ہمت اور حوصلے کی تازہ مثال، ذوالفقار!

نبیل ابڑو  جمعـء 24 مارچ 2017
موجودہ دور میں جہاں ہٹے کٹے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود صرف اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔

موجودہ دور میں جہاں ہٹے کٹے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود صرف اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔

لوگ مجھے دیکھ کر معذور کہتے تو ہیں لیکن میں معذور نہیں ہوں، ہاں! یہ بات ٹھیک ہے کہ میری ایک ٹانگ اور ایک بازو کام نہیں کرتے لیکن میں خود کو معذور نہیں سمجھتا، میں اِس حال میں بالکل ٹھیک ہوں، نہ میں اتنا اچھا ہوں اور نہ ہی میں اتنا بُرا۔ بلکہ میں خود کو اُن دو ہاتھ اور دو ٹانگوں والے، اَن پڑھ اور جاہل لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو ہر سہولت ہونے کے باوجود پڑھ نہیں پاتے، یہ بات سخت ہوسکتی ہے لیکن میں اُن تمام لوگوں کی سوچ کو معذور سمجھتا ہوں جو مجھے معذور سمجھتے ہیں۔‘‘

موجودہ دور میں جہاں ہٹے کٹے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود صرف اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ذوالفقار رند بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔

ذوالفقار رند ضلع شکارپور کے ایک جنگل نما گاﺅں مینگل بلوچ میں پیدا ہوئے، پیدائشی طور پر معذور اِس نوجوان نے کبھی اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا اور اپنی محنت سے اِس دنیا میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ ذوالفقار اِس وقت پاکستان کے نامور تعلیمی ادارے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور (این سی اے) میں فائن آرٹس کے تیسرے سال کے طالبعلم ہیں، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود ذوالفقار آرٹ کی دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

لاہور میں این سی اے کے ہاسٹل کے باہر جب ذوالفقار میرے سامنے آیا تو بالکل دبلا پتلا نوجوان، دائیں جانب ناتواں بازو اور باہنی ٹانگ بھی سکڑی ہوئی، لیکن آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا عزم چھلک رہا تھا۔ یہ میرے لئے کافی حیرانی کی بات تھی کہ ایک معذور انسان پینٹنگ کیسے کرتا ہوگا؟ لیکن اُس کا کام دیکھ کر ہاتھ چومنے کا دل کر رہا تھا۔

ذوالفقار کے والد ایک کسان ہیں اور اُن کے گھر میں ہمیشہ غربت کے سائے منڈلاتے رہے ہیں۔ اِس غربت ہی کی وجہ سے ذوالفقار کو اُس کے والد 5 برس کی عمر میں مدرسے چھوڑ آئے تھے۔ مدرسے کے معلم نے کچھ دن اُسے پڑھانے کے بعد کہا کہ تم ایک ٹانگ اور ہاتھ سے  معذور ہو، پڑھ لکھ کر کیا کروگے؟ معذور لفظ جیسے ذوالفقار کو چُبھ سا گیا۔ بس پھر اُس نے ارادہ کرلیا کہ اب کچھ بننا ہے، کچھ نہ کچھ مختلف کرنا ہے، ذوالفقار نے مدرسہ چھوڑ دیا اور ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا۔

گاﺅں میں اسکول نہ ہونے کے باعث وہ روز 3 کلومیٹر پیدل چل کر اسکول آتا جاتا تھا۔ اسکول کے ایک استاد خالق چنا نے ذوالفقار پر بہت محنت کی، روزانہ اسکول کے بعد ٹائم نکال کر اُسے ڈرائنگ اور پینٹنگ وغیرہ بنانا سکھائیں، اور اِسی طرح انٹر کرنے کے بعد این سی اے میں ٹیسٹ دیا اور اُس کا سلیکشن ہوگیا۔ ذوالفقار کے کسی رشتہ دار نے اِدھر اُدھر ہاتھ پاﺅں مار کر کہیں سے 30 ہزار روپے کرکے اُسے لاہور بھیجا، یہ آرٹ کا ہی شوق تھا جو ذوالفقار کو این سی اے تک لے آیا، اور آج کل ذوالفقار کی پہچان اب یہی پینٹنگ بن چکی ہے۔

این سی اے میں داخلے کے حوالے سے ذوالفقار کا کہنا ہے کہ

میں اپنے گاﺅں کا پہلا لڑکا ہوں جو کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا ہے، اور یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے آج تک کسی سے کوئی بھیک نہیں مانگی، کیونکہ میں صرف اپنی محنت پر یقین رکھتا ہوں۔

ذوالفقار کے ایک ہاتھ اور ایک پاﺅں سے بنائی ہوئی تصاویر کمال ہیں، ایک ہاتھ نہ ہونے کے باعث وہ ڈرائنگ کرتے ہوئے اپنے پاﺅں کی مدد بھی لیتے ہیں۔ ذوالفقار اپنی معذوری کو مجبوری نہیں سمجھتے اور اپنے کام اور ذہانت کی بنیاد پر اِس تنگ نظر معاشرے میں محنت کرکے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔

ذوالفقار کا کہنا ہے کہ

مجھے سادہ زندگی پسند ہے، لوگ مجھے مولائی اور فقرائے کہتے ہیں، اور سچ پوچھیں تو مجھے اب یہ دونوں القاب بہت اچھے لگتے ہیں۔

ذوالفقار لاہور میں مختلف گیلریز اور آرڈر پر ڈرائنگ اور پینٹنگز وغیرہ بنا کر اپنا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ اب ذوالفقار کی تعلیم مکمل ہونے میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے، وہ اب اپنی منزل کے بہت ہی قریب آچکے ہیں۔ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ میں 120 سال زندہ رہنا چاہتا ہوں، اگر حضرت عزرائیلؑ آئے تو میں اپنی زندگی میں پہلی بار ان سے کچھ مانگو گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
نبیل ابڑو

نبیل ابڑو

بلاگر سندھ یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ کمیونی کیشن اسٹڈیز کے طالب علم ہیں اور سیاست و فلسفے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹویٹر آئی ڈی @abronabeel66 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔