23مارچ:چند دلچسپ حقائق

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 23 مارچ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اب ایک بار پھر تئیس مارچ یعنی یومِ پاکستان کا دن منایا جا رہا ہے۔ ایک عظیم الشان اور عظیم المرتبت دن کی یاد۔ وہ دن جب 67سال قبل اسلامیانِ ہند نے حضرت قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں، 23مارچ1940ء کو، لاہور کے منٹو پارک میں تاریخی ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ منظور کی۔ ابتدا میں اسے ’’قرار دادِ لاہور‘‘ کے عنوان سے موسوم کیا گیا تھا۔ متعصب ہندو پریس مگر بطور طنز جب اسے ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگا تو مسلمانانِ ہند نے بھی کہا کہ ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی!تئیس مارچ ہی دراصل وہ دن ہے جب مسلمانانِ متحدہ ہندوستان نے واضح طور پر حاکم انگریزوں کی غلامی اور عیار ہندوؤں کی بالادستی سے انکار کرتے ہُوئے اپنا ایک علیحدہ وطن بنانے کا اعلان کیا۔ اُس تاریخی دن شک ، ابہام اور اشتباہ کے سارے بادل چھٹ گئے تھے اور پاکستان حاصل کرنے کا تصور نکھر کر سامنے آگیا تھا۔

یہ بھی 23مارچ ہی کا یومِ سعید تھا جب پاکستان بننے کے 9سال بعد وطنِ عزیز کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ پچھلے چھ عشروں سے زائدعرصے سے ہم سب پاکستانی 23مارچ کی عظمت کے گیت گاتے چلے آ رہے ہیں۔ راولپنڈی کے عسکری شہر میں افواجِ پاکستان اِس دن کو شاندار اسلوب میں سیلوٹ پیش کرنے کے لیے خصوصی پریڈ کا اہتمام کرتی ہیں جسے ملک بھر میں ، ٹی وی کی خصوصی نشریات کے توسط سے، محبت و عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتاہے۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، نے اعلان کیا ہے کہ اِس بار، 23مارچ 2017ء کو،چینی فوج کا ایک خصوصی دستہ اور ترک ملٹری بینڈ بھی یوم ِپاکستان کی فوجی پریڈ میں شامل ہوگا۔پاکستان اور ترکی کے درمیان روز بروز جو معاشی، عسکری اور برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے، تئیس مارچ کے حوالے سے تازہ ترین فیصلہ اِسی کا ایک اور خوبصورت مظہر ہے۔

چند دن پہلے ہی راقم نے پاکستان کے معروف سیاستدان اور فوجی افسر سردار شوکت حیات خان کی خود نوشت سوانح حیاتThe Nation That Lost its Soul  دوبارہ ختم کی ہے۔ 23مارچ ،تحریکِ پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں یہ کتاب کئی انوکھے انکشافات کرتی ہے۔ ’’ گُم گشتہ قوم‘‘ کے زیر عنوان اردو زبان میں بھی اِس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ سردار صاحب متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم( سرسکندر حیات خان )کے صاحبزادے ،قائداعظم علیہ رحمہ کے ساتھی اور تحریکِ پاکستان کے مجاہد تھے۔وزیر بھی بنے۔ ستّر کے عشرے میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل بھی رہے۔

مرتے دَم تک پاکستان اور قائداعظم کی محبت کا دَم بھرتے رہے۔ آخری عمر میں اُنہیں ایک معروف اور مقتدر سیاستدان کی طرف سے دکھ اُٹھانا پڑا۔23مارچ اور ’’قرار دادِ پاکستان‘‘کے حوالے سے سردار شوکت حیات خان، جن کا تعلق واہ گارڈن سے تھا، نے اپنی کتاب میں تین جگہ اہم واقعات کا ذکر کیا ہے۔اِن کا ذکر از بس ضروری ہے۔لکھتے ہیں:’’ مسلم لیگ کے(لاہور میں) 23مارچ 1940ء کے اجلاس سے قبل علامہ(عنائیت اللہ) مشرقی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ خاکساروں کی پریڈ کھلی جگہ کے بجائے پسِ دیوار کرائیں کہ جنگ کا زمانہ بھی تھا۔ مشرقی صاحب مان گئے تھے۔

پریڈ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے لیکن جاتے وقت وہ اپنی پارٹی کو اس معاہدے کے بارے میں کچھ بھی بتا کر نہ گئے ؛ چنانچہ خاکساروں نے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے 23مارچ 1940ء کے اجلاسِ قرار دادِ لاہور سے چند روز پہلے لاہور کی سڑکوں پر پریڈ کا مظاہرہ کیا۔مظاہرہ روکنے پرلاہور کے ایس پی مسٹر گینز فورڈ اور اُس کے ڈپٹی کو (خاکساروں نے) بیلچے مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ردِ عمل میں اُس نے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔وہ خود خون میں لَت پَت سر سکندر کے پاس سیکریٹریٹ آیا۔ خاکساروں کی تمام پریڈوں پر پابندی لگا دی گئی۔ خاکساروں نے بدلہ لینے اور سنگین نتائج کے اعلانات کیے اور یہ بھی کہا کہ وہ سر سکندر حیات خان کو قتل کر دیں گے اور ساتھ ہی اُنہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس میں گڑ بڑ پیدا کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے۔ 23مارچ 1940ء سے قبل لاہور میں عوامی جذبات انتہا پر تھے۔

اِسی بنا پر میرے والد صاحب،جو قرار دادِ لاہور کے مصنف تھے،خود قرار داد پیش نہ کر سکے۔ اُن کی جگہ مولوی فضل الحق (شیرِ بنگال) نے یہ قرار داد پیش کی تاکہ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔بعد میں حکومتِ ہند نے خاکسارتحریک پر پابندی لگا دی ۔ خاکساروں کو اس کا بڑا رنج تھا۔ اُنہوں نے قائداعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا لیکن قائد کی شاندار حاضر دماغی اور جرات نے قاتل (رفیق صابر مزنگوی)کو اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا۔‘‘ (صفحہ 131 ( قائد اعظم پر قاتلانہ حملے کی پاداش میں رفیق صابر مزنگوی کو پانچ سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

’’گم گشتہ قوم‘‘ کے مصنف جناب شوکت حیات خان مرحوم 23مارچ اور ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:’’نوابزادہ لیاقت علی خان مسلم لیگ کے آنریری سیکریٹری تھے۔ وہ اُس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں شامل تھے جو اوائلِ فروری 1940ء میں منعقد ہُوا تھا۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ نے واضح طور پر مطالبہ کیا تھا کہ دو خود مختار ریاستیں ،ایک ہندوستان کے شمال مغرب میں اور دوسری شمال مشرق میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، قائم کی جائیں ۔یہ ریاستیں ایک فیڈریشن کے تحت کام کریں گی۔

اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جو سر سکندر حیات خان، ملک برکت علی اور چوہدری خلیق الزمان پر مشتمل تھی۔اس کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ قرارداد کا ڈرافٹ تیار کرے جو 22اور 23مارچ1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں پیش کی جائے گی۔سر سکندر حیات خان نے میر مقبول محمود کی اعانت سے یہ ڈرافٹ تیار کیا جو ’’لاہور ریزولیوشن‘‘ کہلاتا ہے۔ اسے بعد میں ’’پاکستان ریزولیوشن‘‘ (قرار دادِ پاکستان) کا نام دیا گیا۔ اِ س نام کی زیادہ تشہیر غیر مسلم پریس نے کی۔‘‘(صفحہ228) مجھے ایک سوال کے جواب میں تحریکِ پاکستان اور حیاتِ قائداعظم کے عاشق جناب منیر احمد منیر نے بتایا کہ 23 مارچ کی قرار داد ِ پاکستان کی منظوری سے دو دن پہلے قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو آپ ممدوٹ وِلّا میں ٹھہرے تھے۔ میزبان نے اپنے معزز اور قیمتی مہمان کے لیے انار کلی بازار کی سب سے بڑی دکان سے کراکری کا نیا اور انتہائی بیش قیمت سامان خریدا تھا۔

سردار شوکت حیات خان پاکستان بنانے والوں کی صفِ اوّل میں شامل اور حضر ت قائداعظم علیہ رحمہ پر جان نچھاور کرنے والوں میں سے ایک تھے۔وہ 23مارچ اور ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کے بارے میں اپنی خود نوشت سوانح حیات میں مزید رقمطراز ہیں:’’یہ بات ذہن میں واضح ہو جانی چاہیے کہ بانیِ پاکستان (قائد اعظم)نے ’’قرار دادِ لاہور‘‘کے فوری بعد امریکن پریس کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایسی حکومت نہیں ہوگی جس کی پہچان مذہبی ہو اور نہ ہی ہم خالص مذہبی حکومت پر یقین رکھتے ہیں۔یہ بات 1940ء میں کہی گئی جب دیوبند کے کئی علما پاکستان کی مخالفت میں کانگریس کی رہنمائی کر رہے تھے۔

ایسے بھی مگر بہت سے علماء حضرات تھے جنہوں نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان بنانے میں شاندار کردار ادا کیا۔ مثلاً: شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد،مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا شبیر احمد عثمانی، پیر صاحب آف تونسہ شریف، پیر قمرالدین سیالوی، پیر صاحب آف گولڑہ شریف، پیر صاحب آف جلال پور شریف جو راجہ غضنفر علی کے قریبی رشتہ دار تھے، پیر جماعت علی شاہ، پیر مانکی شریف، پیر صاحب آف زکوڑی۔‘‘(صفحہ 283) واقعہ یہ ہے کہ سردار شوکت حیات خان کی متذکرہ کتاب 23مارچ اور تشکیلِ پاکستان کے اصل مقاصد کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔