خلاء میں چین کی ہمسری کا بھارتی خواب چکنا چور

سید عاصم محمود  اتوار 26 مارچ 2017
آج خلا میں گھومتے سیٹلائٹ سول وعسکری،دونوں نقطہ نگاہ سے کمیونیکیشن کا اہم ترین ذریعہ بن چکے۔  فوٹو : فائل

آج خلا میں گھومتے سیٹلائٹ سول وعسکری،دونوں نقطہ نگاہ سے کمیونیکیشن کا اہم ترین ذریعہ بن چکے۔ فوٹو : فائل

قول ہے ’’انسان اگر دوسروں سے مقابلہ کرتا رہے، تو تلخیوں سے بھر جاتا ہے۔ جبکہ خود سے مقابلہ کرے، تو اپنا آپ بہتر بنالیتا ہے۔‘‘ یہ قول بھارتی حکمرانوں پہ صادق آتا ہے جو ہر معاملے میں اپنے پڑوسی چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

صحت مند مسابقت کے فوائد اپنی جگہ، مگر بھارتی حکمرانوں کا قولو فعل منفی ہے، اسی لیے دونوں ممالک کے مابین مقابلہ عموماً مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا۔مثال کے طور پر 15 فروری 2017ء کو بھارت نے ایک راکٹ کے ذریعے ’’104‘‘ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارے خلا میں پہنچانے کا دعوی کیا جو ایک عالمی ریکارڈ قرار دیا گیا۔ اس سے قبل جون 2014ء میں روس نے ایک راکٹ سے 37 مصنوعی سیارے خلا میں پہنچا کر ریکارڈ بنایا تھا۔

جیسے ہی یہ خبر پھیلی، بھارتی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا میں جیسے طوفان آگیا۔ بھارتی عوام و خواص غرور سے کہنے لگے کہ انہوں نے خلائی سائنس میں نیا ریکارڈ قائم کرکے چین کو پچھاڑ دیا۔ اُدھر بھارتی قوم پرست وزیراعظم، نریندر مودی نے اس واقعے کو ’’تاریخ ساز کامیابی‘‘ قرار دیا۔مودی حکومت پچھلے چار ماہ سے 500 اور 1000 کے نوٹ ختم کرنے پر عوام کے شدید احتجاج کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ کرنسی نوٹوں کی کمی نے لوگوں کو غم و غصے میں مبتلا کردیا تھا۔

ایک راکٹ سے 104 سیٹلائٹ خلا میں پہنچانے کی خبر عام ہوئی، تو مودی حکومت نے اسے خوب اچھالا اور اپنی اس کامیابی کا زوردار پروپیگنڈہ کیا۔ مدعا یہی تھا کہ مودی حکومت کا اعتماد کسی حد تک بحال ہوجائے۔ حتیٰ کہ اس دوران چین اور پاکستان پر بھی چڑھائی کردی گئی۔ ٹویٹر پر درج ذیل نعرہ بھارتیوں میں بہت مقبول ہوا:’’دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت ایک راکٹ سے 104 سیٹلائٹ خلا میں بھیج سکتا ہے…چین اور پاکستان ہوشیار ہوجائیں… بھارت ایک وار میں 104 ایٹم بم بھی چھوڑ سکتا ہے۔‘‘

غرض مودی حکومت نے پوری قوت سے سرکاری وسائل اور مشینری استعمال کی تاکہ بھارتی عوام کے قوم پرستانہ جذبات بھڑک اُٹھیں اور وہ دوبارہ نریندر مودی کو اپنا غیر متنازعہ رہنما سمجھنے لگیں۔ یہ سبھی قوم پرست لیڈروں اور پارٹیوں کا قدیم اور سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ وہ ملک، قوم یا مذہب کا سہارا لے کر عوام کے جذبات بھڑکا دیتی ہیں اور یوں ان کے سہارے اپنے مفادات پورے کرلیتی ہیں۔

حقیقت میں ایک راکٹ سے 104 سیٹلائٹ پہنچانا بھارتی سائنس دانوں کا کوئی بڑا کارنامہ نہیں! عام لوگ نہیں جانتے کہ ان 104 سیلائٹوں میں سے 103 نینو سیٹلائٹ (Nanosatellites) تھے… یعنی ان کا وزن صرف 1 تا 10 کلو کے درمیان تھا۔ گویا بھارتی راکٹ 99 فیصد چھوٹے موٹے سیٹلائٹ لے کر اڑا جو خلا میںمختلف معمولی کام انجام دینے کی خاطر تیار کیے جاتے ہیں۔ ان سیٹلائٹوں میں سے 96 امریکا کے تھے۔ بقیہ بھارت، اسرائیل، قازقستان، متحدہ عرب امارات، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ نے خلا میں بھجوائے۔

اب ذرا روس کے سابقہ ریکارڈ اور حالیہ بھارتی ریکارڈ کا موازنہ ہوجائے۔ جب بھارتی راکٹ فضا میں بلند ہوا، تو اس کا مجموعی وزن 3 لاکھ 20 ہزار کلو تھا۔ اس میں سیٹلائٹوں کا وزن صرف 1378 کلو تھا۔روس نے ایک ڈنیپر (Dnepr)راکٹ کے ذریعے 37 سیٹلائٹ خلا میں بھجوائے تھے۔ اس راکٹ کا وزن 2 لاکھ 11 ہزار کلو تھا اور اس کے ذریعے 4500 کلو وزنی سینتالیس سیٹلائٹ خلا میں بھجوائے گئے۔ گویا وزن کے لحاظ سے روس کا ریکارڈ کہیں بہتر ہے۔ بھارتیوں نے صرف 1378 کلو وزنی ایک سو چار سیٹلائٹ خلا میں بھجوا کر دنیا والوں پر یوں ظاہر کیا جیسے یہ فقید المثال کارنامہ ہے۔ اس طرح تو پاکستانی سائنس دان بھی اپنے سب سے طاقتور راکٹ کے ذریعے 105 نینو سیٹلائٹ خلا میں بھجوا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کرسکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک راکٹ کتنے وزنی سیٹلائٹ لے کر فضا میں بلند ہوا؟

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ بھارتی ماہرین نے ایک روایتی راکٹ سے نینو سیٹلائٹ خلا میں بھجوائے جو عام بات ہے۔بس سیٹلائٹوں کی کثرت نے اس واقعے کو ایک کارنامہ بنا دیا۔ مزید براں یہ مودی حکومت کی ضرورت تھی کہ وہ اس کارنامے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔ اس بات نے بھی رنگ آمیزی پیدا کی اور بھارتی اپنے خلائی منصوبوں کا مقابلہ چین اور پاکستان کے خلائی منصوبوں سے کرنے لگے۔

کوئی مقابلہ ہی نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور چین کے ’’خلائی پروگرام‘‘ یا منصوبوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ چین اپنے خلائی منصوبے پر سالانہ سات آٹھ ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت کے اسپیس پروگرام کو ہر سال بمشکل ایک ارب ڈالر ملتے ہیں۔ نریندر مودی ہی نے اقتدار سنبھال کر اس منصوبے کو بڑھاوا دیا ورنہ سابقہ بھارتی حکومتوں نے اپنے خلائی پروجیکٹ کو نظر انداز کررکھا تھا۔

پروفیسر ڈنشا مستری امریکا کی سنسیناتی یونیورسٹی میں ایشیائی اسٹڈیز اور سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’چین کا خلائی منصوبہ بھارت کے منصوبے سے بالکل مختلف ہے۔ وہ ہر سال راکٹ چھوڑنے اور سالانہ سرمایہ کاری، دونوں کے لحاظ سے کہیں بڑا ہے۔ نیز دونوں ممالک کے منصوبوں کی حقیقی صلاحیت میں بھی خاصا فرق ہے۔ مزید براں چین کا خلائی منصوبہ عسکری پہلو بھی رکھتا ہے۔‘‘

جب بھارتیوں نے سوشل میڈیا میں 104 سیٹلائٹ بھجوانے پر فخرو غرور کا اظہار کیا، تو چین میں اسے بچکانہ رویّہ سمجھا گیا۔ چین کے مشہور سرکاری انگریزی اخبار، گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ’’خلا میں چین کا مقابلہ بھارت نہیں امریکا سے ہے۔ مگر بھارتی شروع سے چین کو اپنا حریف سمجھتے چلے آرہے ہیں۔ چناں چہ جب بھی بھارتیوں کو کوئی کامیابی ملے، تو وہ اسے چین کے خلاف اپنی فتح سمجھتے اور اظہار خوشی کرتے ہیں۔‘‘

لانیانہی بیجنگ میں واقع خلائی سائنس سے متعلق ایک کمپنی، یوکن ٹیکنالوجی کے سربراہ ہیں۔ کہتے ہیں ’’بھارتی ماہرین کم طاقت والے راکٹ بنارہے ہیں۔ یہ راکٹ محدود فاصلے تک ہی سیٹلائٹ لے جاسکتے ہیں۔ مزید براں یہ غیر ملکی کمپنیوں کے امریکی یا یورپی ماہرین ہیں جنہوں نے ایک بھارتی راکٹ میں 104 سیٹلائٹ سمونے کی ٹیکنالوجی تیار کی اور اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ بھارتی سائنس دانوں نے تو صرف راکٹ اور اسے لانچ کرنے کی جگہ فراہم کی ہے اور بس۔‘‘

نئے کاروبار کی آمد
چین مستقبل میں امریکا کی طرح چاند پر خلا باز اتارنا اور خلا میں گھومتے خلائی اسٹیشن تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ یہی نہیں، چین کی خواہش ہے کہ سیارہ مریخ تک بھی خلائی جہاز بھجوایا جائے۔ غرض خلا کی وسعتیں فتح کرنے کے لیے چینی حکومت بلند و بالا عزائم رکھتی ہے۔ خبروں کی رو سے 2023ء تک خلا میں چین کا خلائی اسٹیشن کام کرنے لگے گا۔اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر چین کی سیاسی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔

اُدھر خلائی سائنس سے منسلک بھارت کے سرکاری اداروں کی سعی ہے کہ ’’زیریں زمینی مدار‘‘ (Low Earth orbit) پر توجہ دی جائے۔ یہ زمین کے بالا خلا کا وہ علاقہ ہے جو 160 کلو میٹر سے لے کر 2000 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ انسان ساختہ تقریباً سبھی مصنوعی سیارے اسی زیریں زمینی مدار میں چکر کھارہے ہیں۔ایک رپورٹ کی رو سے پندرہ سو مصنوعی سیارے ہماری زمین کے گرد گھوم رہے ہیں ۔جبکہ اگلے ایک عشرے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک تقریباً ’’13 ہزار‘‘ مصنوعی سیارے زیریں زمینی مدار میں بھجوائیں گے۔ یہ مصنوعی سیارے مختلف سرگرمیاں انجام دیں گے مثلاً تصاویر لینا، آب و ہوا نوٹ کرنا، کمیونیکیشن بہتر بنانا وغیرہ۔

امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعی سیارے خلا میں بھجوانے پر اچھا خاصا خرچ آتا ہے جبکہ بھارت یہ کام کرانے پر نصف معاوضہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے، سیٹلائٹ خلا میں بھجوانے والی امریکی و یورپی کمپنیاں بھارت سے رجوع کررہی ہیں۔فی الحال امریکا میں یہ قانون موجود ہے کہ سیٹلائٹ بنانے والی کوئی بھی کمپنی یورپی ممالک کے علاوہ کسی اور ملک سے اپنا مصنوعی سیارہ خلا میں نہیں بھجوا سکتی۔ کمپنی کو غیر یورپی ملک سے سیٹلائٹ بھجوانے پر امریکی حکومت سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔

مگر امریکی کمپنیاں یہ قانون ختم کرنے کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ خیال ہے کہ سال رواں میں یہ قانون ختم ہوجائے گا۔فی الوقت امریکا، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیاں ہی سیٹلائٹ بناتی اور انہیں لانچ کرتی ہیں۔ مگر اگلے ایک عشرے تک سیٹلائٹ چھوڑنے کا کاروبار بڑا منافع بخش بن جائے گا۔ یہی بات مدنظر رکھ کر بھارتی سرکاری اداروں نے ایک راکٹ میں 104 سیٹلائٹ بھر کر خلا میں بھجوائے تاکہ عالمی سطح پر مشہورہوجائیں اور سیٹلائٹ بنانے والی کمپنیوں کی توجہ حاصل کرسکیں۔ اب کئی امریکی و یورپی کمپنیاں بھارتی حکومت سے رابطہ کررہی ہیں تاکہ کم خرچ پر اپنے مصنوعی سیارے خلا میں بھجواسکیں۔

خلائی سائنس سے وابستہ چین کے ماہرین اخباری مضامین اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھی سیٹلائٹ چھوڑنے کے منافع بخش کاروبار میں دلچسپی لے۔ پاکستان کا خلائی ادارہ، سپارکو بھی چین کے تعاون سے اس کاروبار میں خوب رقم کماسکتا ہے۔ سپارکو کے ماہرین بھی ایسا معقول تجربہ اور بنیادی سہولیات رکھتے ہیں کہ ایک پاکستانی راکٹ سے سو سے زائد چھوٹے سیٹلائٹ خلا میں بھجواسکیں۔سیٹلائٹ چھوڑنے کا کاروبار اپنی جگہ، خلائی سائنس کے شعبے میں اصل مقابلہ چین اور امریکا کے مابین ہے۔ یہ مقابلہ سیاسی، معاشی اور عسکری پہلو رکھتا ہے جو حالیہ چند برس کے دوران شدت پکڑ چکا ہے۔حال ہی میں نئے امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا 2026ء تک دور دراز سیاروں میں بھی ’’امریکی نقش قدم‘‘ ثبت کرنا چاہتا ہے۔ اس سال دراصل قیام امریکا کی 250 ویں سالگرہ منائی جائے گی۔

آج ترقی و کامیابی کی کلید سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ امریکہ معاشی طور پر زوال پذیر ہونے کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست مہارت رکھنے کی وجہ سے ہی اب تک سپرپاور بنا بیٹھا ہے۔ یہی حقیقت مدنظر رکھ کر چینی حکومت بھی قومی سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی خاطر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرنے لگی ہے۔ خلائی سائنس پر بھی چینیوں کی توجہ ہے۔

چین نے پچھلے سال دنیا کا پہلا ’’کوانٹم سیٹلائٹ‘‘ (quantum satellite)خلا میں چھوڑا تھا۔ کوائنٹم سیٹلائٹ کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعے کی گئی کمیونیکیشن کو دشمن طاقتیں ہیک نہیں کر سکتیں۔ پچھلے سال ہی بائیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد چین نے دنیا کی سب سے بڑی ریڈیائی دوربین تیار کرلی۔اس کا عدسہ 1650 فٹ تک پھیلا ہوا ہے۔اس دوربین کے ذریعے خلا میں دوسری دنیائیں تلاش کرنے کا پروگرام ہے۔چین خلا میں امریکا کا مقابلہ کرنے کی خاطر اپنا جی پی ایس نظام ’’بیدو‘‘ (Baidu)بھی تشکیل دے رہا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ 35 سیٹلائٹوں پر مشتمل ہوگا۔ پاک افواج بھی کمیونیکیشن و فضائی نگرانی و جاسوسی میں بیدو سے مستفید ہورہی ہیں۔

واضح رہے کہ آج خلا میں گھومتے سیٹلائٹ سول وعسکری،دونوں نقطہ نگاہ سے کمیونیکیشن کا اہم ترین ذریعہ بن چکے۔ اسی لیے امریکا، چین اور روس ایسے میزائل تیار کررہے ہیں جو مستقبل میں جنگ کی صورت سیٹلائٹ بھی تباہ کرسکیں۔ گویا آنے والی جنگوں میں سیٹلائٹ تباہ کرنا بہت اہم صلاحیت کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور دشمن کے کمیونیکیشن نظام کی تباہی فتح یقینی بنا دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔