جو دل پہ رقم ہے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 25 مارچ 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

احمد رضی صدیقی ایک ٹریڈ یونین کارکن ہیں۔انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے کیا، اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی آئے۔ اپنی اور اپنے بہن بھائیوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ پولیس میں ملازمت کی اورجماعت اسلامی  میں شامل ہوگئے۔ بائیں بازوکی تحریک کا حصہ بنے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزاررہے ہیں۔ احمد رضی صدیقی نے اپنی زندگی کے سارے حقائق اپنی کتاب ’’جو دل پہ رقم ہے‘‘ میں درج کردیے، 220 صفحات پر مشتمل کتاب تخلیق ہوئی۔ اس کتاب کے 19 باب ہیں جو رضی صدیقی کی سچائی پرمبنی حقائق پرمشتمل ہیں۔

اس کتاب کا پہلے باب کا عنوان ’’اورنگ آباد کچھ یادیں کچھ باتیں ‘‘ ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جب میں نویں یا دسویں کلاس میں تھا تو پہلی مرتبہ ایک سیاسی تجربے سے گزرا۔ اس زمانے میں آزادئ ہندکی تحریک زورشورسے جاری تھی۔ ہم اپنی کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک دیگر اسکولوں کے ہندو مسلمان لڑکے نعرے لگاتے ہمارے کالج میں داخل ہوگئے۔ ہمیں کالج سے باہر نکال کراپنے جلوس میں شریک کیا۔ یہ جلوس 1942ء میں جنگ عظیم دوئم کے دوران وارکینٹ کے رکن سر اسٹیفورڈکرپس کی ہندوستان آمد کے خلاف نکالا گیا تھا۔

رضی صدیقی حیدرآباد دکن سے پہلے بمبئی آئے، جہاں انھوں نے پہلی دفعہ ٹرام کو چلتے دیکھا۔ پھر بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے۔ مصنف نے ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا تو والدہ نے اپنے کچھ زیور بیچ کر رقم مہیا کی۔ رضی صدیقی نے حیدرآباد میں اردو میں تعلیم حاصل کی تھی مگر ڈی جے سائنس کالج میں انھیں انگریزی میڈیم میں مضامین پڑھنے پڑے۔ پھر رضی کا ایئرفورس میں تقررہوگیا۔ پائلٹ کی تربیت لی مگر ایک جہاز کے حادثے کے بعد والدہ نے منع کیا،  پھر رضی صاحب کو پولیس میں نوکری مل گئی۔انھیں کراچی کے مختلف تھانوں میں فرائض کی انجام دہی کا موقع ملا۔ایک تھانے کے ایس ایچ او نے کہا کہ المونیم کوارٹر میں مشہورعالم مولانا عبدالحامد بدایونی کا خاندان رہتا تھا۔

ان سب کو پکڑکر تھانے لے آؤ۔ان لوگوں نے کئی ماہ کا کرایہ نہیں دیا۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ مالک مکان کسی اورکو زیادہ کرائے پر مکان دینا چاہتا تھا۔ رضی صدیقی ایک اور چھاپے کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فیڈرل بی ایریا میں سی آئی ڈی کے کہنے پر ایک کوارٹر پر چھاپہ مارا۔ سینئر افسر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کافی دیر بعد ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ وہاں ایک آدمی سو رہا تھا۔ فلیٹ میں زمین پر بستر پڑے ہوئے تھے۔ اس کا تمام خاندان سورہا تھا۔ اردگرد کتابیں اور پرچے تھے۔ پولیس ٹیم کے سربراہ نے ہر چیز اٹھا کر پوچھنی شروع کی۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سارے بائیں بازوکا قلع قمع چاہتی تھی۔ رجعت پسند جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت خفیہ یا اعلانیہ حاصل تھی ۔ یہیں سے وہ دور شروع ہوتا ہے جب حسن ناصر کو لاہور قلعے میں اتنی اذیتیں دی گئیں کہ وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔

رضی صاحب کے خلاف انکوائری ہوئی، انھیں پولیس سے نکال دیا گیا، اور وہ بے روزگارہوگئے تو ان کی ملاقات شبیر حسین نامی شخص سے ہوئی جو جوائنٹ واٹر بورڈ کے اہلکار تھے۔ انھوں نے مصنف کو مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھانا شروع کیا۔ رضی صدیقی نے شبیرکے ساتھ اردو کالج میں L.L.B کی کلاسز میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں طلبہ یونین کے انتخابات کی گہماگہمی تھی۔اسلامی جمعیت طلبہ کی میٹنگزکالج میں ہوتیں،اس میں شرکت کرنے لگے۔ رضی صدیقی نے نائب صدرکی حیثیت سے طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لیا۔ این ایس ایف کے علی مختار رضوی صدرکا انتخاب لڑرہے تھے مگر جمعیت کا امیدوارصدرکا انتخاب جیت گیا۔ ایک دن شبیر نے اخبار دکھایا تو پتہ چلا جوائنٹ واٹربورڈ ایمپلائزیونین کے صدر کی حیثیت سے نام شایع ہوا۔

رضی لکھتے ہیں کہ انھیں یونینوں کی الف ب بھی نہیں معلوم تھی۔ یوں مزدور یونین کے جلسوں سے خطاب کیا۔وہ لکھتے ہیں کہ لانڈھی کے جلسے میں جماعت اسلامی اوراس کے اغراض ومقاصد پر تقریرکی مگر جب سوالات ہوئے تو پہلے آدمی نے کہا کہ ورکشاپ انجنیئر ہمارے ساتھ سختی کرتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اس کو دو سال سے انکریمنٹ نہیں دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ کرنی دین کی بات ہے اورسب دنیا کی باتیں کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ شبیر حسین ایک غیر معمولی آدمی تھے۔ انھیں کمیونسٹ لٹریچر سے بھی شد بد حاصل تھی۔ وہ اپنی باتوں میں بجائے اسلام کے جنرل اسکیم آف اسلام کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔

رضی صدیقی جماعت اسلامی کا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی تھی۔ نظام اسلام پارٹی کے رہنما فرید احمد اسمبلی کے سیشن میں شرکت کے بعد کراچی آئے توکینٹ اسٹیشن پر ان کا  شاندار استقبال کیا گیا۔ بقول رضی صدیقی ’’ اس موقعے پر ہم نے پلے کارڈ بنائے تھے۔ان پر مزدور اتحاد کے نعروں کے علاوہ مزدور قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اس موقعے پر جمہوریت کے علمبردار مزدورو اور اسلام کے علمبردار مزدورو کے نعرے لگائے گئے۔ تاہم دو تین دن بعد ہمیں کراچی میں جماعت کے دفتر بلایا گیا جہاں کراچی  کے امیر جماعت اور شوریٰ کے لوگ موجود تھے۔ انھوں نے چند سوالات اٹھائے جن کا متن یہ تھا کہ صرف مزدورکو جمہوریت اور اسلام کا علمبردار کہہ کر کیا ہم کمیونسٹوں کی طرح لوگوں میں طبقاتی تفریق پیدا کررہے ہیں۔‘‘ مصنف مزید لکھتے ہیں کہ انھوں نے جواب دیا کہ بائیں بازوکے لیڈر جب مزدوروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہیں تو پہلے اپنی فیکٹری یا کارخانہ کا نام لے کرکہتے ہیںکہ دنیا کے مزدورو ایک ہوجاؤ اور پھرکہتے ہیں کہ کراچی کے مزدورو ایک ہوجاؤ۔ پھر پاکستان کے مزدوروں ایک ہوجاؤ۔ پھر دنیا کے مزدوروں کو متحد کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔

یہ نعرہ بھی Workers of the World Unity کے بنیادی نعرے سے جڑجاتا ہے،اگر صرف یہ کہیں کہ مسلمان مزدورو ایک ہوجاؤ تو وہ مزدوروں کے اتحاد کے منافی ہوگا۔ ہمارے پاس کوئی ایسا نعرہ نہیں جس سے مزدوروں کا تانا بانا اسلامی تحریک سے جوڑا جائے۔ رضی صاحب نے جنرل ایوب خان کے صدارتی انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ متحدہ حزب اختلاف میں شرکت کا مطلب یہ تھا کہ جماعت کو بھی ایک عورت کوصدرکے عہدے کے لیے ووٹ دینا پڑتا جو علما کے نزدیک ناجائز تھا۔اس مرحلے پر جماعت ایک عجیب امتحان میں پڑگئی۔ اگر وہ متحدہ حزب اختلاف کا ساتھ نہیں دیتی تو سیاسی عمل سے کٹ جاتی اور اگر فاطمہ جناح کو صدر بنانے کے لیے راضی ہوتی ہے تو خود جماعت کے اپنے لوگ اور دیگر علماء سے مخالفت مول لینی پڑتی ۔ مودودی سیاسی حکمت و دانش کے مالک تھے۔ انھوں نے عورت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔

وہ جماعت اسلامی سے دور ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میری کمپنی کی یونین کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے گروپ کی جانب سے امیدواروں کا انتخاب کرنا تھا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کی مسجد خضرا میں نشست ہوئی اور رضی کو صدر اور جنرل سیکریٹری کے لیے رکن جماعت اسلامی امین الدین حسینی نامزد ہوئے۔ جب انتخابات کے لیے نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر دفترکاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ آئی تو میرے لیے حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ گروپ کے فیصلے کے خلاف جماعت اسلامی کے رکن جن کو جنرل سیکریٹری نامزد کیا گیا تھا انھوں نے صدرکے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔

دوسرا واقعہ یہ تھا کہ نیشنل لیبر فیڈریشن میں شامل اسٹیم شپ یونین کے جنرل سیکریٹری کو معطل کیا گیا۔ یونین کے جوائنٹ سیکریٹری نے رضی صدیقی سے کہا کہ فوری طور پر یونین کے جنرل سیکریٹری کو بحال کرائیں۔کمپنی کی انتظامیہ نے رابطے پرکہا کہ جنرل سیکریٹری ان کا لے پالک ہے اس لیے بے وفائی کی ہے۔ وہ اسے ہرگز بحال نہیں کریں گے۔کمپنی کے نمایندے نے دریافت کیا کہ آپ کس فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں؟رضی نے اپنا تعارف پیش کیا۔کمپنی کے کارندے نے کیش بک منگوائی۔اس میں سے چند رسیدیں نکال کر انھیں دکھائیں کہ ہم نے اتنی رقم شوکت اسلام فنڈ میں دی تھی، پھر بھی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔

رضی صدیقی نے بائیں بازو سے اپنے تعلق اورکراچی پریس کلب کی مصروفیات پر روشنی ڈالی ہے۔ صحافی رہنماؤں منہاج برنا، نثارعثمانی اوراحفاظ الرحمن نے اپنے گھر میں انڈرگراؤنڈ رہنے کا ذکرکیا ہے۔ رضی نے کتاب میں سفرحج کا حال بیان کیا ہے۔ اپنے پرانے دوستوں شبیر حسین، امان اﷲ سردار ، عابد علی سید اور ان کی اہلیہ کا ذکرکیا ہے ۔رضی صدیقی کی کتاب ایک ایسے شخص کی داستان ہے جس نے ایک مذہبی انتہا پسند فوجی کی حیثیت سے زندگی کا آغازکیا۔ فوج اور پولیس میں نوکری کی، پھر مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ جماعت اسلامی کی ٹریڈ یونین کو منظم کیا اور بائیں بازوکے اسیر ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔