23 مارچ

جاوید قاضی  بدھ 22 مارچ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بڑے سالوں کے بعد بالآخر قراردادِ پاکستان کا دن عوام اسی شد و مد، شان وشوکت، جوش وخروش، ہمت و یقین سے منا رہے ہیں۔ وہ ڈرجو ہم میں پیوست ہوا تھا، سیکیورٹی خدشات کے باعث ممکن ہے وہ ڈروہ وقت کی ڈگر میں شکست خوردہ ہوا۔ ہم اس ڈر سے آگے نکل گئے پاکستان جب بنا تو نہرو وآزاد کہتے تھے’’چاردن بھی نہیں چلے گا‘‘ہاں! سترکا سانحہ سکوت ِ ڈھاکہ ہم پر زخموں کی طرح عیاں ہے۔

ہم تاریخ کو مسخ بھی نہیں کرنا چاہتے اورکربھی نہیں سکتے اوراگر کریں گے تو گْمراہ ہوں گے، ہم بھٹک جائیں گے۔ تاریخ صرف فتوحات وکامیابیوں کی داستان نہیں ہوتی۔اس میں ہمارے اچھے بْرے سب باب ہوتے ہیں۔ان کے اوراق کھولنے سے کْھلتی ہے ہماری حقیقت۔ اور حقیقت سے ملنا چاہیے دیدہ وری و دلیری کے ساتھ اورجب سے ہم نے حقیقت سے ملنا شروع کیا ہے تو 23 مارچ لوٹ آیا ہے۔ خوشیوں کے ڈھول باجے سنانے۔ ہماری آیندہ کی نسلیں یہ سب مناظردیکھیں گی جوآج کے دن کے نام سے ہم نے وقف کی ہیں۔

دوسری طرف چلے چلتے ہیں، کیسے بنا تھا پاکستان؟ کون تھے وہ لیڈران؟ کون سے وہ تضاد تھے کیسے ممکن بنا پاکستان؟ بٹوارہ کیا تھا؟ خاردار تاریں، لکیریں، دیواریں، سرحدیں، جنگیں، مقبوضہ و آزاد کشمیرکی اصطلاحیں، سرد جنگ کا پس منظر، دوسری جنگ ِعظیم، برطانوی سامراج کا کمزور ہونا۔ وہ ہندوستان جو اکبر ِاعظم سے پہلے اتنی بڑی سلطنت نہ تھا۔ انگریزکے آنے سے پہلے پھر واپس پنجاب آزاد ہوا، سندھ وبنگال آزاد ہوا، بلوچستان و خیبر پختونخوا بھی ایک طرح سے آزاد تھے۔انگریز سامراج نے پھر سے اْن کو ہندوستان میں شامل کیا۔

رنجیت سنگھ، سندھ کے تالپور وغیرہ ہا ر گئے اور جب انگریزکے جانے کے دن آئے تو اِنھیں ریاستوں نے اور اس وقت اِن ریاستوں سے سیاسی قیادت نے ایک الگ وطن کا خاکہ پیش کیا۔ اِن ساری ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ بِالخصوص یوپی، دہلی اور باقی ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے علیحدہ وطن کی بات کی۔ مجموعی طور پر پورے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ اب یوں کہیے کہ ایک سکے کے دو رخ تھے۔ آزاد وطن کی بنیاد یہ تھی کہ ہمیں اکثریت یعنی ہندو اپنے ماتحت رکھیں، ہم کو برابر کا شہری تصور نہیں کریں گے۔ عائشہ جلال کہتی ہیں 23 مارچ 1940ء قرار دادِ پاکستان ایک آزاد وطن کا خاکہ نہیں تھا وہ تو ایک حکمت ِ عملی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں برابرکے حقوق لینے کی اور ایک ایسا آئین وضع کرنے کی جہاں مسلمان اور ہندو اقتدارِ اعلیٰ میں برابرکی حیثیت رکھیں اور اگر نہ رکھیں تو تم بھی خوش، ہم بھی خوش، تمہارا ہندوستان تمہیں مْبارک اورمیرا پاکستان مْجھے مْبارک۔

میں نے کہا نا کہ میں تاریخ کا اصولی شاگرد ہوں، میری ٹریننگ وکیل کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ میں شواہدات کو ٹٹول کردیکھتا ہوں۔

وہ لوگ جوکہتے ہیں پاکستان ایک غلطی تھی تو، مْجھ کو بتلائے کوئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی، کس طرح فاشزم ان کی رگوں میں اب دوڑتا ہے۔اْتر پردیش کا وزیراعلیٰ اب کون بنا ہے۔جانتے ہو کون ہے؟ اس بار ہندوستان میں ریاستی انتخابات میں ہندوانتہا پرستی آسمانوں سے باتیں کررہی ہے خْدا خیرکرے۔ ہندوستان میں کچی بستیوں میں رہتے ہیں مسلمان۔

وہ سیکیولر ہندوستان کے متقاضی ہیں اور اس کی جہد میں باقی سیکیولر ہندوکے ساتھ اتحادی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ فاشزم جہاں بھی ہو اْسے شکست ہوگی۔

ہم تاریخی اعتبار سے برِصغیر کا وہ حصہ ہیں جہاں حملہ آور بہت آئے۔اکثر فاتح ان میںسے سینٹرل ایشیاء سے آئے فقط محمد بن قاسم ہی تھے جو مختلف گزرگاہ سے سندھ میں آئے، باقی بمع سکندرِ اعظم یا ہزاروں سال پہلے آریاء گروہ در گروہ درہ خیبر نہیں تو پہاڑوں سے اْترکرآئے۔ ہر راہ جو دِلی کو جاتی تھی ہم سے گزرکرجاتی تھی۔ انگریزکے زمانے میںایک طویل سانت رہی۔اب اس زمین نے اپنی گوندھی ہوئی رواداری سے فارسی سے رْومی آئے، رْومی سے بنے بھٹائی، بلھے شاہ، باہو، فرید ،خوشحال خاں خٹک بھی اِسی سلسلے کا حصہ ہیں۔ صوفی تحریک ہو یا بھگتی تحریک ہو یہ لوگوں سے جْڑی ہوئی تھیں۔ یہ لوگوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں۔ وہ اپنے عہد میں انسانی حقوق کا چارٹر تھیںاور جب دنیا ایک ہوئی وہ کڑی دنیا میں انسانی حقوق کے متوالوں سے جْڑگئی۔

23 مارچ کی کوکھ سے چودہ اگست پیدا ہوئی۔ ہم چونکہ پسماندہ تھے ہندو اور بنیے کے سامنے بہت پسماندہ، اس لیے کہ ہم مسلمانوں نے انگریز سامراج سے محاذ اٹکایا تھا ۔1857ء مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ تھی، ہم پر بہت عتاب آئے۔ ہندو قوم پرستی نے مسلمان دشمنی سے جنم لیا۔ انگریزکے سوسالہ اقتدار میں وہ پروان چڑھے۔ ہم مسلمانوں نے پانچ سو برس جو دِلی پر جو راج کیا تھا وہ اْس کا بدلہ چکانے لگے تھے، بہرکیف مسلم لیگ،کانگریس کی طرح مضبوط و منظم پارٹی نہیں تھی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی مضبوط مڈل کلاس جو نہیں تھی، اس لیے کہ وہ راجاؤں اور نوابوں کی پارٹی تھی، پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ تھی کہ جناح چل بسے اور ساتھ جناح کے اس کی گیارہ ستمبر والی تقریر بھی چل بسی۔

مبہم سا بن گیا پاکستان، کوئی اِسے ادِھرکھینچے،کوئی اْسے اْدھرکھینچے۔ ہندوستان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ نہرو آزادی کے بعد لگ بھگ سولہ سال جیے، اْنھوں نے سیکولر ہندوستان کی وہ راہیں متعین کیں کہ بھلے کتنے ہی مودی آجائیں ہندوستان کے پاس آزاد عدلیہ ہے۔ وہ اپنے آئین کی حفاظت اور تشریح کرنا خوب جانتی ہے اور یہاں ہم کوئی آئین ہی نہ دے سکے۔1956ء میں آئین دیا تو ون یونٹ والا پاکستان دیا،ایک ایسی پارلیمنٹ دی جوکہ پاکستان میں موجود ریاستوں کی حقیقت کو نہیں جانتی، یعنی اس میں سینیٹ نہیں تھی۔آمر آیا 1962ء کا آئین دیا وہ آئین کے تقاضوں کو پورا کرتا تھا یا نہیں مگر اس نے بھی سینیٹ نہیں دیا۔ہوا کیا 1970ء میں پاکستان ایک دوراہے پر آ کھڑا ہو گیا۔ ہوتی اگر مسلم لیگ مضبوط، راجاؤں ونوابوں کی پارٹی نہ ہوتی اس کی جڑیں یہاں کے لوگوں میں ہوتیں۔ نہ جناح اتنی جلدی وفات پاتے تو 1970ء کے اْس دوراہے پر ہم نہ پہنچتے، نہ آمر پیدا ہوتا نہ ون یونٹ والا پاکستان بنتا۔

23 مارچ کے تاریخی متن کو ذرا پڑھیے کہ پاکستان مسلمان ِ ہند نے بنایا تھا۔ یہ تصویرکا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے تسلسل میں بنا تھا۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جس طرح اس کا متن کہتا ہے کہ یہ پاکستان سندھ، پنجاب، سرحد، بنگال وغیرہ کی ریاستوں نے بنایا تھا۔

اب ایک طرف پنجاب یونیورسٹی میں ثقافتی رقص بھی کْفر ٹھہرا، دھمال بھی کْفر، بْلھے شاہ، بھٹائی، فرید اورخوشحال خان خٹک بھی مسترد۔ طرح طرح کی فتوے ہیں۔ ایسی فتووں کو لوگوں نے بارہا رد کیا۔ جب کہ ہندوستان میں انتہا پرستی کو Ballot Box پر جیت ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ایسی کسی مخصوص سوچ وگروہ کا پاکستان نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔