’’آلودہ پانی ایک وسیلہ بھی اور ایک مسئلہ بھی‘‘

محمد عاطف شیخ  اتوار 26 مارچ 2017
پاکستان کا شمار وسطی اور مغربی ایشیاء کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی کا نمایاں حصہ شہروں میں آباد ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کا شمار وسطی اور مغربی ایشیاء کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی کا نمایاں حصہ شہروں میں آباد ہے۔ فوٹو : فائل

ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ یہ ضرب المثل زندگی کے کئی ایک پہلوئوں پر صادق آتی ہے اور پانی کے حوالے سے بھی یہ اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ایک لیٹر آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) آٹھ لیٹر صاف پانی کو گندا کر دیتا ہے، یوں ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 12ہزار مکعب کلومیٹر پانی آلودہ ہوتا ہے۔

روز بروز پانی کی قلت کی طرف بڑھتی دنیا کے لئے یہ اعداد وشمار لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔کیونکہ دنیا کو ایک طرف تو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس کی40 فیصد آبادی پانی کی قلت کے حامل ممالک میں آباد ہے۔ اور ہر روز چڑھنے والا نیا سورج اضافی پانی کی ضروریات لئے طلوع ہو رہا ہے۔ تو دوسری جانب ہم ہر سال اتنا آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) پیدا کرتے ہیں جومقدار میں دنیا کے بڑے دریائوں میں موجود پانی کے برابر ہے۔ 1500 مکعب کلومیٹر مقدار پر مبنی پیدا ہونے والا آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) آج دنیا بھر کے لئے ایک وسیلہ بھی ہے اور ایک مسئلہ بھی۔

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی، معیاز زندگی میں بہتری، معاشی ترقی اور شہروں کی وسعت پذیری کے باعث آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی پیداواری مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایسے میں اسے اکٹھا کرنا، اس کو کشید (ٹریٹ) کرنا اور اس کا محفوظ استعمال یا تلف کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) ایسے پانی کو کہتے ہیں جو ایک یا اس سے زائد اخراج کا امتزاج ہو۔ جس میں گھریلو اخراج کا کالا اور سلیٹی(گرے) پانی( کالا پانی انسانی فضلے اور کیچڑ کی آمیزش کا حامل اور سلیٹی پانی باورچی خانہ اور غسل خانہ کا اخراج شدہ پانی ہوتا ہے ) اس کے ساتھ ساتھ اس میں تجارتی اور ادارتی عمارتوں کا اخراج، طوفانی پانی اور دیگر شہری پانی کا اخراج شامل ہے۔ علاوہ ازیں زرعی، باغبانی اور ماہی پروری کے تحلیل شدہ اجزا یا غیرتحلیل شدہ اجزا پر مشتمل آلودہ پانی کا اخراج بھی آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) کے زمرے میں آتا ہے۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کو وسیلہ کے طور پر آج دنیا بھر کے 20 کروڑ کسان ( کشید شدہ یا غیر کشید شدہ حالتوںمیں) آب پاشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ غیر کشید شدہ پانی سے دنیا بھر میں 40 لاکھ سے 2 کروڑ ہیکٹر تک رقبہ سیراب کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کشید شدہ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) سے آب پاشی بڑھ رہی ہے اور ایسا بہت سے ترقی پذیر ممالک میں نہیں ہے جہاں کشید کی سہولیات غیر موزوں ہیں ۔ اور آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی بڑی مقدار بغیر کشید کے کاشت کار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا وہ اس لئے کرتے ہیں کے یہ سال بھر دستیاب رہنے والا واحد ذریعہ ہے۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی آبپاشی اُنھیںکھاد کی خریداری سے محفوظ رکھتی ہے۔ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) زیر زمین سے پانی کے حصول پر خرچ ہونے والی توانائی کے اخراجات سے بچاتا ہے ۔ مفت دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ یہ شہری علاقوں کے اردگرد کے کسانوں کو اس قابل کرتا ہے کہ وہ مقامی مارکیٹ کے لئے زیادہ مالیت کی حامل سبزیاں اُگا سکیں۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کا دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو ایک بڑے مسئلہ کی صورت میں سامنا بھی ہے۔ کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی کشید گی کا رجحان نہایت کم ہے اور آبادی میں اضافہ کی رفتار کے مقابلے میں آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی کشیدگی کی سہولیات میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

yale یونیورسٹی کے سینٹر فار انوائر مینٹل لاء اینڈ پالیسی کی رپورٹ ’’ دی انوائر مینٹل پر فارمنس انڈیکس 2016 ‘‘ کے مطابق دنیا کا80 فیصد سے زائد آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کا بغیر کسی کشید کے قدرتی ماحول میں اخراج کر دیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اور گمبھیر ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی سیک (Sick)واٹر نامی دستاویز کے مطابق ترقی پذیر دنیا میں 90 فیصد آلودہ پانی کو کشید (ٹریٹمنٹ) کے بغیر دریائوں، جھیلوں اور سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ویسٹ واٹر مینجمنٹ اے یواین واٹر انیلیٹیکل بریف نامی رپورٹ بتاتی ہے کہ آلودہ پانی( ویسٹ واٹر) کی کشید کی صلاحیت کا انحصار ملک کی معاشی حالت پر منحصر ہے۔

زیادہ آمدن کے حامل ممالک میں70 فیصد اخراج شدہ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کو کشید کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ کم آمدن کے حامل ممالک میں یہ صرف8 فیصد ہے۔کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے بہت سے شہر آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی بہتر انتظام کاری (منجمنٹ)کے موزوں ڈھانچے اور وسائل سے محروم ہیں۔ اور اس پر ان کا بڑھتا ہوا پھیلائو روزبروز پیدا ہونے والے آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی مقدار میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت دنیا کی 50 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ جو کہ 2050 تک بڑھ کر 70 فیصد ہوجائے گی۔ یوں شہر آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کے بڑے ماخذ ہیں اور مزید ہو جائیں گے۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کی بہتر انتظام کاری کی غیر موجودگی کے تین بنیادی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک ماحول پر اور دوسرا صحت پر اور تیسرا معاشی سرگرمیوں پر۔ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کے بغیر کشید اخراج کے ماحولیاتی اثرات کی ایک صورت سمندر میں ڈیڈزونز کی بڑھتی تعداد ہے۔ اور اس وقت 150 ایسے زونز کی نشاندہی ہو چکی ہے جو ایک مربع کلومیٹر سے 70 ہزار مربع کلومیٹر طویل ہیں۔ 1990 سے اب تک ان ڈیڈ زونز کی تعداد دگنا ہو چکی ہے۔

اقوام ِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی سیک واٹر (Sick Water ) نامی رپورٹ کے مطابق اس وقت 2 لاکھ 45 ہزار مربع کلومیٹر سمندر کا ایکو سسٹم آلودہ پانی کے بغیر کشید سمندر میں اخراج سے متاثر ہو چکا ہے۔ جس سے مچھلی اور دیگر حیاتیاتی اجسام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔کیونکہ دنیا کے 23 میگا شہروں میں سے 21 سمندر کنارے آباد ہیں۔ اور 1.6 ارب سے زائد افراد ساحلی شہروں میں آباد ہیں۔ جن کا روزمرہ زندگی کے معمولات کے باعث پیدا شدہ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کا اخراج ساحلی حیاتیاتی تنوع کو بہت متاثر کر رہا ہے اور اس کی بہتر انتظام کاری کی غیر موجودگی سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

پیسیفک انسٹی ٹیوٹ کے ورلڈ واٹر کوالٹی فیکٹس اینڈ اسٹیٹسٹکس کے مطابق آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کے بغیر کشید اخراج سے متاثر ہونے والے دریائوں اور جھیلوں میں موجود زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں24 فیصد میمل اور 12 فیصد پرندے جن کا انحصار/ تعلق دریائوں اور جھیلوں سے ہے خطرے کا شکار ہیں ۔کچھ علاقوں میں تازہ پانی کی مقا می اقسام کی 50 فیصد سے زائد مچھلیاں معدومی کے خطرے میں گھری ہوئی ہیں۔ اور دنیا کے ایک تہائی جل تھلیے بھی معدوم ہونے کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) کے ہماری صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے شہروں میں پینے کے پانی کی اور سیوریج لائینوں کا رسائو (لیکج) اور دریائوں اور جھیلوں میں ویسٹ واٹر کا بے دریغ اخراج لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں1.8 ارب افراد ایسا پانی پینے پر مجبور ہیں جو انسانی فضلہ کی آمیزش رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ ہیضہ، پیچش، ٹائیفائیڈ اور پولیو جیسی بیماریوں کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ غیر محفوظ پانی، کمزور نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کی بھینٹ ہر سال 18 لاکھ بچے جن کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے چڑھ جاتے ہیں۔ یعنی ہر 20 سیکنڈ میں ایک موت۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہسپتالوں کے آدھے سے زائد بستر ایسے مریضوں کے تصرف میں رہتے ہیں جو آلودہ پانی سے پیدا ہونے والے امراض کا شکار ہوتے ہیں ۔

آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر) معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ صنعتی آلودہ پانی اور کیمیکلز کی آمیزش کے حامل میونسپل ویسٹ واٹر پینے کے پانی کے ذخائر اور زمین کی زرخیزی کو متاثر کرتا ہے اور اگر اس پانی کو آبپاشی کے لئے براہ راست استعمال کیا جائے تو یہ اپنے تابکاری اثرات کے باعث زرعی پیداوار اور معیار پر سنگین اثرات اور پودے کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی ( ویسٹ واٹر)کی غیر موزوں انتظام کاری کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے صحت پر ہونے والے اخراجات کے بڑھنے اور بیمار ہونے کے باعث کارکنوں کی پیداواری صلاحیت کے متاثر ہونے سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے لئے آلودہ پانی ایک بھر پور وسیلہ بھی ہے اور بہت سنگین مسئلہ بھی۔ وسیلہ اس لئے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ٹاپ36 ممالک میں ہوتا ہے جو پانی کی کمی کے دبائو کا شکار ہیں اور ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان ممالک میں پاکستان 26 ویں نمبر پر ہے۔

سائنٹیفک ریسرچ پبلیکشن کے ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق ملک میں فی کس پانی کی دستیابی جو کہ 1951 میں 5000 مکعب میٹر تھی 2015 تک کم ہوکر1000 مکعب میٹر کی اُس حد تک آچکی ہے جس پر آنے کی وجہ سے ملک کا شمار پانی کی قلت کے حامل ممالک میں ہونا شروع ہو چکا ہے اور اس نے ملک کی اقتصادی ترقی اور انسانی صحت اور بہبود کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے ۔ ایسا ہونے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں اضافہ اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے۔

ملکی آبادی میں1951 سے2015 تک 468 فیصد اضافہ ہو چکا ہے وہیں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میںخاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے لئے اُس کے پانی کے وسائل کی بوند بوند بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اور ملک میں پیدا ہونے والا آلودہ پانی( ویسٹ واٹر) ایک بہت بڑے وسیلے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر اُسے کشید کر لیا جائے تو ۔ کیونکہ پاکستان میں ہر سال 962335 ملین گیلن آلودہ پانی( ویسٹ واٹر) پیدا ہوتا ہے۔ یعنی 9 ارب 98 کروڑ 3 لاکھ 67 ہزار 8 سو لیٹر روزانہ ۔ جسے کشید کر لیا جائے تو یہ 5 کروڑ 54 لاکھ 46 ہزار سے زائد آبادی کو روزانہ بنیادی ضروریات (اس میں گھر کی صفائی کے لئے اوسطً 50 لیٹر فی کس روزانہ، بیت الخلاء کے لئے اوسطً 70 لیٹر فی کس روزانہ اور گھریلو کاشت/ باغبانی کے لئے اوسطً 60 لیٹر فی کس روزانہ شامل ہیں۔

یہ مقدار عالمی ادارہ صحت کی کم سے کم پانی کی گھریلو سطح کی فی کس روزانہ ضروریات کی حد ہے) کی تکمیل کے لئے پانی مہیا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شہروں کے اردگرد زراعت اور باغبانی کے لئے پانی فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ جس سے صحت مند اور تازہ زرعی اجناس و پھل شہریوں کو دستیاب ہوں گے۔

آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) پاکستان کے تناظر میں مسائل کا باعث یوں بنتا ہے کے یہ ہمارے سطح زمین اور زیر زمین پانی کے وسائل کی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔کیونکہ ملک میں پیدا شدہ آلودہ پانی کا صرف 8 فیصد سطحی نوعیت کی ٹریٹمنٹ پاتا ہے ۔ اور باقی غیر کشید شدہ پانی دریائوں، جھیلوں اور سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 392511 ملین گیلن آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) ملک کے بڑے دریائوں میں ڈالاجاتا ہے ۔ یعنی ملک میں پیدا ہونے والے ویسٹ واٹر کا 41 فیصد دریائوں کی نذر ہوتا ہے۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف سائل اینڈ انوائرمینٹل سائنسز کی رپورٹ ویسٹ واٹر پروڈکشن، ٹریٹمنٹ اینڈ یوز اِن پاکستان کے مطابق دریائوں میں ہر سال ڈالے جانے والے آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) میں سے316740 ملین گیلن میونسپل اور 75771 ملین صنعتی اخراج پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس بین الاقوامی تحقیق کو سامنے رکھا جائے کہ ایک لیٹر آلودہ پانی 8 لیٹر صاف پانی کو خراب کر دیتا ہے تو ہر روز ہمارے دریائوں میں خارج ہونے والا 4 ارب 70 کروڑ 7 لاکھ سے زائد آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) مزید32 ارب 56 کروڑ 58 لاکھ 24 ہزار لیٹر کو روزانہ آلودہ کر رہا ہے۔ کیا پانی کی قلت کا شکار ہمارا ملک جس کے پانی کو بھارت زبردستی ہتھیا رہا ہے اتنے مزید نقصان کا متحمل ہوگا؟

پاکستان پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ اس کے معیار کے بحران کا بھی شکار ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق ملک کی آبادی کی اکثریت کو سطح زمین اور زیر زمین وسائل سے حاصل ہونے والے پانی کی آلودگی کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں بیماریوں کا40 فیصد پینے کے ناقص پانی کے باعث ہے۔ اور 2 لاکھ 50 ہزار بچے ہر سال اسہال کے باعث مرتے ہیں۔ جبکہ ملک کے ہسپتالوںکے20 سے40 فیصد بستر گندے پانی سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے مریضوں کے زیر استعمال رہتے ہیں۔

اکنامک سروے آف پاکستان2015-16 کے مطابق پینے کے ناقص پانی سے ہونے والے امراض ملک کو سالانہ 380 سے883 ملین ڈالر کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لئے اقوامِ متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان پینے کے پانی کے معیار کو قائم رکھنے والے ممالک کی درجہ بندی میں 122 ممالک میں 80 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان میں آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) کی پیداوار اور ٹریٹمنٹ کی صورت حال کا اندازہ ایگری کلچرل واٹر مینجمنٹ نامی بین الاقوامی ریسرچ جرنل میں چھپنے والے ایک تحقیقی مقالہ Global, regional, and country level need for data on wastewater generation, treatment, and use سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے تجزیہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 113 ممالک ( جن کے اعداد وشمار دستیاب ہیں) میں سے 12 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اس پانی کی کشید (ٹریٹمنٹ) کے حوالے سے 103 ممالک ( جن کے اعداد وشمار دستیاب ہیں) میں 35 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان کا شمار وسطی اور مغربی ایشیاء کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی کا نمایاں حصہ شہروں میں آباد ہے۔ اور1951 سے ہر سال ملک کی شہری آبادی میں اضافہ کی رفتار4 فیصد سالانہ ہے اور2030 تک ملک کی 60 فیصد آبادی شہروں میں سکونت پذیر ہوگی ۔ آلودہ پانی (ویسٹ واٹر)کی پیداوار کاایک بنیادی ماخذ یہ شہری علاقے بھی ہیں۔ پاکستان کی نیشنل سینیٹیشن پالیسی کے مطابق ہمارے درمیانے اور بڑے سائز کے شہروں میں زیر زمین نکاسی آب کا نظام عدم توجہی اور کمزور انتظام کاری کی وجہ سے بیٹھ سکتا ہے۔

بہت سا نکاسی آب کا نظام اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آلودہ پانی (ویسٹ واٹر) بغیر کسی کشید کے براہ راست صاف پانی کے ماخذ میں خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی 30 فیصد شہری آبادی کچی آبادیوں اور جھگی بستیوں میں آباد ہے جہاں پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولیات غیر موزوں اور ناکافی ہیں۔ عوامی بیت الخلاء کی ہمارے شہروں میں شدید کمی ہے اور جو ہیں بھی تو اُن کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ چھوٹے شہروں اور گائوں کی سطح پر تو یہ سہولت بالکل ناپید ہے۔اور اوپر سے ملک کے 13 فیصد گھروں میں لیٹرین کا نہ ہونا صورتحال کو اور نازک بنا دیتا ہے۔

ہمیں اس حقیقت کا جلد ادراک کر نا ہوگا کہ مستقبل میں پانی کی ضروریات کو اُس وقت تک پورا نہیں کیا جا سکتا جب تک آلودہ پانی کی بہتر انتظام کاری کو یقینی نہ بنایا جائے۔ اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے گول نمبر 6 کا ٹارگٹ نمبر3 بھی آلودہ پانی کی بہتر انتظام کاری سے پانی کے معیار کو بہتر بناتے ہوئے غیر کشیدہ پانی کے تناسب کو 2030 تک 50 فیصد کم کرنے کے بارے میں ہے۔ آلودہ پانی کی بہتر انتظام کاری ہماری ضرورت بھی ہے اور ہمارا عالمی برادری سے وعدہ بھی، بس ضرورت ہے تو بہتر حکمت عملی اور اُس کے موثر اطلاق کی۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟
٭ امریکی گھروں میں سالانہ ایک ٹریلین گیلن پانی (ایک امریکی گیلن 3.785 لیٹر کے برابر ہے) رسائو (Leakage) کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے جوکہ ایک کروڑ 10 لاکھ امریکی گھروں کی روزانہ پانی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔
٭ ترقی یافتہ ممالک میں اوسطً 282 لیٹر پانی فی کس استعمال ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں20 لیٹر فی کس ۔

پانی کا دانشمندانہ استعمال کیسے؟
٭ گھروں میں استعمال ہونے والے پانی کا 75 فیصد بیت الخلاء/ غسل خانہ میں استعمال ہوتا ہے اس لئے نلکوں کو ٹھیک طرح بند کریں اور اگر ٹونٹی ٹپکتی ہے تو اُسے ٹھیک کروائیں کیونکہ کسی ایک نلکے سے رسنے والا پانی کا ایک قطرہ روزانہ 30 لیٹر پانی کے ضائع ہونے کا باعث بنتا ہے ۔
٭ دانت صاف کرنے کیلئے ایک گلاس پانی کا استعمال کریں ایسا کرنے سے 5 سے 10 لیٹر پانی فی منٹ بچایا جا سکتا ہے۔
٭ جب آپ شیو کر رہے ہوں یا منہ دھو رہے ہوں تو سینک میں پانی جمع کر لیں یوں آپ 12 لیٹر پانی فی منٹ بچا سکتے ہیں۔
٭ نہاتے وقت جب آپ صابن استعمال کر رہے ہوں تو شاور کو بند کر دیں ،آپ 150 لیٹر پانی فی شاور بچا سکتے ہیں۔
٭ 10 منٹ کی بجائے 5منٹ شاور لینے سے 48 لیٹر پانی بچ سکتا ہے۔
٭ نہانے کے ٹب کو پورا بھرنے کی بجائے آدھا یا اس سے کم بھرنے سے 46 لیٹر پانی فی غسل بچا یا جا سکتا ہے۔
٭ سردیوں میں جب آپ نہانے کیلئے شاور کھول کر گرم پانی کے انتظار میں پانی کو بہنے دیتے ہیں اگر آپ گرم پانی کے آنے سے پہلے تک بہہ جانے والے پانی کو جمع کر لیں تو اس سے آپ 15 سے25 لیٹر پانی فی منٹ بچا سکتے ہیں اور یہ پانی گھروں کی صفائی، پودوں کو پانی دینے، گاڑی یا موٹر سائیکل دھونے وغیرہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭ شاور سے لیک ہونے والے فی منٹ10 قطرے سال بھر میں 1893 لیٹر پانی کے بے مصرف بہہ جانے کا باعث بنتے ہیں۔
٭ فلش ٹینک میں بوتل یا پتھر یا اینٹ رکھ دیں ایسا کرنے سے اس سے ٹینک کے حجم میں کمی واقع ہوگی اور ٹینک میں پانی کم مقدار میں آئے گا۔ یوں آپ فی فلش تین سے چار لیٹر کم پانی استعمال کریں گے۔
٭ فلش کے خراب ہونے کے باعث پانی کے مسلسل بہنے سے سالانہ 275578 لیٹر پانی ضائع ہو جا تا ہے۔
٭ استعمال شدہ ٹشو پیپر یا ٹوائلٹ پیپر کو فلش میں پھینکنے کی بجائے کچرہ دان میں ڈالیئے ،آپ6 سے 12 لیٹر پانی ہر بار بچا سکیں گے۔
گھریلو امور میں پانی کی بچت کی ٹپس
٭ جب کپڑے مشین کے پورے ٹب کے بھرنے جتنے ہو جائیں تب دھوئیں، اس سے 57 سے170 لیٹر پانی فی لوڈ بچے گا۔
٭ کھلے نلکے کے نیچے 10منٹ تک برتن دھونے سے 100 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ لہذا برتن دھونے کے لئے کسی بائول میں صابن یا لیکویڈ کا پانی تیار کر لیں اور اس پانی سے برتن صاف کرنے کے بعد سینک کے ٹب میں پانی جمع کر کے اس سے برتن صاف کر لیں ۔
٭ سبزیاں اور پھل نلکے کے نیچے دھونے کی بجائے کسی برتن میں پانی لے کر اس میں ڈبو کر دھو لیں۔
٭ فریزر کی جمی ہوئی چیز کو نلکے کے نیچے پگھلانے کی کوشش نہ کریں بلکہ استعمال سے کافی پہلے فریزر سے باہر نکال کر رکھ دیں یا پھر ایک دن پہلے اسے فریزر سے فریج میں منتقل کر دیں۔
٭ پودوں کو سیلابی طریقہ سے پانی دینے کی بجائے قطراتی طریقہ کار کے ذریعے پانی دیں۔
٭ دن کے وقت لان کو پانی دینے سے گرمی اور ہوا کے باعث20 سے 25 فیصد پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے اس لئے پانی دن کے آغاز کے حصہ میں دیں اور وہ بھی جب ضرورت ہو۔
٭ گاڑی پائپ سے دھونے کی بجائے بالٹی میں پانی لے کر دھوئیں ۔ اور اگر پائپ سے گاڑی دھونی ہے تو پائب کے منہ پر پریشر نوزل لگا کر دھوئیں۔کیونکہ بغیر نوزل پائپ سے گاڑی دھونے پر 100 سے300 لیٹر پانی خرچ ہو تا ہے اور بالٹی سے 10 تا 30 لیٹر ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔