بولتے الفاظ

فرخ شہباز وڑائچ  جمعـء 24 مارچ 2017
جس طرح موسیقی میں سُروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ویسے ہی اس میں بھی ایک ایک لفظ کو اس انداز میں لکھنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔

جس طرح موسیقی میں سُروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ویسے ہی اس میں بھی ایک ایک لفظ کو اس انداز میں لکھنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔

الحمرا آرٹ گیلری کے ہال کی دیواروں پر سجے فن پارے دیکھ کر بے اختیار صادقین یاد آئے، تخلیق کے اس بہتے آبشار نے کہا تھا،

ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کرکے دیکھوں

خطاطی اور مصوری کے لئے ساری زندگی وقف کر دینے والے صادقین سے جب فن کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب آیا ’’میلوں کے حساب سے خطاطی اور ایکڑوں کے حساب سے مصوری کی‘‘ صرف 40 برس کی فنی زندگی میں 20 ہزار سے زائد فن پارے تخلیق کئے۔ یعنی ایک برس میں 500 شاہکار، وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک۔

الحمراء کی عمارت تلے دنیا بھر سے خطاطی کے فن پارے جمع کئے گئے، جی ہاں 300 سے زائد پاکستانی خطاطوں کا آرٹ ورک پیش کیا گیا، حیران کن طور پر حاضری بھرپور تھی حالانکہ یہاں کوئی میلہ ٹھیلہ نہیں تھا۔ اسلامی تہذیب کے زوال کی طرف جاتے ہوئے اِس فن کی ترقی و ترویج کے لئے یہ ایک توانا کوشش تھی۔ یہ سعادت غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ذمہ داران کو نصیب ہوئی۔

گیلری میں آویزاں فن پاروں سے خطاطوں کے فکری جذبات و احساسات، مشاہدات، سوچنے کے زاویے، ربِ کائنات کے کلام سے محبت، عشق نبی ﷺ کا اظہار نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔ تقریب کے روحِ رواں عامر جعفری کے مطابق اِس 4 روزہ قومی خطاطی نمائش کے انعقاد کا مقصد اسلامک آرٹ کو چھت فراہم کرنا اور خطاطی کرنے والے نوجوان ٹیلنٹ کو پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ بلاشبہ ایسی کاوشیں عکاشہ مجاہد اور اشرف ہیرا جیسے نوجوانوں کا بھی حوصلہ بڑھاتی ہیں جن میں سے ایک نے خالصتاً 24 قیراط گولڈ کے ساتھ اللہ اور محمد ﷺ کا نام لکھ کر اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا تو دوسرے کا نام 12 سال کی عمر میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوا۔

اِس نمائش میں پاکستان کے علاوہ سعودیہ عرب، شارجہ، بحرین، ایران، قطر، بھارت، دبئی اور دیگر ممالک سے بھی پاکستانی خطاطوں نے اپنے فن پارے بھجوائے، جبکہ نمائش میں موجود اِن تخلیق کاروں سے لوگ درخواست کرکے اپنے اور عزیز و اقارب کے نام خوشخط لکھواتے تھے، اِس ناچیز نے بھی بزرگ آرٹسٹ سعید احمد ناز سے اپنا نام لکھوایا۔ جس خوبصورتی سے انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے رنگ صفحے پر بکھیرے یہ منظر خوشنما تھا یقیناً اِس کے پیچھے سالوں کی محنت اور ریاضت تھی۔ یہیں پر نوجوان علی حمزہ، مینال اور سنبل سے ملاقات ہوئی جو اپنے فن کے جوہر دکھا کر شرکاء کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تھے۔

نوجوان لڑکے لڑکیوں کے فن پارے دیکھتے ہوئے دل میں خواہش جاگی کاش ہم دنیا کو یہ دِکھا سکیں کہ پاکستانی اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے کون کونسے راستے اختیار کر رہے ہیں، بلاشبہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ خطاطی کا یہ فن ہمارے جمالیاتی ذوق اور فن شناسی کا عملی اظہار ہے۔

یہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے، جسے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران میں یہی فن بہت ترقی پاچکا ہے۔ یہاں خطِ نستعلیق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی جارہی ہے۔ ایران کے علاوہ ترکی، مصر اور پاکستان کے خطاط بھی اِس شعبے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اِس فن کو گزرتے وقت کے ساتھ اتنی پذیرائی نہیں مل رہی جس کا یہ حقدار ہے۔

خطاطی ایک ایسا فن ہے جس میں حروف کو منفرد اور دلکش انداز میں لکھا جاتا ہے، مگر خطاطی کے خوبصورت نمونے دیکھنے والوں کو اِس بات کا اندازہ شاید ہی ہو کہ اِس کے پیچھے محنت اور مسلسل ریاضت کارفرما ہوتی ہے۔

ابجد یعنی حروفِ تہجی کی ریاضیاتی پیمائش ایک ایسا منفرد فن ہے جس میں مہارت حاصل کرنے والوں نے اپنی عمریں صَرف کی ہیں، جو ایسی لگن مانگتا ہے کہ

’’خون جگر میں انگلیاں ڈبونی پڑتی ہیں‘‘۔

دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں خطاطی اسلامی تہذیب کا ایک اہم جزو ہے۔ خاص طور پر قرآنی آیات کی خطاطی، مساجد اور دیگر عمارتوں میں اِس کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضہ نے خطِ کوفی میں خطاطی کرتے ہوئے قرآن مجید کی کتابت کی۔ بعض ازاں خطاطی کے جدید انداز کو متعارف کروانے کا سہرا عباسی دورِ حکومت میں ابن مقلہ کے سر جاتا ہے جنہوں نے ’’ثُلث‘‘ رسم الخط بھی ایجاد کیا۔

فنِ خطاطی کے ماہرین کا خطاطی کے بارے میں کہنا ہے کہ آگاہی اور حکومتی سرپرستی کا فقدان ہی دراصل لوگوں کی اِس شعبے میں عدم دلچسپی کا باعث ہے۔ ٹھیک جس طرح موسیقی میں سُروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ویسے ہی اِس میں بھی ایک ایک لفظ کو اِس انداز میں لکھنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسلامی تہذیب کے اِس معدوم ہوتے فن کو آگے بڑھانے کے لئے اِس فن سے جڑے تخلیق کاروں کی شدید حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔