پانی کے مسائل؛ حکومت کو ترجیحات بدلنا ہوں گی

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  منگل 21 مارچ 2017
کرہ ارض پر زندگی، صنعت، زراعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کرہ ارض پر زندگی، صنعت، زراعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

پانی کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ کرہ ارض پر زندگی، صنعت، زراعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان آبی وسائل سے مالا مال ہے مگر دوسری طرف تشویشناک بات یہ ہے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں زیر زمین آبی ذخائر میں کمی آرہی ہے اور اس حوالے سے ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں۔پاکستان پانچ دریاؤں اور ایک سمندر کی حامل سرزمین ہے مگر اس کے باوجود پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ہمارے ملک میں اس بحران کی ایک وجہ تو حکومتی ناقص پالیسیاں ہیں جبکہ دوسری وجہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے جو شروع دن سے ہی اس پاک سرزمین کو بنجر کرنے کا خواہاں ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین تیسری عالمی جنگ کو پانی کی جنگ قرار دے رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو انتہائی خطرناک قرار دیا جارہا ہے، بھارت کشمیر میں بھی ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو پاکستان کو کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔

زیر زمین آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے پہلی مرتبہ 1992ء میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کی گئی اور اس سلسلے میں ایک عالمی دن منانے کی تجویز دی گئی جس کے بعد 22مارچ 1993ء کو پانی کے حوالے سے پہلا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کا مقصد پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ پانی کے عالمی دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور آبی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سید ہارون سلطان بخاری (وزیر برائے اربن ڈویلپمنٹ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ)

پانی اور ہوا کے بغیر کرہ ارض پر زندگی کا تصور محال ہے۔ پانی ایک ایسا قدرتی سیال ہے جس کی بدولت جسم کے ان گنت نظام کام کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ پانی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ پاکستان کی حکومت لوگوں کے اس بنیادی حقوق کا خصوصی طور پر تحفظ کررہی ہے اور انہیں پانی کی فراہمی کے حوالے سے ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہر شخص کو 1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے پانی کے نئے ذخائر بھی بنائے جارہے ہیں تاکہ پانی کی کمی سے بچا جاسکے۔لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔

پنجاب حکومت صوبے میں ہزاروں فلٹریشن پلانٹس لگا رہی ہے۔ اس حوالے سے عالمی بینک و دیگر کمپنیوں کے ماہرین کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا یا جا رہا ہے ۔ مفاد عامہ کے اس منصوبے کا براہ راست تعلق انسانی صحت سے ہے، اس لیے اس پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بوسیدہ پائپ لائنوں کی مرمت بھی کی جارہی ہے اور جہاں نئی پائپ لائنوں کی ضرورت ہے وہاں بھی کام ہورہا ہے۔

لاہور شہر میں قومی اسمبلی کے ہر حلقے کیلئے 50کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس وقت صوبے کی 37 تحصیلوں میں ہنگامی سطح پر کام جاری ہے جبکہ فیصل آباد میں ساڑھے 12 ارب روپے لاگت سے منصوبہ شروع کیا جارہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صاف پانی کی فراہمی پر وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ ہے۔خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کی 6 تحصیلوں سے صاف پانی پروگرام کا آغاز کیا ہے جو عنقریب 31 تحصیلوں تک پھیلایا جائے گا۔

حکومت کبھی بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں رہی، پانی کے حوالے سے جاری منصوبوں کا مقصد عوام کو صحت کے اصولوں کے عین مطابق پانی فراہم کرنا ہے۔ دیہی واٹر سپلائی سکیموں کی بحالی کا جامع پلان بھی بنایا گیا ہے جس پر تیزی سے عملدرآمد ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی بھی بہت ضروری تھی۔ جنوبی پنجاب میں میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہی بھی دی گئی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب نے عوام کو پانی کے حوالے سے بیدار کردیا ہے لہٰذا اب معاملات میں بہتری آئے گی ۔صنعتی علاقوں میں پانی ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے اور اس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے۔

انڈسٹری مالکان سے میری گزارش ہے کہ کیمیکل شدہ پانی ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے بغیر نالے میں نہ پھینکیں اسی میں سب کا فائدہ ہے کیونکہ سب نے اسی ماحول میں سانس لینا ہے۔ میں پانی کے عالمی دن کے موقع پر لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پانی ایک نعمت ہے اسے ضائع نہ کریں۔

سائرہ افتخار (رکن پنجاب اسمبلی و رہنماپاکستان مسلم لیگ (ن))

کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انسان صاف پانی خرید کر پیئے گا مگر اب گندگی کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں جب تک بوتل کا پانی نہ پئیں تسلی نہیں ہوتی۔ پانی کے عالمی دن کا مقصد لوگوں میں پانی کے استعمال کے حوالے سے شعور پیدا کرنا اور اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے ۔ 1992ء میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پہلی مرتبہ پانی کاعالمی دن منانے کی تجویز دی گئی جس کے بعد 22مارچ 1993ء کو دنیا میں پانی کے حوالے سے پہلا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کا مقصد پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

ہمارے ملک میں فصلوں کو پانی کی فراہمی کا نظام ٹھیک نہیں ہے جبکہ کمیونٹی کی سطح پر بھی پانی کے پائپ پھٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا ہے، اگر آبپاشی کے نظام کو ٹھیک کرلیا جائے تو پانی کو ضائع ہونے سے بچا یاجاسکتا ہے۔ صنعتوں کا پانی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ اس کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، بعض کمپنیاں اس پر عمل بھی کرتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیوں نہیں ہورہا؟

لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گندے پانی کی وجہ سے انسان اور جانور دونوں بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور قیمتی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے بھی ہم ابھی بہت پیچھے ہیں ان پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں 66 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو پانی تک رسائی نہیں ہے جس میں پاکستان کے لوگ بھی شامل ہیں۔ پنجاب میں 89 فیصد لوگ ٹیوب ویل اور بور کا پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ سیوریج کے مسائل کی وجہ سے یہ پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔

پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہر سال 10لاکھ 90 ہزار لوگوں کی اموات ہوتی ہیں جن میں 45ہزار پاکستانی بچے بھی شامل ہیں۔ پنجاب حکومت کا مشن ہے کہ 2020ء تک جن لوگوں کو پانی تک رسائی نہیں ہے انہیں پانی فراہم کیا جائے، صوبے بھر میں فلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں، سکولوں میں فلٹر لگائے جائیں ، پانی کو صاف کرنے کیلئے کلورینیشن کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پانی کو ٹیسٹ کرنے کا صحیح طریقہ کار بھی بنایا جائے تاکہ پانی کے مسائل بہتر طور پر حل کیے جاسکیں۔ لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اور حکومت اس حوالے سے اقدامات کررہی ہے۔

پانی کے حوالے سے جتنے بھی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں یا ابھی تک جو چل رہے ہیں ان کی مینٹیننس اور ریگولیشن کے حوالے سے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سال بجٹ میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے خصوصی طور پر بجٹ مختص کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے صاف پانی کمپنی و اس طرح کے دیگر منصوبوں کا مقصد لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی اور انہیں بیماریوں سے بچانا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا ویژن ہے کہ غذائیت پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ بیماریوں کی وجہ سے ہر سال جی ڈی پی کا 4فیصد ضائع ہوجاتا ہے۔ پانی کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے، اس کے لیے اراکین اسمبلی، سول سوسائٹی، میڈیا غرض کے ہر شخص کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کو  چاہیے کہ پانی کے مسائل پر آواز اٹھائے اور لوگوں کو اس حوالے سے احساس ذمہ داری دلایا جائے تاکہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

سعدیہ سہیل رانا (رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

پانی کا مسئلہ پوری دنیا کو درپیش ہے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ، بارشوں اور ہر سال سیلاب کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ زیادہ تر دریا بھارت سے آتے ہیں اور وہ ہمارا پانی بند کررہا ہے جو افسوسناک ہے۔ سیلاب نعمت مانے جاتے ہیں کیونکہ ان سے زمین بھی سیراب ہوتی ہے اور پانی بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے لیکن ہمیں ناقص منصوبہ بندی اور انتظامات کی وجہ سے سیلاب سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اگر اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا نظام بنا لیا جائے تو ہمیں فائدہ ہوسکتا ہے مگر افسوس ہے کہ حکومت نے پانی کو ذخیرہ کرنے کا نظام بنایا اور نہ ہی ڈیم بنائے جس کی وجہ سے یہ سارا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔

پینے کا صاف پانی لوگوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے لیکن بدقسمتی سے پانی و سیوریج کے مسائل حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اربوں روپے سے اورنج لائن ٹرین تو بنائی جارہی ہے لیکن سیوریج کے نظام کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے حالانکہ اس ٹرین سے کم رقم میں پورے پنجاب کا سیوریج کا نظام بہتر کیا جاسکتا ہے۔

ہمارا المیہ ہے کہ ہم بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر نمود و نمائش پر پیسہ ضائع کررہے ہیں۔لاہور جیسے ترقی یافتہ شہر میں سیوریج کے غلط نظام کی وجہ سے پانی آلودہ ہورہا ہے، شاہ جمال کے اردگرد کالونیوں میں لوگ گندہ اور بدبو دار پانی پینے پر مجبور ہیں جو افسوسناک ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں کا پانی بغیر پروسیسنگ کے فصلوں کو دیا جا رہا ہے، جانور بھی یہی پانی پی رہے ہیں جس کی وجہ سے سبزیاں اور گوشت کھانے والے افرادبیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ صاف ماحول اور صاف فضا ہماری ترجیحات نہیں اور یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہیپاٹائٹس، کینسر و دیگر بیماریوں میں اضافہ آلودہ پانی اور آلودہ ماحول کی وجہ سے ہو رہاہے۔

ہم یہ رونا روتے ہیں کے ہمارے پاس ہسپتالوں کی تعداد کم ہے حالانکہ اگر بیماریوں کی وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہورہی ہے لیکن اس پر کوئی کام نہیں ہورہا، اگر یہی صورتحال رہی تو پانی کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور آئندہ 20 سالوں میں ہم پانی کی قلت کا شکار ہوسکتے ہیںلہٰذا حکومت کو نہ صرف وفاقی و صوبائی سطح پر بلکہ بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار کرکے ضلعی سطح پر بھی پانی کے نئے ذخائر بنانے چاہئیں۔ ہم نے اسمبلی کے فورم پر پانی، سیوریج اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر آواز اٹھائی ہے اور حکومت پر دباؤ بھی ڈالا ہے کہ ان مسائل کے حل کیلئے کام کیا جائے۔

میرے نزدیک جنگی بنیادوں پر پانی کے مسائل کے حل کیلئے کام کیا جائے اور تمام جماعتیں مل کر متفقہ قرارداد لائیں اور مشترکہ پالیسی بھی بنائی جائے ۔ پانی کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے مہم بھی چلائی جائے اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ دین اسلام نے پانی ضائع کرنے کو گناہ قرار دیا ہے لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کو پانی کی اہمیت اور اس کے استعمال کی ترغیب دیں تاکہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ انفراسٹرکچر و کالونیاں بناتے وقت سیوریج کے نظام کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔

آج سے بیس سال قبل جس جگہ پر 10گھر تھے آج وہاں سینکڑوں گھر ہیں لیکن سیوریج کا نظام وہی پرانا ہے ۔دنیا میں مقامی سطح پر عوامی مسائل حل کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں لوکل باڈیز ہیں جن کے پاس اس طرح کے اختیارات نہیں ہیں۔ سیوریج و پانی جیسے بنیادی مسائل کے حل کیلئے لوکل باڈیز کے نظام کو مضبوط بنایا جائے اور اداروں کو خود مختار کیا جائے۔

خیبر پختونخوا میں ضلعی سطح پر پانی و بجلی کے حوالے سے کام کیا جارہا ہے، بند باندھے جارہے ہیں اور پھر اس پانی سے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی یونین کونسل کی سطح پر کام کیا جائے، ایک یونین کونسل کو ماڈل یونین کونسل بنایا جائے اور پھر دیہی و شہری علاقوں کی تفریق کے بغیر سب کے مسائل حل کیے جائیں۔

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں اور ابھی تک کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اب ہمیں ان کے حصول کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ہم اقوام عالم میں بھی عزت سے رہ سکیں اور اپنے لوگوں کو بھی سہولیات دے سکیں۔

ہمارا المیہ ہے کہ ہم اسمبلیوں میں تقاریر کی حد تک بہت اچھے ہیں لیکن عملی طور پر معاملات ویسے نظر نہیں آتے، پانی ہمارا نمبر ’’ون‘‘ مسئلہ ہے، اگر لوگوں کو پانی میسر نہیں ہوگا تو وہ صرف سڑکوں اور انفراسٹرکچر پر زندگی نہیں گزار سکتے۔ پانی کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے چاہئیں اور اس کے سیاسی ول اور ترجیحات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

صدیق احمد خان (آبی ماہر)

پانی کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر سطح پر اور ہر حوالے سے پانی کا صحیح استعمال ہو، چاہے وہ زراعت کا شعبہ ہو یا انڈسٹری اور خصوصاََ پینے کے پانی کے حوالے سے لوگوں میں شعورو آگاہی پیدا کی جائے ۔ حکومت پاکستان اور مختلف سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 91 فیصد لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے اور حکومت یہ چاہتی ہے کہ ویژن 2025ء کے تحت یہ شرح 100فیصد ہوجائے۔ ٹارگٹ رکھنے تک تو بات ٹھیک ہے لیکن جب بنیادی طور پر اس چیز کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کافی مایوس کن اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔

پاکستان کونسل فار واٹر ریسورسز کی ریسرچ کے مطابق لوگوں کو مہیا کیا جانے والا 80فیصد سے زائد پانی پینے کے قابل نہیں ہے اور صورتحال تو یہ ہے کہ بوتل میں دستیاب پانی بھی صاف نہیں ہے۔ دوردراز علاقوں میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہر سال 39ہزار بچوں کی اموات گندا پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ان کا شکار زیادہ تر غریب لوگ ہوتے ہیں۔

ہر سال 30لاکھ لوگ گنداپانی پینے سے لاحق ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہسپتال جاتے ہیں، ان میں ٹائیفائڈ، اسہال، پولیو، ڈائیریا وغیرہ شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے جی ڈی پی کا 4فیصد سالانہ ضائع ہورہا ہے لہٰذا اگر پانی کا مسئلہ حل ہوجائے تو اس رقم کو بچایا جاسکتا ہے۔ جن علاقوں میں صاف پانی میسر ہے وہاں پانی ضائع کیا جاتا ہے اور لوگ بے فکری سے پانی استعمال کرتے ہیں لہٰذا لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر بھی بنانے چاہئیں ۔

پانی کے حوالے سے ریورس اوسموسز یا جو بھی منصوبے لگائے جارہے ہیں، ان کی ٹیکنیکل فزیبلیٹی، مینٹی ننس و دیگر عوامل کے بارے میں خصوصی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اس طرف عدم توجہی کی وجہ سے منصوبوں کے درست نتائج نہیں مل رہے۔ سندھ میں تھرپارکر، پنجاب میں چولستان، خیبر پختونخوا میں ڈیرہ غازی خان و دیگر علاقوں میں پینے کا پانی موجود نہیں ہے، لوگ دور دراز علاقوں سے پانی لینے جاتے ہیں، وہاں بے شمار بیماریاں ہیں، غذائیت کے مسائل بھی ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

2010ء میں پانی کو لوگوں کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا اور ہم نے اس پر دستخط کیے ہیں لہٰذا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے۔ ہمارے مسائل زیادہ ہیں اور ان کے لیے فنڈز بھی زیادہ درکار ہیں لہٰذا حکومت کو اس پر بھر پور وسائل استعمال کرنے چاہئیں اور عالمی معیار کے مطابق حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ مسائل حل ہوسکیں۔

میرے نزدیک گورننس کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے، صرف مفادات کی بنیاد پر ایسی جگہ جہاں منصوبے کی ضرورت نہیں ہے، وسائل نہ لگائے جائیں بلکہ انڈیکیٹرز دیکھے جائیں اور متاثرہ علاقوں میں پہلے کام کیا جائے ۔ فیکٹریوں اور پینے کے پانی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔