اساتذہ اور ڈاکٹرز کا تقرر میرٹ پر کیا جائے

ساجد علی ساجد  منگل 21 مارچ 2017

باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے ایک ایسی قومی پالیسی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کم ازکم تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی خالصتاً میرٹ پر تعیناتی کو یقینی بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سیاسی اور لسانی مصلحتوں کو بروئے کار نہ لانے کا بندوبست کیا جائے گا (کاش یہ خبر درست ثابت ہو) ان پیشوں کو منتخب کرنے کا سبب یہ ہے کہ اساتذہ مستقبل کی نسلوں کی تعمیر و تحفظ کا کام کرتے ہیں اور ڈاکٹرز انسانی جانیں بچانے کی اہم ذمے داری سرانجام دیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں تعلیم اور صحت ایسے شعبے ہیں جن کو بجا طور پر بنیادی اہمیت دی جاتی ہے جب بھی کسی ملک کے حکمراں خلوص اور سنجیدگی سے اپنے ملک و قوم کی فلاح اور ترقی کا منصوبہ بناتے ہیں تو شروعات تعلیم سے ہی کرتے ہیں۔

دنیا میں کثرت سے ان ملکوں اور قوموں نے ترقی کی ہے جہاں عوام کو مفت اچھی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بھی کسی طور پر بھی نجی تعلیمی اداروں سے کم تر نہیں ہے، کیونکہ جیساکہ بتایا جاتا ہے حکومت کی طرف سے سرکاری تدریسی اداروں کی بھی کڑی مانیٹرنگ کی جاتی ہے، پھر یہ بھی اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر قابل اور باصلاحیت اساتذہ کا تقرر کرکے ہی تعلیم و تدریس کا مطلوبہ معیار برقرار رکھا جاتا ہے اور اپنے یہاں کے طالب علموں کو اس سطح اور معیار تک لے جایا جاسکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے لیے قابل قبول ہوسکیں اور یہ سمجھداری نہ دکھانے والی قوتیں کنوئیں کا مینڈک بن جاتی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب نجی شعبے میں اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے، طلبا و طالبات کی اکثریت سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھا کرتی تھی اور ایسے ہی سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے ہی اچھا STUFF نکل کر ملک میں اہم عہدوں پر فائز ہوا کرتا تھا۔ مگر پھر بدقسمتی سے یہ سرکاری ادارے انحطاط کا شکار ہوگئے اور انھوں نے اچھے طلبا و طالبات پروڈیوس کرنا چھوڑ دیے، یقیناً اس زوال اور بگاڑ کی ابتدا سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر نااہل اساتذہ کی تقرریوں سے ہوئی ہوگی۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ہماری حکومتیں محض وقتی اور معمولی سیاسی فائدوں کے لیے اپنی پوری نسل کا مستقبل داؤ پر لگا رہی ہیں۔

اساتذہ طالب علموں کی نشوونما میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں ایک موقر انگریزی روزنامے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک طرف اگر نااہل اساتذہ کی بھرمار بھی طلبا و طالبات کے مستقبل کو اجاڑنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ ایک اکیلا استاد جس کی تقرری میرٹ پر ہوئی ہو اگر تن تنہا کچھ کر گزرنے کا بیڑا اٹھا لے تو کم ازکم اپنے ادارے میں جس سے وہ وابستہ ہے ایک انقلاب سا برپا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

خالد حسین ایک گورنمنٹ ہائی اسکول میں پرنسپل ہیں، پبلک ایجوکیشن سسٹم کا حصہ ایسے گنے چنے اسکول سربراہوں اور استادوں میں سے ایک، جن کے دماغ میں اپنے طلبا کو اچھی اور معیاری تعلیم دینے کا سودا سمایا ہوا ہے مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ خالد کو شکوہ ہے کہ ’’ایجوکیشن سیکٹر گورننس ماڈل‘‘ جس طرح کہ اسے ڈیزائن کیا گیا اور جیسی شکل اس نے اختیار کرلی ہے وہ انھیں نہ تو ایسے وسائل اور ذرایع (Tools) فراہم کرتا ہے اور نہ آزادی دیتا ہے کہ وہ طلبا کو کوالٹی ایجوکیشن فراہم کرسکیں۔

جب خالد اس اسکول سے وابستہ ہوئے جہاں وہ آج پرنسپل ہیں، یہ اسکول بڑی خراب حالت میں تھا، اسے فوری طور پر تعمیر و مرمت اور سفیدی، پینٹ وغیرہ کی ضرورت تھی گراؤنڈ کی بری حالت تھی، ٹوائلٹس بھی کام نہیں کر رہے تھے اسکول میں پینے کے پانی کی فراہمی کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا، یہ ابتر حالت ایک شہری علاقے میں واقع اسکول کی تھی۔ مگر خالد نے اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا اور آس پاس کی کمیونٹی کی مدد سے یہ تمام معاملات سدھار لیے۔

اگرچہ ابھی بھی یہاں کافی کام کی ضرورت ہے تاہم اب آپ اس اسکول میں داخل ہوں تو یہ کئی لحاظ سے تعلیمی ادارہ لگتا ہے اور حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ مالی مسائل کے باوجود خالد کے لیے اپنے اسکول کے لیے بنیادی سہولتوں کا بندوبست کرنا سب سے آسان ایشو رہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اسکول کی گورننس کے مسائل رہے ہیں، مثلاً وہ اعلیٰ حکام کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اسکول کو اساتذہ کا مطلوبہ اور منظور شدہ مکمل کوٹہ نہیں دیا گیا ہے۔

انھیں اس بات کے اختیارات بھی نہیں ہیں کہ وہ اساتذہ کی خالی آسامیاں پُر کرواسکیں، مثلاً ان کے پاس ابھی تک لوور کلاسوں کے لیے سائنس آرٹس اور بائیولوجی کے ٹیچرز نہیں ہیں، چنانچہ وہ خود انگریزی زبان کے استاد ہیں مگر اپنے اسکول کی ہائر کلاسز کو آرٹس اور بائیولوجی پڑھا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے پاس اسکول چلانے کی کوئی موثر اتھارٹی نہیں ہے، وہ باقی اساتذہ کی ہمت افزائی یا انھیں ڈسپلن کا پابند بنانے کا اختیار نہیں رکھتے، نہ وہ نصاب کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔

ان کے ڈسپوزل پر کسی بھی قسم کے انسانی ومالی وسائل نہیں ہیں، ان سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اساتذہ کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، مگر ایسے اساتذہ کو معاوضوں کی ادائیگی کا بندوبست خود کرنا ہوگا جب کہ اسکول جس علاقے میں واقع ہے وہاں کی کمیونٹی اتنی مالدار نہیں ہے کہ اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کرسکے۔ اسکول کے قریب کمرشل ایریا ہے جو یکساں سائز کی دکانوں پر مشتمل ہے، مگر وہاں کے دکاندار اپنے بچوں کو زیادہ تر درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھواتے ہیں، اس لیے انھیں اس گورنمنٹ اسکول کی بقا و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ان مسائل کے باوجود انھوں نے اپنی کوششوں سے اسی کمیونٹی کے لوگوں سے اسکول میں قلعی اور پینٹ کروانے، پینے کے پانی کی لائن ڈلوانے، نل لگوانے، غسل خانوں کی مرمت اور بحالی اور گراؤنڈ کی حالت بہتر بنانے جیسے کام کروا چکے ہیں، کیونکہ انھیں احساس ہے کہ اکثر صورتوں میں آس پاس کی کمیونٹی اسکول کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔

اسکول میں پڑھنے والے بچے اگرچہ بالکل ہی غریب نہیں تاہم کمتر آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ایسے بچوں کے والدین سے اسکول کے لیے ڈونیشنز کی توقع کرنا ظاہر ہے ایک نامناسب بات ہوگی۔ اساتذہ کا مسئلہ الگ ہے، ان میں سے بعض تقرری ہوجانے کے باوجود پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے یا پھر پڑھانا نہیں چاہتے۔ خالد پہلے ایسے اساتذہ کا نعم البدل حاصل کرلیا کرتے تھے مگر اب اس سسٹم نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم کم ازکم مخصوص علاقوں میں اتھارٹی کی مرکزیت ختم کرنے کا تجربہ کریں اور خالد جیسے اساتذہ کو جو اس قسم کے جزیرے بنانا چاہتے ہیں مطلوبہ اختیارات اور مالی وسائل فراہم کریں اس کے لیے ہمیں ایک اچھے احتسابی نظام کی ضرورت ہوگی جس کے ذریعے اسکول کی کارکردگی پر نظر رکھی جاسکے۔ اسکول جس علاقے میں واقع ہو وہاں کے پاس پڑوس کی کمیونٹی بھی اسکول کی نگرانی اور اسے چلانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ اپنے علاقے کے اسکول کو بہتر اور معیاری بنانا اس کی بھی ذمے داری ہے۔

بہرحال بات پھر وہیں آجاتی ہے بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کا تقرر میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے ایسے اساتذہ جو بچوں کو معیاری تعلیم دے سکیں۔ اسی طرح ہم مستقبل کے لیے ایک اچھی نسل پیدا کرسکتے ہیں۔ ورنہ معاف کیجیے گورنمنٹ اسکول اسی طرح چپراسی اور کلرک جب کہ پرائیویٹ اسکول اسی طرح حکمراں اور آسودہ حال طبقے، افسران پیدا کرتے رہیں گے اور یہ شیطانی چکر یوں ہی چلتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔