اسلام بھی واپس آرہا ہے

ڈاکٹر یونس حسنی  بدھ 22 مارچ 2017

کچھ دن پہلے اخبارات اور ٹیلی ویژن پرایک ساتھ ایک شاعر اور دانشور کے اغوا کی خبریں آئیں۔ ہمارے ملک میں ہر اس شخص کو دانشورکہہ دیا جاتا ہے جو اعتدال ومیانہ روی سے عاری ہو۔ فکری آزادی کے نام سے ہرآوارہ خیالی کا حامل ہو۔ چنانچہ یہ صاحب بھی دانشور مشہور ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تنہا نہیں ان کے گروپ کے تین اورافراد بھی لاپتہ ہیں۔

ظاہر ہے یہ لاپتہ ہوجانے یا کردیے جانے کا عمل کسی کو بھی گوارا نہیں ہوتا، اس لیے ملک کے ایوانوں اور حکمرانوں کے دائرہ اختیار میں کھلبلی مچ گئی۔چند روز بعد یہ سب لوگ بخیروعافیت اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔وہ کہاں چلے گئے تھے ان کوکون لے گیا تھا وہ کیسے واپس آئے اس کی تفصیلات سے میڈیا کو بھی دلچسپی نہیں تھی۔ بعد میں ان حضرات کے لیے دانشورکے بجائے بلاگرزکا لفظ استعمال ہونے لگا۔

اردو الحمد اللہ اچھی خاصی ترقی یافتہ زبان ہے اورہرقسم کے مافی الضمیرکی وضاحت کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر کسی ایک اخبار نے یا کسی چینل نے زحمت نہ کی کہ بلاگرکا اردو متبادل تلاش کرلیتا اور بعد میں معلوم ہوا کہ کیوں کرتا اس طرح تو قلعی کھلتی ہے۔ہماری انگریزی واجبی سی ہے لیکن ہم نے کوشش کرکے نکالا کہ یہ بلاگرز لغوگو، بد زبان، ہذیان لسانی کے مریض وغیرہ قسم کی چیز ہوتی ہے تو خیرہوا کرے، مگر معلوم ہوا کہ یہ لوگ مختلف فرضی اور ’’بیہودہ‘‘ ناموں سے اپنے صفحے کھولے ہوئے ہیں اورسوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔

کچھ دن بعد بعض غیر مند حضرات نے سوشل میڈیا کے بعض صفحات پر اسلام، داعی اسلامؐ اور صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخانہ مساعی کا بھی پتہ چلا لیا اور اگرچہ انھیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ صفحات کس کے ہیں کیونکہ نام فرضی ہیں اور بے نشان ہیں پھر بھی ایک غیور وکیل سلمان شاہ نے سینئر وکیل اسد طارق ایڈووکیٹ کے ذریعے 27 فروری کو ان گستاخانہ پیجزکو فوری بلاک کرنے اور مستقلاً ممنوع قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں ان صفحات کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست دی۔

ہمارے دوست ڈاکٹر معین الدین عقیل ہمیں ایک ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ انسان سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم جدید سائنسی نعمتوں سے متمع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور لیپ ٹاپ وغیرہ کے استعمال سے نابلد ہونے کی وجہ سے ’’بے خبری‘‘ کا شکار ہیں۔مگر اس مقدمے میں مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس ان کا رویہ اوران کے عزائم کو دیکھ کر ہم اپنی بے خبری پراللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ہمیں وہ صفحات نکالنا نہیں آتے اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری آنکھیں ان بے ہودگیوں کو دیکھنے سے محفوظ رہیں۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

اسد طارق ایڈووکیٹ نے اپنی عرضداشت کے ساتھ ان غلا ظتیں کے چند نمونے بھی لگائے تھے چنانچہ فاضل جج نے حکم دیا کہ یہ صفحات فی الفور بند کیے جائیں۔ ان کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بندش کو یقینی بنایا جائے اورذمے داروں اور ان کی سرگرمیوں پر خاموش رہنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور 7 مارچ کو سیکریٹری داخلہ، وفاقی سیکریٹری آئی ٹی، چیئرمین پی ٹی اے، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو عدالت میں حاضر ہوکر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔مگر ہوا یہ کہ چیئرمین پی ٹی اے کے علاوہ کوئی سرکاری افسر عدالت میں پیش نہ ہوا۔

عدالت نے چند گھنٹے کے لیے سماعت ملتوی کی اور دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی اسلام آباد تشریف لے آئے تھے۔ سیکریٹری صاحبان ’’اپنی انتہائی اہم میٹنگوں‘‘ کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ یہ مسئلہ کتنا اہم تھا اور یہ میٹیگنیں کتنی اہم تھیں اس سلسلے میں ہم بھلا کیا کہہ سکتے ہیں فاضل جج کے ریمارکس سن لیجیے۔مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ’’جب سے میں نے یہ مواد دیکھا ہے خدا کی قسم میں سو نہیں سکا، مگرکسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے ہی رویے کی وجہ سے ممتاز قادری پیدا ہوتے ہیں جب قانون پر عمل نہیں ہوتا تو لوگ قانون کو خود نافذ کردیتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو ویلنٹائن ڈے یاد رہتا ہے۔

انسانی حقوق نظرآنے لگتے ہیں اور جب قانون پر عمل نہیں ہوتا اورکوئی گستاخ مارا جاتا ہے تو پھر مرنے والے کی یاد میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔‘‘ رسول اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کی گئی اور آپ لوگ خاموش رہے۔ آخرت میں کس منہ سے اسی رحمت مجسمؐ سے شفاعت طلب کروگے۔ فاضل جج نے کہا اگر یہ صفحے بند نہ کیے جاسکیں تو میں پورے سوشل میڈیا کو بند کرنے کی ہدایت کروں گا۔

فاضل جج نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ گستاخ رسولؐ ’’مباح الدم‘‘ ہے۔ جو کچھ ان صفحات میں موجود ہے وہ اگر عوام کے علم میں آجائے تو وہ حشر برپا کردیں گے اور امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ میں بحیثیت مسلمان اس معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں مجھے نہ اپنے عہدے کی پرواہ ہے نہ اہل وعیال کی میں گستاخان رسول کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لوں گا۔فاضل جج کے نزدیک اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے اور سارے مسائل ضمنی وذیلی ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جس جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کیا ہے اب وہ پاکستان میں خال خال نظر آتا ہے، مگر اللہ چاہتا ہے جس سے جو کام لے لیتا ہے۔کئی سال سے پاکستان بین الاقوامی کرکٹ سے محروم رہا۔ دہشتگردی اور بدامنی نے ہمیں اس لائق نہیں رکھا کہ ہم غیرملکیوں کو اپنی سرزمین پر تحفظ کی ضمانت دے سکیں، مگر بھلا ہو کرکٹ کے ارباب حل وعقد کا کہ انھوں نے پورے ملک کوکرکٹ کے بخار میں مبتلا کر دیا اور ایسی فضا بنائی کہ پوری قوم کرکٹ کے ہسٹریا میں مبتلا ہوگئی۔

کہیں کہیں سے کچھ اختلافی آوازیں بھی اٹھیں، مگر جہاں دیدہ منتظمین کے پیدا کردہ شور و غوغا میں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئیں اور نعرے لگ گئے کہ بین الاقوامی کرکٹ ملک میں آ نہیں رہی ہے آگئی ہے۔کرکٹ سے بہت پہلے ہمارے ملک سے ایک اور چیز بھی چلی گئی تھی اور وہ تھا اسلام۔جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ جس اسلام کے لیے لوگوں نے اپنے جان، مال، عزت آبروکو قربان کیا اوراس کے نفاذ کی امید پر اپنا ماضی اور مستقبل سب کچھ تیاگ کر یہاں بیٹھ رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، اس اسلام کو دیس نکالا دے دیا گیا۔

اب اسلام سے انحراف کا نام روشن خیالی رکھ دیا گیا، ساری غیر اسلامی لغویات کوکلچر کے نقاب میں ڈھانپ دیا گیا۔ اب کسی نے اسلام کا نام لیا اور آپ نے اسے مولوی قرار دے دیا۔اب اللہ کا شکر ہے کہ عدلیہ میں بھی مولوی پیدا ہوگئے ہیں، ہمارے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ تو اربوں کے اخراجات سے واپس آگئی ہے۔ اب اسلام کو واپس لانے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔امید کی یہ کرن مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ہونٹوں سے برآمد ہوئی ہے اور توقع کرنا چاہیے کہ یہ بڑھتے بڑھتے اسلام کی صبح نو بن کر چمکے۔ پہلا پتھر توکسی کو پھینکنا تھا، اگر کرکٹ واپس آسکتی ہے تو اسلام بھی واپس آسکتا ہے۔ مایوسی کی تو کوئی بات ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔