جہیز کا قانون

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 22 مارچ 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

صوبہ خیبر پختون خوا اسمبلی میں بل پیش کیا گیا ہے کہ شادی پر جہیز ۵۷ ہزار سے زائد نہیں ہوگا، نکاح کی تقریب میں مشروب کی اور ولیمے میں ون ڈش کی پابندی ہو گی۔ جہیز پر مجبور کرنے پر تین لاکھ تک جرمانہ اور دو ماہ قید بھی ہو سکی گی وغیرہ۔

اس بل کو پیش کرنے والوں کی نیک نیتی پر یقینا شک نہیں کیا جا سکتا، ہمارے دین اور موجودہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ شادی کو اس قدر مہنگے معیار پر نہ لے جایا جائے کہ بالغ لڑکے لڑکیاں گھروں میں بیٹھیں رہیں، لیکن یہاں قابل غور سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے قانون سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اور بنیادی سوال یہ کہ آخر مسئلہ اس قدر بڑھا کیوں کہ ہمیں قانون بنانا پڑا؟

پہلے سوال کا جواب تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں قانون کی کوئی وقت نہیں، قانون توڑنے والے قانون توڑتے ہیں، شادی کی تقریبات رات کو جلد ختم کرنے کا قانون اس وقت بھی موجود ہے لیکن قانون توڑنے والے سب کے سامنے رات دیر تک تقریب کرتے ہیں، پولیس والے بھی مک مکا کرلیتے ہیں، اور کم تعداد کو ہی اس قسم کے قانون کا فائدہ ہوتا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب مادہ پرست ہوتے جارہے ہیں، دکھاوا، ہوس، حسد اورمعیار زندگی کو بڑھانے کی دھن ہمارے سر پہ سوار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ

(۱) بڑھتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ۔

(۲) مذہب سے دوری۔

(۳) باکردار رول ماڈل کی کمی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ نے بالکل درست بات کہی تھی کہ صنعتی انقلاب درحقیقت صارف انقلاب (کنزیومر ریولیشن) تھا جس میں مشینوں کے ذریعے بڑی تعداد میں اشیاء تیارہوئیں اور پھر مارکیٹنگ، اشتہارات اور میڈیا کے ذریعے ان کو فروخت کرکے خریداروں کی تعداد بڑھائی گئی جس سے سرمایہ دارں نے خوب منافع کمایا۔ اس عمل میں اشتہارات میں غیراخلاقی طور پر وہ نفسیاتی طریقے بھی استعمال کیے گئے کہ جس سے لوگ متاثرہوکر ہر وہ شئے خریدنے لگے کہ جو ان کی ضرورت کبھی بھی نہ تھی۔

ان سرمایہ داروں نے میڈیا اوراشتہارات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا کہ ان کی اشیاء خرید کر اپنا معیار زندگی بلند کرنا زندگی کی کامیابی ہے اور دنیاوی عزت بھی اسی میں ہے۔ دوسری طرف لوگوں کی مذہب پر گرفت کمزور ہونے اور مذہب مخالف نظریات کی بھر مار کے باعث لوگ اپنے اس اخلاقی کردار سے دور ہوتے چلے گئے جو انھیں مذہب اور معاشرتی اقدار سکھاتی ہیں۔ یعنی نفس مطمعینہ ختم ہوتا چلا گیا ۔

جس سے حسد، لالچ اور ہوس بڑھتی چلی گئی۔ اس تناظر میں ’لگژری لائف یا بلند معیار زندگی لوگوں کا پسندیدہ بنتا چلا گیا حالانکہ ہماری معاشرتی اقداراور مذہب میں سادہ زندگی گزارنا ایک اچھا عمل تصورکیا جاتا تھا۔ یوں اب شادی بیاہ جیسی بڑی تقریب ہو یا گھر میں کوئی چھوٹی سی تقریب ہو یا پھر ہماری زندگی کے روز مرہ کے معمولات ہوں سب جگہ ہم اپنی جیب کی گنجائش سے زائد خرچ کر کے پھولے نہیں سماتے، دس پندرہ ہزار ماہانہ کمانے والا بھی جب دولہا بنتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ چالیس لاکھ کی گاڑی میں برات لے کر جائے، غریب سے غریب لڑکی کی بھی خواہش اورکوشش ہوتی ہے کہ وہ شہر کے مہنگے سے مہنگے بیوٹی پارلر سے تیار ہو خواہ اس کی اپنی شادی ہو یا اس کی سہیلی کی۔ ظاہر ہے کہ جب خواہشات کا یہ عالم ہو تو شادی کے اخراجات کے حوالے سے بنائے گئے قانون پر صرف وہ ہی عمل کرے گا جس کی جیب بھاری اخراجات کی اجازت نہ دے اور نہ ہی اسے ادھار مل سکے۔ جو لوگ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ اس قانون کو مک مکا کرکے توڑ دیں گے۔

اس ساری صورتحال کوکیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے رول ماڈل ہی اس صورتحال کو بدل سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رول ماڈل خواہ ان کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو یا مذہبی طبقہ یا عام زندگی کے صاحب حیثیت طبقے سے ہو،اکثریت خود سادگی کی زندگی کو خیرباد کہہ چکی ہے، جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اس سے کہی زیادہ دکھاوا کر رہا ہے، ہماری شادی کی تقریبات پہلے بالکل سادہ ہوتی تھیں، دن میں نکاح ہوتا تھا، کھانے میں عموماً صرف دو ڈش ہوتیں تھیں،گلی میں ٹینٹ لگا کر تقریب سادگی کے ساتھ ختم ہو جا تی تھی،کوئی بیوٹی پارلر نہیں تھا، گھر میں سوائے سرخی پاؤڈر اورکاجل یا سرمہ کے اور کچھ نہ ہوتا تھا۔ ہمارے دین میں بھی سادگی کو ترجیح دی گئی ہے، حضرت عائشہ کا شادی کا جوڑا دوسری خواتین اپنی شادی پر پہننے کے لیے مانگ کر لے جاتی تھیں، آپ ﷺ پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے بعض سربراہ مملکت ہوتے ہوئے بھی صرف ایک جوڑا کپڑا رکھتے تھے۔

نہایت معذرت کے ساتھ آج ہماری مذہبی تقریبات بھی مادیت کا شکار ہو چکی ہیں جہاں سادگی کے بجائے فضول خرچی اوردکھاوا نمایاں ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مذہبی معاملات میں بھی اس طرح مادہ پرستی اور دکھاوا ہو گا اور اس میں ہمارے رول ماڈل شریک بھی ہونگے یا خاموش تماشائی بنے گے تو پھر عوام کا کیا بنے گا؟ یہی حال کچھ ہمارے جمہوریت کے اور قوم کی رہنمائی کرنے والے سیاسی لوگوں کا ہے۔ جس قسم کا وہ کلچر اپناتے ہیں، جس قدر شاہانہ تقریبات کرتے ہیں۔کیا ایسے رول ماڈل کی موجودگی میں عوام سادگی اپنائیں گے؟

بات یہ ہے کہ ہمیں عوام کو ایک ایسی سوچ دینی ہو گی جو سادگی پر مبنی ہو اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنما حقیقی طور پر سادگی اپنائیں صرف زبان سے تلقین اور نصیحت نہ کریں۔ وعظ میں اس وقت اثر ہو سکتا ہے کہ جب کردار میں بھی اس کی جھلک ہو۔ بات یہ ہے کہ جب اشتہارات صبح وشام سہانے خواب دکھائیں اور ہمارے رہنما بھی خود سادگی سے کوسوں دورنظرآئیں تو پھر عوام کے ذہن کوکیسے سادگی کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے؟ جب عوام فلموں، ڈراموں میں شادی کے مناظر میں لاکھوں کروڑوں کے اخراجات ہوتے دیکھیں اور میڈیا بھی اس کو بہتر قرار دے نیز پھر عام زندگی میں بھی ایسی ہی شادیاں نظرآئیں اور ہمارے رہنما بھی شوق سے شرکت کرتے نظر آئیں تو بھلا عوام کس کے نقش قدم پر چلیں گے؟

اس وقت صرف شادی بیاہ کے اخراجات کا مسئلہ ہی نہیں، اصل مسئلہ اس سوچ کا ہے کہ جس کے تحت آج دس بارہ ہزارکمانے والا بھی اور ایک لاکھ سے زائد کمانے والا بھی شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ گزارا نہیں ہوتا اور وہ مزید کمانے کے لیے تگ ودو میں پریشان رہتا ہے اور ہر جائزوناجائز حربے استعمال کرتا ہے کیونکہ وہ ایسے بلندمعیار زندگی کے خواب میں مبتلا ہوجاتا ہے جوکبھی بھی پورا نہیں ہوتا، یہی وہ خواب ہے جس میں شادی کے لیے ایک خوبصورت ماڈل گرلز کی طرح دلہن اورڈھیر سارا جہیز ہی ہوتا ہے خواہ خواب دیکھنے والے کے گھر میں بغیر جہیز ایک بہن شادی کی منتظر ہو۔

بات مختصر یہ ہے کہ ہمیں اس معاشرے میں نفس مطمعینہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایسے رول ماڈل رہنماؤں کی ضرورت ہے کہ جو صرف شادی ہی نہیں زندگی کے ہر معاملے میں سادگی اپنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔