قاتل، مجرم اور بھتہ خور جیت گئے ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 24 مارچ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا سلسلہ اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ یہ انتخابات اُتر پردیش، گوا،منی پور، اُترکھنڈ اور مشرقی پنجاب میں ہُوئے ہیں۔ ویسے تو کئی بھارتی سیاسی جماعتوں نے اِن میں حصہ لیا ہے لیکن اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور بھوجن سماج پارٹی نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’بھوجن سماج پارٹی‘‘ کو توقعات کے بالکل برعکس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مایا وتی ایسی دھانسو سیاستدان کو شکست کے بعد کامل چُپ لگ گئی ہے۔ مودی کی پارٹی بی جے پی اور کانگریس ہی فاتح بن کر سامنے آئی ہیں۔

مشرقی پنجاب میں کانگریس(کیپٹن امریندر سنگھ کی شکل میں) اور اُتر پردیش میں بی جے پی ، کسی دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر،حکومتیں بنا چکی ہیں۔ بی جے پی تین مزید ریاستوں(اُترکھنڈ،منی پور اور گوا) میں بھی اپنی حکومتیں بناچکی ہے لیکن اُس کا یہ اقدام دراصل ہارس ٹریڈنگ اور سودے بازی کی نئی بد ترین مثال بنا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ’’راجھستان‘‘ اور آبادی کے اعتبار سے ’’اُترپردیش‘‘ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اُترپردیش کی ریاستی اسمبلی کی کُل نشستیں 403ہیںاور بی جے پی نے 312نشستوں پر فتح حاصل کی ہے۔ 47سیٹوں سے بڑھ کر 312سیٹیں جیتنا کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے؛چنانچہ مودی جی چھاتی کیوں نہ بجائیں؟

آخر ہُوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیشگوئیاں کرنے والے سارے بھارتی اور عالمی تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟اِس کا ایک جواب یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے دانستہ اور ایک خاص الیکشن سٹریٹجی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ اِنہی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروئے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔

یہ محض تعصب اور تہمت نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہُوئے نشاندہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی اسٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی، مختار انصاری، وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کاری ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ اُن میں سے بیشتر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔ بی جے پی کے پلیٹ فارم سے بھاری ووٹ لے کر ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیںجو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنہیں خصوصی پیرول پر رہا کیا گیا تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن لڑا ہے اور کامیاب ہُوا ہے۔ اُس پر تو اپنی بیوی کو بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

ترپاٹھی ’’صاحب‘‘ نے اپنے سیاسی حریف، کوشل کشور سنگھ، کو 32ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ترپاٹھی کے ماں باپ، امرمانی ترپاٹھی اور مدھمانی، بھی اس وقت جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اُن پرالزام ہے کہ اُنہوں نے اُترپردیش کی معروف شاعرہ، مدھومیتا شکلا، کو قتل کر دیا تھا۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیا نے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔وہ سابقہ دور میں صوبائی وزیر بھی رہ چکا ہے۔مختار انصاری گذشتہ بارہ سال سے قتل کے الزام میں لکھنو ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہے۔ اُس نے بھی جیل ہی سے الیکشن میں حصہ لیا ہے اور بھرپور اندازمیں جیتا ہے۔

مختار پر الزام ہے کہ اُس نے 2005ء میں ایک رکن اسمبلی، کرشنند رائے، کو قتل کر دیا تھا۔مختار پانچویں بار رکن اسمبلی بنا ہے۔’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کہلانے والے بھارت کی ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ، کو پندرہ ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہر بڑے شہر میں ہیں، بھی مہندر سنگھ کو ہرا کر ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن ، سنجو دیوی، نے چارسال پہلے اپنے شوہر، رام بابو گپتا، کو ایک گھریلو جھگڑے میں ہلاک کر ڈالا تھا۔ یہ محترمہ بھی تازہ انتخابات میں جیت گئی ہیں اور اُس نے بی جے پی کی مخصوص ’’شہرت‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔بی جے پی کی ایک اور مشہور سیاسی کارکن نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہے۔ اُس نے سماج پارٹی کے رکن، رام سیوک سنگھ، کو بیس ہزار ووٹوں سے ہرایا ہے۔

نیلم کرواریا کا شوہر، اودھے بھن کرواریا، بھی بی جے پی کا رکن ہے اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بھی لیکن آجکل وہ مظفر پور ڈسٹرکٹ جیل میں لمبی قید کاٹ رہا ہے۔بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے ہیں تو اُن کی دھرم پتنیوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیش واڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں لیکن اُن کی جگہ اُنکی بیویوں نے الیکشن لڑا ہے۔ مثلاً: سنجیو مہیشواڑی کی بیوی پائل، پریم سنگھ کی بیوی سیما سنگھ اور یادیو کی دھرم پتنی املیش یادیو نے دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا۔

اُتر پردیش میں بی جے پی کے اتنے بھاری مینڈٹ سے جیتنے کا ایک سبب ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بتایا ہے:’’ بی جے پی نے دولتمند اور طاقتور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تازہ یو پی کے انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں 80فیصد کروڑ پتی ہیں۔‘‘اُتر پردیش میں بی جے پی کے بننے والے نئے وزیر اعلیٰ(یوگی ادیتیاناتھ)پر بھی کئی قتل اور اقدامِ قتل کے سنگین الزامات ہیں۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ ملزمان اور جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مہذب دنیا میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے! حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی میڈیا نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ بھاری کامیابی کو ’’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر ‘‘ قرار دے ڈالا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔