افغان طالبان سے مذاکرات کے اشارے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 25 مارچ 2017
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

میڈیا میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پاکستان نے کچھ افغان طالبان لیڈروں کو اسلام آباد میں مدعو کیا ہے تا کہ انھیں اپریل میں روسی دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کے بارے میں ہونے والے کثیرالاقوامی امن مذاکرات میں شرکت کے لیے منایا جا سکے، میڈیا میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کا انکشاف طالبان ہی کے ذرایع نے کیا ہے۔ اگر ان اطلاعات میں صداقت ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ اس سے افغانستان میں موجود اسٹیک ہولڈرز پاکستان کے بارے میں مطمئن ہوں گے‘ بلاشبہ پاکستان اس سلسلے میں پہلے بھی کئی کوششیں کر چکا ہے مگر شومیٔ قسمت سے وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں۔

گزشتہ برس پاکستان اور افغانستان نے چین اور امریکا کی شراکت میں امن مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا مگر کابل میں دہشت گردی کے تباہ کن حملے کے نتیجے میں یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق اب مذاکرات کی نئی کوشش پاکستان، چین اور روس مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، ان مذاکرات میں ایران اور بھارت کو شامل کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ البتہ امریکا نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ ان مذاکرات میں شامل ہو گا یا نہیں۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی مساعی میں تیزی پیدا کر دی ہے کیونکہ اب بعض شدت پسند گروپ اپنی سرگرمیوں میں بھی شدت پیدا کر رہے ہیں۔ طالبان لیڈر اگرچہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں مگر انھوں نے چین‘ روس اور ایران کے کئی دورے کیے بلکہ جاپان اور یورپ میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی ہے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ اقوام متحدہ نے جن طالبان کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھے ہیں وہ نام خارج کیے جائیں۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہی لگتا ہے کہ افغانستان میں برسرپیکار طالبان کے کئی ملکوں سے رابطے ہیں‘ افغانستان کی حکومت کے بعض لوگ اور امریکا کے لوگ بھی ان کے ساتھ کہیں نہ کہیں رابطے میں ہوں گے‘ بہرحال افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں‘ پاکستان نے اپنا کردار پہلے بھی ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں بدامنی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑتا ہے‘ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کرے تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا موقع بنے اور پھر ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔