سیاسی اخلاقیات

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 25 مارچ 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے دنوں مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے پارلیمنٹیرینزکے درمیان پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیلات میڈیا میں آتی رہیں اورعوام اپنے نمایندوں کی سیاسی اخلاقیات دیکھ کر شرمسار ہوتے رہے۔ دونوں طرف سے بیان بازی اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا اور آخر کار حکمران جماعت کے نمایندے نے پی ٹی آئی کے نمایندے سے معافی مانگ کر معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ حکمران جماعت کے رکن جاوید لطیف نے کہا کہ جرگہ ممبران میرے پاس آئے تھے یہ بات غلط ہے کہ آپ کسی  کے خلاف جس طرح کی چاہے گفتگو کریں۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں ان پر مجھے شرمندگی ہے۔ پی ٹی آئی کے مراد سعید نے کہا کہ ہم یہاں عوام کی نمایندگی کے لیے آئے ہیں گالی گلوچ کے لیے نہیں آئے۔ لیگی رہنما جاوید لطیف کی طرف سے ایوان میں معافی مانگنے سے معاملہ رفع دفع ہوا۔

ایوان میں ہونے والا افسوسناک واقعہ، پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل اس سے زیادہ سنگین واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپوزیشن ارکان کوایوان سے اٹھا کر باہر بھی پھینک دیا گیا۔ایوان میں شورشرابا اورمچھلی بازار جیسی صورتحال کا پیدا ہونا عام سی بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بدترین صورتحال معزز ایوان میں پیداکیوں ہوتی ہے؟ ارکان ایوان ماشا اللہ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں اور اخلاقی ضابطوں سے واقف بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کے رہنما اور اراکین پارلیمنٹ سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنیوں میں بدل دیتے ہیں۔

جس کا مظاہرہ ان زعما کی تقاریر، بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کیا جاتا ہے بدقسمتی سے اس حوالے سے یہ جذباتی اور غیراخلاقی کلچر حکمران جماعت اور پی ٹی آئی میں زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کوئی سخت جملے حکمرانوں کے خلاف استعمال کرتی ہے تو اس کے جواب میں حکمران جماعت کے زعما اس سے زیادہ سخت زبان میں جواب دے کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس قسم کی غیراخلاقی غیر پارلیمانی گفتگوکے لیے ہر دو جماعتوں نے ’’ایکسپرٹ‘‘ کی تربیت یافتہ ٹیمیں تیار کر رکھی ہیں اور ان کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ فریق مخالف کے ارشادات ابھی میڈیا میں آئے بھی نہیں کہ ان ارشادات کے سخت جواب دے دیے جاتے ہیں۔

کیونکہ اس حوالے سے ان جماعتوں کا مواصلاتی نظام اس قدر تیز ہے کہ ادھر مخالفین کے منہ سے کوئی مخالفانہ بات نکلی ادھر سے ترنت جواب میڈیا میں آجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے محترم رکن مراد سعید نے کہا ہے کہ ہم یہاں یعنی ایوان میں عوام کی نمایندگی کرنے آئے ہیں گالی گلوچ کرنے نہیں۔ مراد سعید کی یہ بات درست ہے عوام کے منتخب نمایندے ایوان میں عوام کی نمایندگی کرنے آتے ہیں گالی گلوچ کے لیے نہیں لیکن دیکھا یہی جا رہا ہے کہ سیاسی رہنما ایوان کے اندر ہی نہیں بلکہ جلسے، جلوسوں تقاریر اور پریس کانفرنسوں میں بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اس قدر سخت اور توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہیں کہ یہ حضرات عوام کے منتخب نمایندے نہیں بلکہ سڑکوں کے دادا نظر آتے ہیں ۔ اس حوالے سے قابل شرم بات یہ ہے کہ فریقین نے اپنی اپنی ایسی ٹیمیں تیار کر رکھی ہیں جن کی ذمے داری ہی یہ ہے کہ فریق مخالف کو کھری کھری سنائیں اوراس غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔اخلاقیات بذات خود کوئی کلچر نہیں ہوتا بلکہ کسی کلچرکا سرفیس ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام موجود ہے جس کی اوپری پرت کے طور پر ہم وہ اخلاقی کلچر دیکھ رہے ہیں جو اسمبلیوں جلسوں جلوسوں بیانات اور پریس کانفرنسوں کی زینت بنا ہوا ہے جہاں دہشت گردی خودکش حملوں کا ذکر بے محل نہیں ہوگا جو ہمارے قبائلی نظام کی دین ہے۔ اس بدبختی کوکیا کہیے کہ پسماندہ ملکوں کا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کا حکمران طبقہ بھی دہشت گردی خودکش حملوں کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ان کوششوں میں ان طبقات کو کامیابی اس لیے حاصل نہیں ہو رہی ہے کہ یہ زعما نہ مذہبی انتہا پسندی اور خودکش حملوں کی نظریاتی اساس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہ اس پس منظر میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ نظریاتی سطح پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دشمنی کا کلچر جاگیردارانہ نظام کا بھی حصہ ہے، ہمارے قانون ساز اداروں میں عملاً ابھی تک سیاسی اختلافات سیاسی دشمنیوں میں اور بداخلاقی کے مظاہرے اسمبلیوں میں اس لیے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام مضبوط ہے۔ہمارے احتجاجی نظام میں دھاندلیاں ایک لازمی حصے کے طور پر موجود ہیں، دھاندلیاں بے ایمانیاں بدعنوانیاں سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر حصہ ہیں چونکہ ہم ابھی نیم جاگیردارانہ نیم سرمایہ دارانہ نظام سے گزر رہے ہیں لہٰذا ان کی تمام ’’خوبیاں‘‘ ہمارے جمہوری نظام کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے قانون ساز اداروں میں جو نمایندے منتخب ہوکر پہنچتے ہیں وہ عوام کی آزاد مرضی کے مرہون منت نہیں ہوتے بلکہ سیاسی اورسماجی دباؤکا ذریعے قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں اور انتخابی مہموں پر جو سرمایہ کاری کرتے ہیں اسے سود سمیت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

اس مصروفیت کی وجہ سے ان منتخب نمایندوں کا دھیان عوامی مسائل کی طرف کم اورسرمائے کی واپسی کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔جمہوری نظام میں حزب اختلاف کو اقتدارمیں آنے کے کھلے چانس ہوتے ہیں اور جمہوری ملکوں میں باری باری کا کھیل نہیں ہوتا نہ کوئی حکمران زندگی بھر اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اقتدار سے چمٹے رہیں۔اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حزب اختلاف جب اقتدار سے مایوس ہوجاتی ہے تو پھر اخلاقی ضابطوں کو پس پشت ڈال کر اس کلچر کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔ حزب اقتدار اپنی طاقت اور ریاستی مشینری کی مدد سے انتخابات جیتتی رہتی ہے، اس کلچر کا وہی ردعمل ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔