چندغورطلب سوالات

مقتدا منصور  اتوار 13 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے نے پورے سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔اسے حکومت کی کامیابی سمجھاجائے یانظام میںتبدیلی کے لیے منظم ہونے والی قوتوںکی پسپائی،اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔البتہ ایک بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی اور فیصلہ ساز قوتیںشدیدکنفیوژن کاشکار ہیں اور ان کے درمیان مختلف قومی امور پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔

ڈاکٹرطاہرالقادری کے طریقہ کارسے اختلاف کے باوجود اس ملک کا کوئی بھی باشعور شہری موجودہ سیاسی ڈھانچے اور انتخابی نظام پران کے الزامات کی صحت سے انکار نہیں کرسکتا۔لیکن ایسا لگ رہا ہے،جیسے دانستہ تنائو کی فضاء کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔کیونکہ نہ حکومت مذاکرات کے ذریعے انھیںاپنے اس انتہائی اقدام سے باز رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کررہی ہے اور نہ ہی دیگر سیاسی جماعتیںانھیںکسی قابل عمل ایجنڈے پر آمادہ کرنے کے لیے متحرک ہوسکی ہیں۔اس صورتحال کا لامحالہ نتیجہ ٹکرائو کی شکل میں ظاہر ہوگا،جس کا نقصان پورے ملک کو اٹھاناپڑے گا۔

23دسمبر کولاہور میں ریلی سے خطاب سے لے کر 11جنوری تک گوکہ علامہ طاہرالقادری کا لانگ مارچ ہر فورم اور ہر ٹیلی ویژن چینل پر موضوعِ سخن ہے۔ مگر اب تک سوائے علامہ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنانے کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے۔ان پر کثرت کے ساتھ یہ الزام کے ساتھ عائدکیا جارہاہے کہ وہ کسی اندرونی یا بیرونی اشارے پر یہ سارا فساد بپا کیے ہوئے ہیں۔مگران کی معروضات کو سننے اور ان پر سنجیدہ بحث کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔لہٰذاضروری ہے کہ ان کی اس تحریک پرجو آج منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے، عائد ہونے والے الزامات کا مختلف زاویوںسے جائزہ لیا جائے۔

سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا وہ کسی بیرونی قوت کے اشارے پر پاکستان آئے ہیں اور جیسا کہ عام طورپرکہا جارہا ہے کہ امریکا سمیت مغربی قوتوں نے انھیں پاکستان میں جمہوری عمل لپیٹنے کے لیے بھیجا ہے یا کوئی اور عوامل اس کے پسِ پشت ہیں۔اب جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کے لیے سب سے بڑاچیلنج 2014ء میں نیٹواور ایساف افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وہاں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کا قیام ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا طالبان کے مختلف دھڑوں سے بھی گفت وشنیدکررہاہے اوردیگر اسٹیک ہولڈرکے ذریعے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہے۔

افغانستان کا غیر مستحکم ہونا صرف امریکاکے لیے نئے مسائل کا باعث نہیں بنے گا، بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے متاثرہونے کے بھی قوی امکانات ہیں،جن میں چین،روس، بھارت اور ایران شامل ہیں۔اس لیے امریکا سمیت خطے کا کوئی بھی ملک افغانستان یاپاکستان کے سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم دیکھنا نہیںچاہیے گا۔اس میں شک نہیں کہ امریکااس خطے کے تزویراتی معاملات میں پاکستان کی عسکری قیادت کا تعاون چاہتا ہے، لیکن خطے کے دیگر معاملات کے حل کے لیے وہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کو ترجیح دیتا ہے۔ جس کا ثبوت 2007ء کے اوائل میں ہونے والا NRO ہے۔ اس لیے یہ تصور غلط ہے کہ امریکا اس کھیل کی پشت پناہی کررہاہے۔

البتہ یہ بات خارج ازامکان نہیں ہے کہ خطے کی کچھ قوتیں جو پاکستان کے اندرہونے والی پراکسی جنگ سے نالاں ہوں اور فرقہ وارانہ بنیادوںپر قتل وغارت گری کا سد باب چاہتی ہوں۔خاص طورپر کوئٹہ کے اطراف اور شمالی علاقہ جات میں ایک مخصوص کمیونٹی کی نسل کشی جیسی شدت پسندی کا راستہ روکنے کے لیے ڈاکٹر قادری کی پس پردہ حمایت کررہی ہوں۔یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کے اندر موجود بعض قوتیں قبائلی علاقوں میں موجود شدت پسندوں کا زور توڑنے اور انھیںاسلام آباد کا رخ کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان میں اکثریتی بریلوی مسلک کومنظم کرنا چاہتی ہوں،جوصوفیاء تعلیمات کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ایک غیر عسکری مسلک ہے۔

مگرساتھ ہی غیر منظم ہونے کی وجہ سے فعالیت نہیں رکھتا۔ یہ تصور اس لیے زیادہ وزن نہیں رکھتا، کیونکہ علامہ طاہرالقادری یا ان کی تنظیم منہاج القران اس کھیل کے براہ راست Beneficiary نہیں ہیں۔دوسرے بریلی مسلک کی کسی دوسری جماعت میں اتنا پوٹینشیل نہیںہے کہ وہ طالبان کی قوت کے سامنے ڈٹ سکے۔ایک دوسرا امکان یہ ہوسکتاہے کہ اسٹبلشمنٹ کا ایک مخصوص حلقہ یا خود پیپلز پارٹی آیندہ انتخابات میںمسلم لیگ(ن) کونقصان پہنچانے کے لیے علامہ صاحب کو استعمال کررہے ہوں۔مگر اس مشق کے نتیجے میںخود پیپلز پارٹی کے متاثرہونے کابھی امکان موجود ہے۔اس لیے یہ تصور خارج از امکان ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ بیرون یا اندرونِ ملک علامہ کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں تلاش کرنے کے بجائے ہم اس پوری صورتحال کو عوام کے اس غیض وغضب کے تناظر میں کیوں نہیں دیکھ رہے، جوملک کی انتہائی ابتر صورتحال سے نالاں وپریشاں ہیں۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ان پانچ برسوں کے دوران عوامی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کرپشن،اقرباء پروری اورقانون کی عدم حکمرانی نے سابقہ تمام ریکارڈتوڑ دیے ہیں۔جرائم کی شرح میں تیز رفتار اضافے اوربجلی اورگیس کی طویل لوڈ شیڈنگ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ امیر وغریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہواہے۔خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح میں تیز رفتاری سے اضافہ ہواہے۔

ساتھ ہی خود کش حملوں اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی شدت آئی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں طرز حکمرانی کے لیے اکتاہٹ اور نظم حکمرانی کے لیے بیگانگی پیدا ہوئی ہے۔عمومی طور پر پڑھے لکھے متوشش حلقوں میںیہ خیال شدت اختیار کررہاہے کہ موجودہ انتخابی نظام کے نتیجے میں انیس بیس کے فرق سے وہی قوتیں اقتدار میں آجائیں گی،جو Status quoکو جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس لیے انتخابی طریقہ کار میں ٹھوس اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس لیے یہ بھی تو کہاجاسکتا ہے کہ علامہ قادری نے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور بے قراری کا ادراک کرتے ہوئے انتخابات سے چند ماہ پہلے تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند کرکے عوام کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے۔

لیکن یہ بات بھی حلق سے نہیں اترتی، کیونکہ ایک سیاسی مدبر کیسے ہی ناگفتہ بہ حالات کیوں نہ ہوں، کبھی اپنے مرکز سے نہیں ہٹتا۔علامہ طاہر القادری کی سیاسی جماعت جو1980ء کے عشرے سے فعال رہی ہے، جنرل پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کی حمایت میں خاصی فعال رہی۔ ریفرنڈم میںجنرل مشرف کی حمایت میں اسی طرح بھرپور اندازمیں مہم چلائی۔لیکن 2002ء میں جب انھیں صرف ایک نشست ملی اور پارلیمان میں وہ کوئی خاطر خواہ پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوکر کینیڈا منتقل ہوگئے،جہاں انھوں نے خاصا علمی کام کیا اور دہشت گردی کے خلاف انتہائی مدلل فتویٰ تیار کیا۔

اب اچانک ان کی واپسی اور پاکستان عوامی تحریک کوفعال کرنے کے بجائے منہاج القران کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ بھی خاصا پراسرار ہے۔اس لیے اس شک کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ وہ قوتیں جوماضی قریب میں تحریک انصاف کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کاصفایا کرنا چاہتی تھیں، اس سے مایوس ہونے کے بعد اب علامہ طاہر القادری کے ذریعے ان دونوں قومی جماعتوں کا راستہ روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔تین ہفتوں سے جاری ان کی سرگرمیوں پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ طاہر القادری نے اس احتجاجی دھرنے کا منصوبہ خاصی سوچ وبچار کے بعد تشکیل دیا  ہے۔

ان کے سامنے دو متوقع نتائج ہیں۔یعنی اگرحکومت دبائو میں آکر ان کے مطالبات کوتسلیم کرلیتی ہے اور ایک وسیع البنیاد غیرجانبدار حکومت قائم ہوجاتی ہے،توآیندہ انتخابات میں دونوں بڑی جماعتوں کے لیے کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔یوں اپناہدف حاصل کرنے کے بعد مستقل طورپر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں ،جو ان کا یا ان کی سرپرستی کرنے والوں کی خواہش ہو۔بصورت دیگر وہ واپس کینیڈاچلے جائیں اورطویل عرصہ کے لیے منظرنامے سے غائب ہوکرایک بار پھر تحقیق وتصنیف میں مصروف ہوجائیں۔

اس طرح  انھیں ذاتی طورپر کوئی نقصان نہیںپہنچے گا ۔ شاید یہی وہ پہلو تھا،جس پر غور کرنے کے بعد ایم کیو ایم نے دارالحکومت کے گھیرائو میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔کیونکہ گھیراؤ کی ناکامی کی صورت میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ علامہ طاہر القادری کوکوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا ،لیکن ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناتے ایم کیو ایم کی Credibilityبری طرح متاثر ہوسکتی تھی۔

مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے باوجود ایک بات بہرحال ذہن میں رکھناہوگی کہ امکانات اور اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوںاور اس گھیرائو اور دھرنے کا جو بھی انجام ہو،لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کے لیے فضاء تیزی کے ساتھ ہموار ہو رہی ہے۔یہ تبدیلی آج نہیں تو کل کسی نہ کسی شکل میں ضرور نمودار ہوگی۔پاکستان میں جس انداز میں مخصوص خاندان انتخابات کوManipulateکرتے ہیں، وہ پائیدارجمہوریت کے لیے ایک بہت بڑاچیلنج ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں ۔جو آج نہیں تو کل ضرور آئیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔