درویشوں سے دور رہو

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 25 مارچ 2017

ٹالسٹائی وہ ادیب تھا جسے اپنی زندگی ہی میں Legend کادرجہ حاصل ہوگیا تھا، ٹالسٹائی کوگاندھی نے ’’عیسیٰ کاآخری حواری کا نام دیا اور ساؤتھ افریقہ میں قائم اپنے آشر م کا نام ’’ٹالسٹائی کالونی‘‘ رکھ دیا ۔ ’تین سوال‘ ٹالسٹائی کا ایک اہم افسانہ ہے۔ آئیں ’’تین سوال‘‘ کے چند اقتباسات پڑھتے ہیں’’ایک دفعہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اگراسے تین چیزیں معلوم ہوجائیں تو اسے کبھی بھی شکست کا منہ دیکھنا نہ پڑے اور جس کام میں ایک دفعہ ہاتھ ڈال دے حسب خواہش انجام پذیر ہوجائے۔

جن تین چیزوں نے اس پر رات کی نیند حرام کردی وہ یہ تھیں (1) کسی کام شروع کرنے کا کون ساموزوں وقت ہے۔ (2) کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اورکن اشخاص سے پرہیزکرنا چاہیے۔ (3) دنیا میں سب زیادہ اہم اورضروری چیزکیا ہے۔ رفتہ رفتہ اس خیال نے بادشاہ کے دل میں جگہ کرلی اوروہ ہروقت اسی جستجو میں رہنے لگا کہ کسی نہ کسی طرح اسے ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب حاصل ہوجائے۔اسی غرض کے لیے اس نے ملک بھر میں منادی کرادی جوکوئی اس کے سوالوں کا صحیح جواب دے گا۔اس کا منہ موتیوں سے بھردیاجائے گا۔ ملک کے ہرگوشے سے بڑے بڑے عالم وفاضل بادشاہ کے حضورمیں آئے مگر ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

جب علما وفضلا سے خاطرخواہ جوابات نہ مل سکے تو ایک دن بادشاہ نے ایک فقیرکے پاس جو اپنی ریاضت اوربزرگی کے سبب ملک بھر میں مشہور تھا،جانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ ایک دن بادشاہ معمولی دہقان کا بھیس بدل کراس فقیر کی جھونپڑی پر پہنچا تو دیکھا کہ فقیر زمین کھودنے میں مصروف ہے۔ بادشاہ کو دیکھ کر فقیر نے سلام کیا لیکن کچھ کہے سنے بغیراپنے کام میں مصروف ہوگیا۔بادشاہ اس مرد لاغرکے قریب گیا اورکہا ’’ اے عقل منددرویش میں تیری خدمت میں تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں کیا تو ان تینوں سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔‘‘ فقیر نے کوئی جواب نہ دیااورکدال پکڑکر پھر زمین کوکھودنا شروع کردیا ۔

’’تم کدال چلاتے چلاتے تھک گئے ہوکدال مجھے پکڑا دو اورتھوڑی دیر آرام کرلو‘‘ بادشاہ نے فقیر سے کہا ’’شکریہ‘‘ یہ کہہ کر فقیر نے کدال بادشاہ کو پکڑا دی۔ دوکیاریاں کھودنے کے بعد بادشاہ نے اپنے سوالات پھر دہرائے لیکن فقیرخاموش رہا۔ بادشاہ اسی طرح زمین کھودتا رہا، آخر تنگ آکرکہنے لگا ’’میں تیری خدمت میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ تو میرے سوالات کا جواب دے گا، اگر تونہیں دے سکتا تو صاف کہہ دے تاکہ میں واپس چلا جاؤں۔‘‘ ’’وہ دیکھوکون بھاگا چلا آرہاہے،آؤدیکھیں تو یہ کون ہے‘‘ درویش نے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بادشاہ نے مڑکردیکھا کہ ایک آدمی جنگل کے گھنے درختوں کے باہر ان کی طرف بھاگا چلا آرہا ہے، وہ آدمی اپنے پیٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھا جس سے خون فوارے کی مانند بہہ رہا تھا۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر وہ شخص بے ہوش ہوکر زمین پرگر پڑا۔ درویش اور بادشاہ نے مل کر اس کے کپڑے اتارے تو معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک بڑا سا زخم ہے۔

بادشاہ خون سے تر پٹی اتارتا گیااوراسے اچھی طرح دھوکر پھراس کے زخم پر باندھتا گیا۔اس عمل کو بار بار دہرانے سے خون نکلنا بند ہوگیا، خون بند ہوجانے کے بعد اس شخص کو ہوش آگیا اور اس نے اشارے سے پانی مانگا اس پر بادشاہ دوڑتا ہوا گیا اورکنویں سے پانی لاکراسے دے دیا پھر وہ شخص سوگیا ’’مجھے معاف کردیجیے‘‘ صبح بیدار ہوکر اس نے بادشاہ سے کہا ’’میں تمہیں نہیں جانتا پھر یہ معافی کی درخواست کیسی‘‘ بادشاہ نے زخمی سے دریافت کیا ’’آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ کو اچھی طرح جانتاہوں میں آپ کا دشمن ہوں وہ دشمن جس کے بھائی کو قتل کرواکر آپ نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا ۔مجھے معلوم تھا کہ آپ درویش کو ملنے باہرآئیں گے، میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ واپسی پرآپ کو قتل کردوں گا، مگر آپ کے محافظوں سے مجھے دوچار ہونا پڑا۔انھوں نے مجھے پہچان لیا اور مجروح کردیا ، میں آپ کی موت کا خواہاں تھا، مگر آپ نے میری جان بچائی بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ وعدہ کیا کہ وہ اس کے علاج کے لیے شاہی حکیم اور شاہی نوکر مقرر کردیگا اوراس کے جائیدادیں بھی واپس کردے گا۔

زخمی سے رخصت لے کر بادشاہ درویش کے پاس گیا اورکہنے لگا عقلمند درویش میں تیری خدمت میں پھر حاضر ہوا ہوں کہ تو میرے سوالوں کا جواب دے ’’تمہارے سوالوں کا جواب تو مل گیا اب کیا چاہتے ہو‘‘ درویش بولا ’’وہ کس طرح‘‘ سنو ’’اگر کل تم میری کمزوری کاخیال کرتے ہوئے کیاریاں کھودنے کے لیے نہ ٹہرتے تو تمہارا دشمن تم پر ضرور حملہ آور ہوتا۔چنانچہ وہ وقت ہی تمہارے لیے موزوں تھا جب تم زمین کھودنے میں مصروف تھے۔ میری ذات ہی اس وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور تمہاری ہمدردی کا اظہار ہی سب سے زیادہ ضروری اوراہم کا م تھا۔

اس کے بعد جب زخمی شخص ہماری طرف آرہا تھا تو تمہارے لیے کسی اچھے کام کے لیے وہی وقت موزوں تھا جب تم اس کے زخموں کی مرہم پٹی کررہے تھے کیونکہ اگر اس کی اچھی نگہداشت نہ کرتے تو تمہارا ایک جانی دشمن تمہارے ساتھ صلح کیے بغیراس جہان سے رخصت ہوجاتا، پس وہ شخص ہی اس وقت سب سے زیادہ ضروری اوراہم کام تھا۔اس لیے یاد رکھو کہ کسی خاص کام کے لیے صرف ایک ہی وقت موزوں ہوا کرتا ہے جب کہ ہم میں اتنی قوت ہوکہ ہم اسے سرانجام دے سکیں سب سے زیادہ ضروری شخص وہ ہی ہوتا ہے جس کے ساتھ تم اس وقت موجود ہوکیونکہ اس بات کا معلوم کرنا کہ اس شخص کے سوا تمہیں کسی اور شخص سے بھی واسطہ پڑے گا۔انسان کے فہم وقیاس سے بالا ہے اور سب سے ضروری کام اس شخص کے ساتھ نیکی کرنا ہے کیونکہ خدا نے انسان کوصرف اسی غرض سے دنیا میں بھیجا ہے‘‘ ہر انسان کو اپنی زندگی میں ان ہی تینوں سوالوں کا بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جن پر خدا مہربان ہوتا ہے تو انھیں عقل مند درویش فوراً مل جاتے ہیں اورجن پرخدا مہربان نہیں ہوتا تو پھر وہ ہمارے حکمرانوں کی طرح ساری زندگی ان ہی سوالوں کے جواب کے لیے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اوراکثر تو جواب ملے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اگر میرا بس چلے تو میں ملک کے ہر طاقت واختیارکے ایوانوں میں ٹالسٹائی کا یہ افسانہ ہر ہر دیوار پر چسپاں کردوں تاکہ ہمارے ہر طاقتور اور بااختیارکو بغیر ڈھونڈے ہی ان سوالوں کے جواب مل جائیں تاکہ وہ بھی چین سے جی سکیں اور دوسروں کو بھی چین سے جینے دیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ نہ تو اب عقلمند دوریش رہے اور نہ ہی اس بادشاہ جیسی تڑپ ہمارے حکمرانوں میں ہے۔ اس لیے وہ بھی اندھیروں میں اپنا سر پھوڑتے پھررہے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم بھی اندھیروں سے ٹکرا ٹکرا کر اپنے آپ کوگھائل کیے جارہے ہیں۔

انھیں یہ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ خدا نے انسانوں کوکس غرض سے دنیا میں بھیجا ہوا ہے، وہ اپنی عقل ودانست کے مطابق ان تینوں سوالوں کا یہ جواب نکالے بیٹھے ہیں۔ (1) اپنے فائدے کے کسی بھی کام کو شروع کرنے کا ہرو قت موزوں ہے۔ (2) بے ایمانوں سے صحبت رکھنی چاہیے اور ایمانداروں سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ (3) دنیا میں سب سے اہم کام اور ضروری چیز یہ ہے کہ ہر دن کو آخری دن سمجھتے ہوئے اپنے بینک بیلنس، جائیداد، روپے پیسوں کے ڈھیر، محلات اور ملوں میں اضافہ کرتے رہناچاہیے اورسب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ خدا نے انسان کو صرف بدی کر نے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے،اس لیے بس بدی پر بدی کیے جاؤ اورکبھی بھی عقلمند درویشوں کو اپنے قریب بھی پھٹکنے مت دو،کیونکہ و ہ تو بر ے حالوں میں ہیں ہی بیکارکی باتیں کرکے ہمار ابھی حال اپنا ہی جیسا نہ کردیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔