یورپ میں اسلام فوبیا کیوں بڑھ رہا ہے؟…

عابد محمود عزام  اتوار 13 جنوری 2013

محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے، وہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز’’ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ‘‘جیتا اوراولمپک میں سونے کے تمغے کے علاوہ شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن بھی جیتی۔ وہ تین مرتبہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے باکسر تھے۔ محمد علی کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو شکست دی۔ اس کے بعد مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا۔ باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انھوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آؤٹ اسکور کیا۔ اس طرح وہ 20 ویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی قرار پائے۔

محمد علی کلے اپنے کیریئر کے آغاز میں عیسائی تھے، نام تھا کیسیس کلے۔ عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ان کا نام محمد علی رکھا گیا۔ جب محمد علی نے اسلام قبول کیا تو یورپی معاشرے نے اس عظیم ترین قابل قدرکھلاڑی کو اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح سے زچ کرنا شروع کردیا۔ جس دن انھوں نے پریس کانفرنس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ایک امریکی صحافی نے پوچھا کہ کیا تم واقعی مسلمان ہوگئے ہو؟ انھوں نے کہا ’’ہاں‘‘ تو صحافی نے طنزاً کہا:

’’ A BLACK MUSLIM ایک کالا مسلمان‘‘

محمد علی کلے نے فوراً کہا کہ تم لوگوں نے کبھی کسی کو کالا عیسائی یا کالا یہودی کیوں نہیں کہا؟صرف مسلمان کو ہی کہتے ہو۔

انھی دنوں امریکا ویت نام میں قتل عام کررہا تھا، امریکا میں ہر صحت مند نوجوان پر فوج میں بھرتی ہوکر ویت نام جانا ضروری تھا۔چرچ کے پادری اس سے مستثنیٰ تھے۔محمد علی اس وقت اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ایک دن اس عالمی چیمپیئن کو کہا گیا کہ تمہیں آرمی میں جانا ہوگا، انھوں نے جواب دیا کہ میں امریکا کے قانون کے مطابق فوج سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ میری حیثیت بھی مذہب اسلام میں ایک پادری کی طرح ہے۔ لیکن امریکا کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت ان کے پیچھے پڑگئی۔محمد علی کلے کو فوج میں جانے سے انکار کرنے پر پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد علی سے باکسنگ کا اعزاز بھی واپس لے لیا۔

11ستمبر کے بعد ایک دن محمد علی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرمیں مرنے والوں سے یکجہتی کرنے کے لیے آئے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا ’’تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور دہشت گردوں کا مذہب ایک ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور ہٹلر کا مذہب ایک ہے؟‘‘ محمد علی کو ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے باوجود صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق ان دنوں یورپ میں اسلام فوبیا بڑھ رہا ہے۔ حکومتی اداروں، ذرایع ابلاغ اور شر پسند عناصر کی جانب سے پھیلائے اشتعال نے امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں ہوشربا اضافہ کیاہے۔ امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق 2010 میں مسلمانوں سے نفرت کے سبب ان کے خلاف حملوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ میں اسلام فوبیا کی فضا بہت خطرناک ہوگئی ہے ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ ان کے خلاف حملے تیز کردیے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں یورپ میں مسلمانوں پر متعدد حملے کیے گئے ہیں، جن میں کئی مسلمان زخمی ہوئے ہیں۔ مساجد کے باہر نعرے بازی، مساجد کے اندر سور کا گوشت پھینکنا اور مساجد کی دیواروں پر اسلام مخالف نعرے درج کرنے جیسے واقعات بھی متعدد بار پیش آئے ہیں۔

مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے کہا ہے کہ وہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا سختی سے نوٹس لے۔ مغرب میں دین اسلام کے پیرو کاروں کے ساتھ نسلی اور دیگر امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور اس کے خلاف موثر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ان کے خلاف نفرت اور عدم رواداری کا سلوک برتا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ یورپ میں اسلام فوبیا کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ملکوں میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسلام کو خطے کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔

محمد حسن عسکری لکھتے ہیں’’یورپ میں جو مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے اسلام کا عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔‘‘

اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آیندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں 9 لاکھ 40 ہزار مسلمان آباد ہیں جو 2030 تک 20 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ جائیں گے۔امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جو 2030تک بڑھ کر 60 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائینگے۔

شمالی امریکا میں 1990 سے 2010 تک مسلمانوں کی آبادی میں 91 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے 20 سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80 لاکھ 90 ہزار ہونے کا امکان ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر 50 لاکھ 60 ہزار اور فرانس میں 40 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 90 ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب کہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔

فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ،جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی خاتون صحافی اوریانہ فلاسی کہتی ہیں کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے، یورپ میں اگر چار افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کررہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔