لیاری ایک نظر میں

شبیر احمد ارمان  منگل 21 مارچ 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

جب سے لیاری میں امن و امان کی فضا میں بہتری آئی ہے تب سے لیاری کی معاشرتی زندگی میں پھر سے جان آنی شروع ہوگئی ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ لیاری والے بھی پرامن انسان ہیں، وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح آزاد ماحول میں جینا پسند کرتے ہیں جب کہ کہا یہ گیا تھا کہ لیاری انسانوں کی رہنے کی جگہ نہیں ہے لیکن جونہی بگڑے ہوئے حالات میں بہتری آئی لیاری کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ایک تازگی آئی، اور وہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے کہ لیاری بھی جیتے جاگتے انسانوں کی کثیر آبادی والا انسان دوست علاقہ ہے۔

اچھے اور برے لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں لیکن لیاری کو ایک خاص مدت میں ایسا پیش کیا گیا تھا کہ دنیا کو یقین ہوچلا تھا کہ واقعی لیاری انسانوں کی آبادی نہیں ہے بلکہ یہاں ایسی مخلوق رہتی ہے جسے انسانوں سے نفرت ہے۔ لیاری کو غیر انسانی (ڈی ہیومنائزڈ) ٹاؤن بنا دیا گیا۔ اسی سوچ کی نفی کرنے کے لیے لیاری کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے سماج کی مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا، وہ تعلیمی مصروفیات کے بعد مثبت سماجی سرگرمیوں کی جانب مشغول ہونا شروع ہوئے، اور پچھلے تین برسوں کے دوران نہ صرف علاقائی، شہری، ملکی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ ثابت کیا کہ لیاری کے نوجوان خداداد صلاحتوں سے مالا مال ہیں، لیاری کے ان نوجوانوں نے تعلیمی، سماجی، فن و ثقافت اور اسپورٹس کے میدان میں اپنی حیثیت کو منوایا۔

کل تک جو لوگ لیاری اور اس کے رہائشیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، آج وہ لیاری کے باصلاحیت نوجوانوں کے کارنامے دیکھ کر اش اش کرنے لگے ہیں، انھیں یقین نہیں آرہا کہ یہ نوجوان اسی لیاری کے ہیں جسے چند سال پیشتر علاقہ ممنوعہ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔

2013 میں جب لیاری کے حالات میں بہتری دکھائی دینے لگی تو ایسے میں لیاری کے دیگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طر ح لیاری ہی کے کچھ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں نے جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، لیاری میں فروغ تعلیم اور امن کو استحکام پہنچانے کا خواب دیکھنا نہ صرف شروع کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈریم آف یوتھ سوشل ویلفیئر نامی سماجی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اپنی انتھک شبانہ روز محنت سے اس مقام کو پہنچ گئے جہاں انھوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے۔

لیاری سے باہر بھی ان نوجوانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ ایک روز ان نوجوانوں کے وفد نے مجھ سے رابطہ کیا اور استدعا کی کہ میں ان کی تنظیم کے لیے لیاری کی تاریخ پر مبنی مختصر ڈاکومنٹری لکھوں، تاکہ وہ دنیا والوں کو بتا سکیں کہ لیاری ایسا نہیں تھا جیسا کردیا گیا تھا، لیاری کی اصل شناخت کی بحالی میں مدد مل سکے۔ ان نوجوانوں کو انکار کرنے کا سوال ہی نہیں تھا، سو میں نے حامی بھرلی اور ان کو پانچ منٹ دورانیہ پر مبنی ڈاکومنٹری کا اسکرپٹ لکھ کر دیا، تاکہ یہ نوجوان ہم عمر رسیدہ لوگوں سے مایوس نہ ہوں، ان میں مزید عزم بیدار ہو۔ ان نوجوانوں نے دن رات ایک کرکے لیاری کی تاریخ پر مبنی ڈاکومنٹری بعنوان ’لیاری ایک نظر میں‘ مکمل کی۔

گزشتہ دنوں کراچی کے پوش علاقے کے ایک مقامی ہوٹل میں سماجی ادارہ تقویم پاکستان اور ڈریم آف یوتھ کے باہمی اشتراک سے اس ڈاکومنٹری کی پہلی بار اسکریننگ کی گئی، جسے شرکا نے بے حد سراہا۔ تقریب میں شامل بڑی تعداد میں لوگوں نے اس ڈاکومنٹری کو دیکھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ذہنوں میں لیاری کا جو نقشہ بنایا گیا تھا، اصل میں لیاری ایسا نہیں ہے، اب ہمارے ذہنوں میں ایک مثبت لیاری کا منظر ہے۔ یہی بات ان نوجوانوں کا مقصد ہے کہ لوگوں میں لیاری کے امیج کو بہتر طور پر پیش کیا جائے۔

اس ڈاکومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ 1729 میں کراچی کے ساحل کے قریب آبادی (لیاری) 20 تا 25 جھگیوں پر مشتمل ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی ساحلی بستی تھی، جو کہ ( ماہی کلاچی) نامی عورت کے نام سے منسوب تھا۔ تحقیق کے مطابق 1795 میں تالپوروں نے خان آف قلات سے وا گزار کرکے اسے اپنی وسیع ریاست میں ضم کرلیا تھا۔ تالپوروں کے دور میں (کلاچی) موجودہ نام (کراچی) ایک بڑی تجارتی منڈی بن چکا تھا۔ بستی (لیاری) میں آمدورفت کے لیے دو دروازے تھے، سمندر کے مقابل واقع دروازے کا نام (کھارادر) تھا اور شمال مشرق میں لیاری ندی کی طرف واقع دروازے کا نام (میٹھا در) تھا، جہاں میٹھے اور کھارے پانی کی ندیاں تھیں۔

بھوجل مل نامی تاجر اس بستی کا منتظم تھا۔ 1840 تک شہر کی 14 ہزار آبادی میں سے آدھے ہندو بقیہ آبادی بلوچوں، مہاڑوں، جوکھیوں پر مشتمل تھی۔ 1869 میں شہر کی آبادی 42409 افراد پر مشتمل تھی۔ اس زمانے میں کراچی کے محدود علاقے میں واقع دیگر بستیوں کی نسبت لیاری کی آبادی سب سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر اولڈ ٹاؤن تھا، جہاں 7225 افراد رہتے تھے اور سب سے کم آبادی گذری (موجودہ نام ڈیفنس،کلفٹن، زمزمہ) کے علاقے کی تھی، جہاں صرف 50 افراد مقیم تھے۔ 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق لیاری کی آبادی 607992 ہے، جب کہ غیر سرکاری محتاط اندازے کے مطابق اس کی آبادی 12 لاکھ شمار کی جاتی ہے۔

ساحل سمندر سے قربت کے سبب یہاں مچھلیوں کے کاروبار سے منسلک طبقہ بھی مقیم ہے۔ یہاںاقامت رکھنے والوں کی بھاری اکثریت کا تعلق محنت و مشقت سے ہے، اس کے علاوہ ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا، صحافی، ادیب، شاعر، باکسرز، فٹبالرز، فنکار اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ تاجر و حرفت سے وابستہ افراد بھی لیاری کے رہائشی ہیں۔ بلوچ، مہانڑ اور کچھی یہاں کے قدیمی قبائل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں بولنے والوں نے بھی بودوباش کے لیے اسی علاقے کو پسند کیا اور یہاں رہائش اختیار کرلی۔

تقسیم ہند کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے مہاجرین نے بھی لیاری کا رخ کیا بہار و آگرہ تاج کالونی بسائی، اور یہاں کی آبادی کا حصہ بن گئے۔ یہاں آباد تمام قومتیں آپس میں بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، اس لیے اس علاقے (لیاری) کو پرامن اور منی پاکستان کہا جانے لگا ہے۔ آج کی لیاری میں لیاری کی تاریخ میں پہلی بار گرلز اسکاؤٹ گروپ روز ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے، ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن ساؤتھ کی طرف سے گرلز فٹبال ٹیم اور ڈسٹر کٹ ساؤتھ باکسنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے گرلز باکسنگ ٹیم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جو اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔

اسی طرح لیاری کے تعلیم یافتہ نوجوان کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، کبھی پیس آف لیاری کے نام پر سیمینار کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، کبھی فٹبال، باکسنگ کے ٹورنامنٹ منعقد کرتے رہتے ہیں، کبھی لیاری کی تاریخ کو کتابی صورت دیتے ہیں، کبھی لیاری کی عکس بندی کرتے ہیں، کبھی لیاری کے طلبا و طالبات کے مابین تقریری، مصوری، فوٹوگرافی و نعت گوئی کے مقابلے کراتے رہتے ہیں، کبھی شارٹ فلموں کی نمائش کرتے ہیں، تعلیمی میدان میں اچھے ڈویژن میں پاس ہورہے ہیں، سماجی سطح پر بیرون ممالک کا دورہ کررہے ہیں، وہاں تعلیمی و سماجی تربیت حاصل کرکے لوٹ رہے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ لیاری کے نوجوانوں کی ان سماجی مثبت سرگرمیوں کو حکومت وقت کی کوئی سرپرستی حاصل نہیں ہے، نوجوان یہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔