ریاستی انتخابات میں نفرت، تعصب اور پیسا جیت گیا

رانا نسیم  اتوار 26 مارچ 2017
 مودی کی زیرِقیادت بی جے پی نے پانچ میں سے تین ریاستوں میں ہار کر بھی چار میں حکومت بنا لی ۔  فوٹو : فائل

 مودی کی زیرِقیادت بی جے پی نے پانچ میں سے تین ریاستوں میں ہار کر بھی چار میں حکومت بنا لی ۔ فوٹو : فائل

اس بات کو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت نے اپنا جو سیکولر چہرہ دنیا کے سامنے بنائے رکھا، گو کہ درحقیقت وہ ایسا نہیں تھا جیسا دکھایا جاتا تھا اور دنیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے اس لیے تسلیم کر لیتی تھی کہ بھارت کے ساتھ وابستہ مفادات کو نقصان نہ پہنچے، اب تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔

بی جے پی کی مودی سرکار نے اپنے اس دور حکومت میں ایسی بہت سی حدیں علانیہ عبور کر لی ہیں جنہیں ماضی میں ڈھکے چھپے انداز میں عبور کیا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ سیکولر ازم کی زبانی تکرار میں اس بات کا امکان زندہ رہتا تھا کہ جلد یا بدیر کوشش اور تدبیر سے حقیقی سیکولر سرکاری رویئے کے حصول کی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے تعصب پر مبنی اقدامات کے ذریعے ایسی بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے جیسی برصغیر سے انگریزی سرکار کی رخصتی سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔

بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات میں بھی اس کی مثالیں دیکھنے میں آئیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش جہاں مسلم آبادی کا تناسب 20 فیصد ہے، کسی مسلم امیدوار کے بغیر بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کرکے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ حکومت کرنے کے لیے اقلیتوں کی مدد کی ضرورت نہیں۔ اترپردیش ہی میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے دیوبند شہر کا نام تبدیل کرکے دیوورند رکھنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔ اس بات کو بی جے پی نے اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنایا تھا۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کے لیے بھارت کی چھ ریاستوں میں صوبائی الیکشن کی روداد بیان کر رہے ہیں۔

پنجاب
بھارتی پنجاب کے ریاستی انتخابات میں کانگریس نے 10سال بعد تاریخی فتح حاصل کرتے ہوئے پرکاش سنگھ بادل کی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا جبکہ بھارت میں ابھرتی ہوئی تیسری بڑی سیاسی طاقت عام آدمی پارٹی بھی اسمبلی میں بڑی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ انتخابی نتائج کے مطابق سابق حکمران اتحاد اکالی بی جے پی تیسرے نمبر جبکہ ریاست میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والی عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ الیکشن کی ایک اہم بات بھارتی فوج کے سابق سربراہ کی ریٹائرڈ کیپٹن کے ہاتھوں شکست ہے۔

کانگریس کے امیدوار ریٹائرڈ کیپٹن امریندر سنگھ نے شرومانی اکالی دل کے جنرل (ر) جے جے سنگھ کو 55ہزار سے زائد ووٹوں سے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ 2012ء میں صوبے میں کانگریس نے 46 نشستیں، شرومنی اکالی دل اور بی جے پی نے 56 نشستیں جیتی تھیں جبکہ تین نشستوں پر دیگر امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ 1966ء میں ریاست کی تنظیم نو کے بعد سے شرومنی اکالی دل اور کانگریس ہی وہ دو بڑی جماعتیں تھیں، جو برسراقتدار رہی ہیں، لیکن پہلی بار عام آدمی پارٹی نے ان دونوں روایتی پارٹیوں کو چیلنج کیا۔

عام آدمی پارٹی نے پنجاب سے 2014ء میں لوک سبھا الیکشن کے دوران اس وقت چار نشستیں جیتیں جب یہاں بی جے پی کی لہر چل رہی تھی۔ پھر انتخابات سے قبل ہونے والے مختلف سروے بھی یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ عام آدمی پارٹی سخت مقابلہ کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عام آدمی پارٹی نے لوک سبھا الیکشن میں پنجاب کے کل ووٹوں میں سے 24.4 فیصد حصہ حاصل کرکے یہاں کی روایتی سیاست میں ایک بھونچال برپا کردیا۔ پارٹی نے اکالی بی جے پی اتحاد کے سر سے حکمرانی کا تاج اچھالا ضرور لیکن وہ ان کے ہاتھ نہ آیا بلکہ کانگرس کے سر پر جا سجا۔

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اصل مقابلہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں تھا کیوں کہ اکالی بی جے پی اتحاد کرپشن اور انتہا پسند پالیسیوں کے باعث اس دوڑ سے پہلے ہی باہر ہو چکی تھی۔ پھر اکالی بی جے پی اتحاد کا ووٹ بنک عام آدمی پارٹی کو منتقل ہونے سے وہ مزید کمزور ہو گیا، جس کا فائدہ براہ راست کانگرس کو ملا۔ سیاسی ماہرین عام آدمی کی ناکامی کی وجوہات اس کے مبہم اور غلط فیصلے قرار دیتے تھے، جس میں وزیر اعلی کی نامزدگی کو خاص اہمیت حاصل رہی جبکہ دوسری طرف کانگرس نے ’’کیپٹن دی سرکار‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کیپٹن امریندر سنگھ کو وزیر اعلی کے لئے نامزد کر دیا۔

پارٹی کے اندرونی تنازعات نے شدت اختیار کی تو عدم اعتماد کی فضا بن گئی۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں پیسے کی ریل پیل نے پارٹی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔ مقامی روایات سے عدم شناسی اور تجربے کی کمی بھی پارٹی کو الیکشن میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں رکاوٹ رہی۔ عام آدمی پارٹی صوبہ میں پانی اور منشیات جیسے ایشوز پر بھی کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنے میں ناکام رہی۔

اترپردیش
اترپردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے اور 20 کروڑ سے زائد آبادی کے باعث اسے ریاست کے اندر ایک ریاست بھی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والے ریاستی انتخابات کے نتیجے میں بی جے پی تقریباً 15 سال بعد دوبارہ اس ریاست کا تختہ حکمرانی حاصل کر سکی ہے جبکہ گزشتہ الیکشن کی کامیاب جماعت سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد دوسرے نمبر پر رہا۔ 2012ء کے ریاستی انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے 224 سیٹیں حاصل کیں، بی ایس پی (بہوجن سماج پارٹی) کو 80، بھارتیہ جنتا پارٹی 47 جبکہ کانگریس 28 سیٹیں جیت سکی تھی۔

یہاں کی اہم بات یہ ہے کہ ریاست کی 19 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو 3 کروڑ88 لاکھ بنتی ہے۔ انتخابات میں مسلم کمیونٹی کا کلیدی کردار ہوتا ہے، لیکن بی جے پی نے پوری ریاست میں ایک بھی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا، جو مودی کی مسلم دشمنی کا واضح ثبوت ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے نہایت چالاکی سے کام لیا گیا۔ ایک تو مسلمانوں کا ووٹ بنک سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں منقسم کر دیا گیا، دوسرا الیکشن کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اس ضمن میں اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بی ایس پی کی رہنما مایاوتی نے ووٹنگ کے دوران مشینوں کی خرابی کا الزام لگاتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے انہیں یقین نہیں تھا لیکن اس بار کے نتائج کو دیکھ کر وہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ ووٹنگ مشینوں میں گڑ بڑ کی گئی ہے۔

اترکھنڈ
بھارت کی 27ویں ریاست اترکھنڈ 2000ء میں تشکیل دی گئی اور 2002ء میں یہاں پہلی بار قانون سازی اسمبلی کے انتخابات کروائے گئے، جو کانگرس نے جیت لیا۔ 2007ء میں ہونے والے الیکشن میں بی جے پی کو 34 نشستیں حاصل ہوئیں تو اس نے حامیوں کے ساتھ مل کر یہاں حکومت بنا لی، تاہم 2012ء کے الیکشن میں کانگرس کو ایک بار پھر حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ یہ حکومت جیسے تیسے چلی تو مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی نے اس کے لئے مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔ ایک بار تو مودی حکومت نے ریاست میں صدر راج بھی نافذ کر دیا، جسے بعدازاں وزیر اعلی ہریش راوت کی جانب سے اسمبلی میں عددی طاقت ثابت کرنے پر سپریم کورٹ نے ختم کر دیا۔

حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے 70 میں سے 57 نشستیں جیت کر واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس بار بی جے پی کی طرف سے تمام انتخابی قواعدوضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اترکھنڈ میں بھرپور زور لگایا گیا۔ اس ریاست میں ایک طرف مسلمان اگر بڑی اقلیت ہیں تو دوسری طرف یہاں برہمنوں کی تعداد بھی تمام ریاستوں سے زیادہ بتائی جاتی ہے، جس بھرپور بی جے پی نے خوب فائدہ اٹھایا اور ہندوؤں کو مسلم دشمنی کی آڑ میں اپنی طرف راغب کیا۔

گوا
گوا میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں اگرچہ کانگرس نے زیادہ نشستیں حاصل کیں، لیکن حکومت ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں آئی ہے۔ کانگرس (17) کے مقابلہ میں بی جے پی نے صرف 13 نشستیں حاصل کیں لیکن لالچ اور دھونس کے ذریعے 3 کامیاب آزاد امیدواروں اور چھوٹی پارٹیوں سے کامیاب ہونے والے 6 امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی برتری ثابت کر دی۔ اسمبلی کی کل 40 نشستیں ہیں اور 21 نشستیں حاصل کرنے والی ایک پارٹی یا اتحاد حکومت بنانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کانگرس کے نائب صدر راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ پیسے کی طاقت سے گوا کے عوام کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔

منی پور
منی پور کے عوام کی کیفیت گوا والوں سے کچھ مختلف نہیں، کیوں کہ یہاں بھی انہوں نے کانگرس پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن کانگرس نے پیسے کے زور پر ایک بار پھر لوٹا سیاست کو تقویت دیتے ہوئے حکومت بنا لی ہے۔ کل 60 نشستوں میں سے کانگرس نے 28 پر کامیابی سمیٹی جبکہ بی جے پی کے حصے میں صرف 21 نشستیں آئی تھیں، لیکن ناگا پیپلز فرنٹ جیسی پارٹیوں کے ممبر قانون ساز اسمبلی نے ریاستی گورنر کو مل کر بی جے پی کی حمایت کا یقین دلا دیا، جس پر کانگرس اور منی پور کے عوام کے پریشانی کے ساتھ حیرانی میں بھی مبتلا ہیں کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ 2012ء کے ریاستی انتخابات میں کانگرس نے واضح برتری کے ساتھ تن تنہا حکومت بنائی تھی، جو اس بار بھی بننے جا رہی تھی، لیکن اقتدار کے مرکزی تختہ پر براجمان مودی حکومت کو اب کی بار یہ گوارا نہیں تھا، لہذا ارکان کی خریدوفروخت میں سب سے زیادہ بولی دے کر حکومت حاصل کر لی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔