3 کھرب روپے کا ٹیکس ریونیو تنازعات کی نذر ہونے کا انکشاف

ارشاد انصاری  منگل 21 مارچ 2017
ٹیکس دہندگان اورایف بی آر میں 45 ہزار سے زائد تنازعات‘ تصفیے کے متبادل نظام پر سوالیہ نشان، ترامیم پر زور۔ فوٹو: فائل

ٹیکس دہندگان اورایف بی آر میں 45 ہزار سے زائد تنازعات‘ تصفیے کے متبادل نظام پر سوالیہ نشان، ترامیم پر زور۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے ٹیکس دہندگان کے ساتھ 45 ہزارسے زائد ٹیکس تنازعات کے کیسوں میں مجموعی طور پر 3کھرب روپے کا ریونیو پھنسنے کا انکشاف ہوا ہے جو بجائے خود تصفیے کے متبادل نظام پر سوالیہ نشان ہے، نظام کو سودمند بنانے کے لیے ثالث کمیٹیوں میں پروفیشنلز اور غیرجانبدار ممبرز کو نمائندگی دینے سمیت متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

ایف بی آر کے ممبر لیگل کی سربراہی میں قائم کردہ ذیلی کمیٹی کی جانب سے رپورٹ پیش کردی گئی ہے، یہ ذیلی کمیٹی 2 فروری 2017کو ہونے والے ٹیکس اصلاحات عملدرآمد کمیٹی (ٹی آر آئی سی) کے اجلاس میں قائم کی گئی تھی جسے اس بارے میں رپورٹ تیار کرکے ٹی آرآئی سی کے اجلاس میں پیش کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور اپنے ٹاسک کو پورا کرتے ہوئے ذیلی کمیٹی نے 2 مارچ2017 کو وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر کی زیرصدارت ٹیکس اصلاحات عملدرآمد کمیٹی کے اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کر دی۔

’ایکسپریس‘ کو دستیاب مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے ٹیکس دہندگان کے ساتھ ایپلٹ ٹربیونل ان لینڈ ریونیو (اے ٹی آئی آر) میں27 ہزار ٹیکس تنازعات سے متعلق اپیلوں کے کیس زیرالتوا ہیں جبکہ 5 ہزار کسٹمز ٹربیونل اور 13 ہزار سے زائد کیس مختلف ہائیکورٹس میں ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیاکہ ٹیکس تنازعات کی اپیلوں کے کیسز میں3 کھرب روپے سے زائد کا ریونیو پھنسا ہوا ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ ٹیکس تنازعات حل کرنے کے لیے متعارف کرایا جانے والا آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹیوں (اے ڈی آر سی) کا نظام صرف اس وقت سود مند اور کامیاب ثابت ہوسکتا ہے جب اے ڈی آر سی کا پروسیس تیز ترین، صاف شفاف و منصفانہ ہو اور رازداری کے ساتھ کیسوں کو نمٹایا جائے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کے نظام میں ترامیم کرکے اسے زیادہ موثرو فعال بنایا جائے، فیلڈ فارمشنز میں آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی 3 اراکین پر مشتمل ہونی چاہیے جس میں ٹیکس پروفیشنل، دوسرارکن سول سائٹی کا نمائندہ (اچھی ساکھ کا حامل، تاجر و صنعت کاریا کوئی اور شخص) جبکہ تیسرا ممبر ایف بی آر سے لیا جائے اور یہ ممبر کمشنرز ان لینڈ ریونیو کی سطح کا ہونا چاہیے، کسی بھی ٹیکس تنازع کے حل کے لیے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کا پینل متعلقہ فیلڈ فارمشنز ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کو تجویز کرے اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اے ڈی آر سی کو منظوری کے لیے ترجیح دے، فیلڈ فارمشنز کی درخواست پر10دن کے اندر ایف بی آر کی منظوری سے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولشن کمیٹی کا قیام عمل میں آنا چاہیے، اے ڈی آر سی کو بھی 90 روز کے اندر ٹیکس تنازع کا فیصلہ دینے کا پابند بنایا جائے، مقررہ مدت میں فیصلہ نہ آنے پر کمیٹی کو فوری تحلیل کرکے 5روز میں نئی اے ڈی آر سی قائم کردی جائے جسے60 دن کے اندر فیصلے کا پابند بنایا جائے، کمیٹی فیصلہ کرکے رپورٹ فوری ایف بی آر کو بھجوائے، ایف بی آر کو بھی اس رپورٹ اور فیصلے پر اپنا آرڈر 5دن کے اندر پاس کرنے کا پابند بنایا جائے جبکہ آرڈر نہ آنے پر ایف بی آر تاخیر اور اے ڈی آر سی کی سفارشات منظور نہ کرنے کی تفصیلی وجہ تحریری طور پر بیان کرنے کا پابند ہو۔

کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ ایف بی آر اور ٹیکس دہندہ کو اے ڈی آر سی کے اکثریتی ممبران کی حمایت کی بنیاد پر منظور سفارشات کو تسلیم کرنے کا پابند بنایا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی سفارشات کا جائزہ لے کر جلد اہم فیصلے کیے جائیں گے جنہیں بجٹ کا حصہ بنائے جانے کا بھی امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔