بھلا کیا قومی ہیرو بھی بدلے جاسکتے ہیں؟

عامر بھٹی  بدھ 22 مارچ 2017
ہمارے ہاں اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ’فوجی ہیروز‘ کو بدل دینا چاہیے اور اُن کی جگہ دوسرے ہیرو سجائے جائیں جیسا کہ مغرب کے ’’پُرامن اور ترقی یافتہ ممالک‘‘ میں ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے ہاں اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ’فوجی ہیروز‘ کو بدل دینا چاہیے اور اُن کی جگہ دوسرے ہیرو سجائے جائیں جیسا کہ مغرب کے ’’پُرامن اور ترقی یافتہ ممالک‘‘ میں ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کے ممالک کی دفاعی اخراجات کے حوالے سے ایک فہرست تیار کی جائے تو پہلے 15 ممالک میں امریکہ تقریباً​ پونے چھ سو ارب ڈالر کے قریب سالانہ خرچ کرکے سرِ فہرست نظر آتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں چین، برطانیہ، روس، فرانس، بھارت، جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، اٹلی اور کینیڈا شامل ہیں۔

امریکہ کی دفاعی صنعت اُس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ مالیت کا دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے والا ملک بھی امریکہ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی صنعت اور دفاعی صنعت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ سب سے بہتر و اعلیٰ کوالٹی ٹیکنالوجی سب سے پہلے دفاعی ساز و سامان میں استعمال ہوتی ہے اور بعد میں سول عوام کے لئے دستیاب ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اور جوہری توانائی اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ دونوں چیزیں پہلے فوج کی ضروریات کے پیشِ نظر قابلِ استعمال ہوئیں اور بعد میں عوام کے لئے۔ انٹرنیٹ آج ہر کسی کی پہنچ میں ہے اور جوہری بجلی گھر ایٹم بم بنانے بلکہ استعمال کے بعد تعمیر کئے گئے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں فوجی ہونے کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگانا مشکل نہیں کہ اُس کے 44 صدور میں سے 25 سے زیادہ سابقہ فوجی رہ چکے ہیں۔ یعنی فوج میں نوکری کرنا کسی بھی صدارتی امیدوار کے لئے امریکہ میں ایک مثبت پہلو رہا ہے۔ اِن صدور میں دوسری جنگِ عظیم کے سپہ سالار ہیرو آئزن ہاور اور امریکی انقلابی جنگ کے سپہ سالار صدر واشنگٹن شامل ہیں۔ اِسی طرح سابقہ ہیرو امریکی جنرل دوسرے اہم عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں جیسا کہ وزیر خارجہ کولن پاول خلیجی جنگ کے دوران مشترکہ امریکی افواج کے سربراہ رہ چکے تھے۔ اِس کے علاوہ امریکہ میں جگہ جگہ جنگی یادگاریں اور عجائب گھر فوجی جنگ و جدل، لڑائی اور متعلقہ ہیروز کی یاد گیری کرتے ہیں۔ یہ سیر و سیاحت کے حوالے سے کافی مصروف جگہیں ہوتی ہیں۔

اب ذرا ذکر یورپ کا۔ اگر کسی کا برطانیہ جانا ہوا ہو تو لارڈ نیلسن سے متعارف ہوئے بغیر دنیا کے اِس طاقتور ملک کی سیر ممکن نہیں۔ ٹرے فالگر اسکوائر سے گزر ہو تو نیلسن کالم آپ کا منتظر ہوگا اور اسکاٹ لینڈ میں نیلسن کی یادگار کا دیدار ہوگا۔ اِس کے علاوہ برمنگھم، لیورپول اور پورٹس ماؤتھ جیسے شہروں میں لارڈ صاحب کے مجسمے اور یادگاریں آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گی۔

اسی طرح پیرس میں نپولین کو گھوڑے پر سوار پائیں گے۔ اِس کا مقبرہ دعوتِ​ شوق دے گا اور درجن بھر کے قریب دیگر فوجی یادگاریں آپ کی جنگجو حس کو ابھاریں گی۔ اِس میں آرک آف ٹرائی اومف (Arc de Triomphe) کافی مشہور ہے۔ جبکہ سکندر اعظم یورپ کا ہیرو ہے، سپاڑٹا کی فوج کی بہادری اور مہارت کے قصوں کا رعب الگ ہے اور Achilles کی ایڑی تو اب ضرب المثل ہے۔

ہمارے ہاں آج کل کچھ حلقوں کی جانب سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمیں اپنے ’فوجی ہیروز‘ کو بدل دینا چاہیے اور اُن کی جگہ دوسرے ہیرو سجائے جائیں جیسا کہ مغرب کے ’’پُرامن اور ترقی یافتہ ممالک‘‘ میں ہوتا ہے۔ اُن کی رائے میں ہمارے بچوں کی پائلٹ اور فوجی بننے کی خواہش تشدد کو جنم دے رہی ہے اور اُن کا یہ ثابت کرنے پر زور ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنگجو کردار ہی بطور ہیرو قابلِ ستائش ہیں۔ اِس ضمن میں بطور تقابل کچھ اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں کہ جن کے مطابق برطانیہ میں بچوں کی اولین ترجیح استاد، کھلاڑی، آرٹسٹ، ڈاکٹر اور آرکیٹیکٹ وغیرہ بننا ہے جبکہ بچے فوجی بننا پسند نہیں کرتے۔

تو عرض یہ ہے کہ ہمارا مغرب سے نہ صرف اعداد و شمار کا ایسا تقابل درست نہیں بلکہ اُس کے استعمال سے جو نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بھی تحقیقی بنیادوں پر منطقی نہیں۔ مثال کے طور پر کیا ہماری شرح خواندگی کا برطانیہ سے کوئی مقابلہ ہوسکتا ہے؟ مغربی ممالک میں تعلیم کے بجٹ کا کوئی تقابل ہمارے پیارے پاکستان سے ممکن ہے کہ جس میں ہمیں شرمندگی نہ ہو؟ کیا ہمارے ملک میں کوئی مستند اعداد و شمار کے ساتھ کوئی تحقیق ہوئی ہے جو یہ ثابت کرے کہ ہمارے بچے ڈاکٹر، انجینئر اور کھلاڑی نہیں بننا چاہتے؟ کیا فوجی بننے کی خواہش میں مرد و زن کی کوئی تفریق بھی سامنے ہے؟ کیا ہماری لڑکیوں کے لیے پیشے کی اولین خواہش ٹیچر اور ڈاکٹر بننا نہیں ہے؟ اگر لڑکوں اور لڑکیوں کے پیشہ ورانہ انتخاب کو یکجا کرکے دیکھا جائے تب کون سے شعبے ٹاپ پر ہوں گے؟ معاشیات اور تنخواہ کا پہلو، پیشے کے انتخاب یا خواہش پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟ کسی پیشے کی خواہش اور حقیقت میں اُسے اختیار کرنے کا دار و مدار بہت سارے عوامل پر ہوتا ہے اور عمر کے ساتھ بھی اِس میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔

علاوہ ازیں 2005ء کا گیلپ سروے یہ بتاتا ہے کہ 13 سے 17 سال کے امریکی لڑکوں کی پیشہ کے حوالے سے ترجیحات بالترتیب یہ ہیں: کھیل سے متعلقہ 8 فیصد، ڈاکٹر 7 فیصد، معمار، انجینئر اور استاد 6 فیصد جبکہ فوج میں جانے، وکالت اختیار کرنے اور بزنس کرنے کا تناسب برابر یعنی 5 فیصد ہے۔ چنانچہ امریکی لڑکوں کی فوجی​ بننے کی خواہش چوتھے نمبر پر ہے۔ اِسی سروے میں استاد بننے کی خواہش میں تغیر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ استاد بننا ایک وقت میں امریکی لڑکوں کی ٹاپ 10 پسند نہیں تھا حالانکہ فوج میں بھرتی ہونا ہمیشہ رہا ہے۔

جناب! وارث شاہ کے نام کوئی سڑک نہ بھی ہو تو اُس کی ’ہیر‘ محبت جگائے گی، بلھے شاہ کا مجسمہ نہیں بھی ہو تو اُس کی ’هو‘ کی گونج ہر سو ہوگی، بھٹائی کو لوگوں کو inspire کرنے کے لئے کسی یادگار کی حاجت نہیں، نصرت کا خمیر بھی اِس مٹی سے تھا، میڈم نور جہاں اِسی دھرتی کی بیٹی تھی، جہانگیر خان پاکستانی تھا، ایدھی اِسی قوم کا فخر ہے، شرمین عبید چنائے یہیں سے ہے اور ملالہ کا نام اِسی قوم کی شان ہے۔ یہ ہمارے ہیرو ہیں۔ کیا اِن کو بھی بدل دیں؟

ارے اِس قوم نے کھلاڑی کو حکومت کے خواب دکھلائے، صنعتکار کو وزارتِ عظمیٰ تھمائی اور عورت سے حکمرانی کروائی۔ کیوں اتنے مجبور ہو؟ غیر سے مرعوب ہو؟ خرابیاں بھی ہیں کمزوریاں بھی، پر یہ قوم سخت جان ہے۔ صبر سے ایمان سے، آگے بڑھتے جائیں گے اپنی پہچان سے۔

جس دن منٹگمری، مک آرتھر، پے ٹن، سیزر، نپولین، سکندر اور نیلسن جیسوں کو بطور ہیرو تبدیل کردیا جائے گا تب ہم بھی ٹیپو سلطان اور رائے احمد خاں کھرل کو ہیرو ماننے سے انکاری ہوجائیں گے اور نئے ہیرو تراشنے کی کوشش کرلیں گے۔

نہیں! لیکن نہیں! جو اپنی سب سے قیمتی شے قوم پر وار دے، خون سے مٹی سینچ  دے اور دشمن کے آگے مجسم ڈٹ جائے وہ ہیرو بدلے نہیں جاتے اُن کے مقابل ریت سے تراشیدہ بت کھڑے نہیں ہوسکتے۔

ہیروز کی تعداد اور اُن سے وابستہ شعبہ جات بڑھائیے ضرور بڑھائیے مگر پہلے سے موجود ہیروز کی قیمت پر نہیں۔

کیا آپ بھی اِس بات کے حامی ہیں کہ قومی ہیرو تبدیل نہیں ہونے چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
عامر بھٹی

عامر بھٹی

بلاگر پیشے کے اعتبار سے ایک الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔ برطانیہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پڑھنے سے رغبت اور لکھنے کا شوق ہے۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔ @AmirBhatti_PK

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔