چین سے پاکستان کی اندھی محبت

بابر ایاز  ہفتہ 25 مارچ 2017
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

سب سے پہلے تو میں حکمت ِ عملی کے پاکستانی فوجی ماہرین کی جائز تعریف کرنا چاہونگا جن پر میں اپنی تحریروں میں اکثروبیشتر تنقیدکرتا ہوں۔2012ء میں جب میں اپنی کتاب کے لیے پس منظرمیں انٹرویوکررہا تھاتوایک حاضر سروس جرنیل نے مجھے بتایا کہ پاکستان کو مستقبل میں توقع سے بہت پہلے امریکی اور چینی بلاک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑیگا۔انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا خیال تھا کہ ہمیں 2020ء میں یہ فیصلہ کرنا پڑیگاجب چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت بن جائے گا،مگر لگتا ہے کہ وہ وقت اب آ گیا ہے۔‘‘ یہ جرنیل یقینا اُس اسٹرٹیجک الائنس کی بات کر رہے تھے جواگرچہ کئی عشروں سے موجود ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کو خاص طور سے1954ء سے، اس علاقے میں امریکا کا پولیس مین سمجھا جاتا ہے۔

میں نے ان کے ساتھ اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ پاکستان کیوں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور بین الاقوامی منظرنامے پر خودکو غیر جانبدار رکھنے کا اعلان نہیں کر سکتاچنانچہ2013ء میں جب صدر زرداری نے اپنے عہدے کی معیاد کے آخری دنوں میں ایک سمجھوتے کے تحت گوادر چین کے حوالے کردیا تو مجھے اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی۔اس سے چین کو بحر ہندتک رسائی اوروسطیٰ ایشیا وایران تک آسان راستہ مل گیا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC)  کا اہم ترین پراجیکٹ ،گوادر سے قراقرم ہائی وے کے راستے چینی صوبے ژنجیانگ تک موٹروے کی تعمیر ہے۔یہ مغربی چین کو اس بندرگاہ کے ساتھ ملانے کا مختصر ترین روٹ ہے۔گوادر خلیج فارس کے دروازے پر واقع ہے جو تیل لانے لے جانے کی ایک بڑی گزرگاہ ہے۔ یہ چین کی میری ٹائم جیو اسٹرٹیجک پالیسی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

اس بات پر بھی کوئی تعجب نہیں ہواکہ موجودہ حکومت نے پاکستان کے لیے کسی زیادہ بہتر لین دین پر بات چیت کیے بغیر CPEC سمجھوتے پر اس جگہ دستخط کردیے جہاں نشان لگایا گیا تھا۔ اب جبCPEC سمجھوتے کے بارے میں جوش و خروش تھم رہا ہے تو یہ اطلاعات آنا شروع ہو گئی ہیں کہ آگے چل کر پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ نہ کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

CPEC معاہدے کے تحت جن مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، حکومت نے ان کی مالیاتی اسٹرکچرنگ کے بارے میں معلومات کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مخفی رکھا ہوا ہے مگر جو باتیں باہر نکلی ہیں ان میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی پیدا کرنیوالے منصوبوں کوایکویٹی پر 17 فیصد ریٹرن دیا جائے گا اور چائنا ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے دیے جانے والے قرضے پرشرح ِ سود6 سے7 فیصد ہو گی۔ یہ اس شرح سے بہت زیادہ ہے جو ہم مختلف کثیرالجہتی اداروں سے حاصل کردہ قرضوںپر ادا کر تے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت نے مسابقتی بولیوں کی شرط کو بھی ختم کردیا ہے۔اس بات پر بھی نظر نہیں رکھی جارہی کہ چینی کمپنیاں، اپنے ملک یا دوسرے ذرایع سے خریدی گئی مشینری کی اصل مالیت سے کس حد تک زیادہ قیمت ظاہرکرتی ہیں۔کاروباری حلقوں میں سب جانتے ہیں کہ منصوبوں کی مالیت اصل لاگت سے زیادہ بتانا اورکک بیک لینا آسان کام ہوتا ہے۔

چار اقتصادی راہداریوں کی تعمیر کے معاملے کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔اساسی ڈھانچے کے ان منصوبوں کی مالیاتی اسٹرکچرنگ پر بجا طور پر بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں مثلاً،ان موٹر وے پراجیکٹس کے لیے حاصل کردہ اراضی میں پاکستان کی ایکویٹی کیا ہو گی، چین کی سرمایہ کاری کتنی ہو گی اور یہ کن کمپنیوں کے ذریعے کی جائے گی، ان منصوبوں کی لاگت کو کس طرح پورا کیا جائے گا۔

کیا یہ تعمیر کرو، چلاؤ اور منتقل کروکی بنیاد پر ہونگے اور حکومت نے کس قسم کے ٹول ٹیکس کے بارے میں سوچ رکھا ہے۔ ان تمام سوالوں کے جواب میں کوئی بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لیے ان میگا پراجیکٹس کی لاگت اورفائدے کے تناسب کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا مشکل ہے۔

جولوگ CPEC ڈیل کی حمایت کرتے ہیں ان کے پاس ایک ہی آسان سا جواب ہے کہ ’’بھکاریوںکے پاس پسند کا اختیار نہیں ہوتا۔‘‘ ان کی منطق بھی بہت سادہ سی ہے کہ پاکستان کو بجلی کے شعبے اورمواصلات کے اساسی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی اور چین جو پاکستان کا عزیزدوست ہے، واحد ملک تھا جو یہ کرنے پر تیار تھا۔یہ بات کسی حد تک سچ ہے ۔چین کی ساری سرمایہ کاری اشیاء اورسروسز میں اضافہ کریگی جس کی عکاسی بالآخر مجموعی قومی پیداوار میں ہو گی مگر یہ حقیقت ہے کہ چینیوں کوٹیکس میں چھوٹ اوراس قسم کی جو متعدد دوسری سہولتیں دی گئی ہیں وہ پاکستان کی معیشت اور وسیع معنوں میں عوام کے لیے مطلوبہ فوائد نہیں لاسکیں گی۔

سرمایہ کاری کے اس سمجھوتے سے کیا کچھ حاصل ہو گا،اس کا فیصلہ بالآخراس بنیاد پرکرنا چاہیے کہ فی کس آمدنی میں اضافہ اور روزگار کے حوالے سے پاکستانی عوام کو کتنا فائدہ ہو گا۔ چین کے لیے یہ اس کی ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پالیسی کے مفاد میں ہے کیونکہ وہ ملک کے مغرب میں اپنے اثرورسوخ کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ محض ایک معاشی سودے سے کہیں زیادہ ہے، یہ بڑھتے ہوئے بھارت امریکا تزویراتی اتحادکا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں چین کے گہرے اسٹرٹیجک مفادات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

مضبوط پاک چین تعلقات کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن ہے حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ سرحد صرف523 کلو میٹر ہے۔اعلانیہ دشمن (بھارت) کے مقابلے میں ایک کمزور اور چھوٹی ریاست کو بھارت کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو شروع ہی سے اس بات کا احساس رہا ہے کہ وہ دو بڑی قوموں بھارت اورچین میں گھرا ہوا ہے۔چین کے ساتھ مستحکم تعلقات کی بعض بڑی وجوہات یہ ہیں: اول، چینیوں نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے، دوئم، وہ پاکستان کی بدنظمی کی شکار داخلی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے اور سوئم، وہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں جوابی توازن پیدا کرنے والی قوت سمجھتے ہیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی(NDU) کی طرف سے 2012ء میں جاری کی جانیوالی مصدقہ رپورٹ میں پاک چین تعلقات کی بہترین انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’پاک چین تعلقات بے مثال اورپائیدار ہیں۔دونوں ملکوں میں عقیدے کا مختلف نظام ہے مگر اس کے باوجود دوستی اعلیٰ درجے کے اعتماد میں بندھی ہوئی ہے۔ یہ دوستی کئی سطحوں پر، خاص طور سے سیاسی اورسلامتی کے دائروں میں ایک جامع شراکت داری میں پہنچ کر بالغ ہوئی ہے، بیجنگ کی علاقائی سلامتی کی سوچ میں بھی یہ یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ پاک چین تعلقات کے فیصلہ کن لمحات کی تاریخ 1956ء سے دیکھی جاسکتی ہے، جب اعلیٰ سطح دورے شروع ہوئے اور پھر1963ء میں جب ٹرانس قراقرم ٹریکٹ ٹریٹی ہوا۔‘‘ (توجہ طلب ہے)

1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین کی مدد حقیقی موڑ تھا۔اُس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا سے خاصی مایوس تھی جس نے اس بنیاد پر فوجی سامان کی سپلائی روک دی تھی کہ پاکستان نے اس وعدے کی خلاف ورزی کی ہے کہ اسے دیا جانے والا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ انوار ایچ سید کہتے ہیں کہ’’ پاکستان کے اتحادیوں میں سے ایران اور ترکی نے جوش وخروش سے مدد کی، جیسا کہ اردن شام، سعودی عرب اور انڈونیشیا جیسے دوستوں نے کی مگر پاکستان کے تمام دوستوں میں سے چین کی آواز سب سے زیادہ گرج دار تھی۔‘‘

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک بار پھر چین نے پاکستان کی مدد کی۔اس نے الزام لگایا کہ بھارت نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ چین نے اس وقت موجود سمجھوتوں کے تحت فوجی سازوسامان کی سپلائی جاری رکھی اوراقوام ِ متحدہ میں پاکستان کے موقف کی سیاسی حمایت کی چنانچہ پاکستان کے لیے CPEC،جیسا کہ نام ظاہر کرتا ہے، صرف اقتصادی ا ہمیت ہی کی حامل نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت کسی ممکنہ بھارتی جارحیت کے خلاف اس کی مدد کریگی۔ امریکا اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک مذاکرات، پاکستان کواور زیادہ چینی کیمپ میں دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان نے رفتہ رفتہ چین کی طرف بڑھتے ہوئے، بہت دوری پر واقع سپر پاورامریکا پر مکمل انحصار کا راستہ تبدیل کیا ہے۔

(کالم نگار فری لانس صحافی ہے،رسائی کے لیے ([email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔