانخواستہ، خدانخواستہ، خدانخواستہ ایسا ہوا تو نہ وہ خود بلکہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔

بزرگوں کی تربیت اور نصیحت کے مطابق سنتے آئے ہیں کہ نہ برا سوچو اورنہ بری بات منہ سے نکالو۔ اس کے علاوہ مائنڈ سائنس بھی بڑی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور آج کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ Think Positive You will Find Positive اس لیے ہمیں بہتری کی خواہش اور سوچ کے ساتھ گفت وشنید کے ذریعے امن کے راستوں کو اپنانا ہوگا۔ 70 سال سے سلگتی ہوئی آنچ کو بھڑکانے کے بجائے محبت اور پیارکے رویوں سے ٹھنڈا کرنے میں ہی ہم سب کی اور پوری دنیا کی بہتری کے لیے اس مسئلے کا حل انتہائی ضروری ہے کہ خطے کے دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کو مل کر باہمی تعاون سے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہوگا۔

سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے ریاستی اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل ترین افسران کی بڑی تعداد اپنی حیثیت رکھتی ہے جن سے ہمیں اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں، وہ یقینا اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں کو مناسب مشاورت ضرور فراہم کریں گے اور وہ تخلیق کار جو نثرنگاری اور شاعری میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اپنے قلم، گفتگو اور ترنم کے ذریعے کیونکہ آپس میں اظہار خیال کے لیے کسی مترجم کی ضرورت نہیں جب کہ اردو زبان پورے برصغیر میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ ایک دوستانہ ماحول فراہم کریں ہندوستان میں ہونے والے پروگرام ’’ریختہ‘‘ اور پاکستان کے تمام شہروں میں منعقد ہونے والا مقبول عام ’’اردو فیسٹیول‘‘ جیسے پروگراموں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے جس میں شرکا کو شرکت کے لیے ویزے کی سہولتیں آسان کی جائیں۔

اس کے علاوہ ممبران پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے متحرک ہونا ہوگا۔ سیاسی بیان بازی کی دوڑ سے باہر باہر آکر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ ان کو امن اور خوشحالی کی صورت میں واپس دینا ہوگا کیونکہ عدم تحفظ کا احساس قوموں اورنسلوں کوکچھ نہیں دے سکے گا ترقی اور بہتری کے لیے دونوں ممالک کے ان لوگوں کو مل کر ایک میکنزم تشکیل دینا ہوگا جس کی رو سے آپس میں ایک دوسرے کے ملکوں کے شہریوں کا احترام لازم قرار دیا جائے جس میں غلطی سے ایک دوسرے کی سرحد عبورکرنے والا یا سرحدوں کے آس پاس بسے ہوئے کسان، چرواہے، معصوم شہری ہوں یا سمندری حدود میں بھٹک جانے والے غریب ماہی گیر وہ خواہ پاکستان کے ہوں یا ہندوستان کے یہ سب ایک انرجی ہوتے ہیں۔

غلط فہمیوں کی بنیاد پر لمبی لمبی کہانیوں کا عنوان بنا دیے جاتے ہیں۔ سرحد پر جان دینے والا سپاہی بھی انسان ہی ہوتا ہے زندہ انسان ایک توانائی کا نام ہے کیونکہ اس طرز عمل سے سرحدیں صرف خوف کی علامت ہی نہیں بلکہ انسانوں کو نگل رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے سنجیدہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دونوں ممالک اپنی انرجی اس تیسرے دشمن کو جو ایک مذموم دہشت گردی سے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھا رہا ہے۔ اس کے اصل چہرے کو پہچاننے اور واصل جہنم کرنے کی کوشش کریں تاکہ برصغیر میں بسنے والے انسان سکھ کا سانس لے سکیں جو اس خطے میں امن کے لیے پہلی شرط ہے کہ پڑوسی کو پڑوسی ہی سمجھا جائے طاقت اور قوت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے رہنے سے جو تپش پیدا ہوگی، اس سے ہاتھ تاپنے والے کسی نہ کسی طور پر اپنی اہمیت بڑھاتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔