آزادی مذہبی دل آزاری کا نام نہیں

ایڈیٹوریل  اتوار 26 مارچ 2017
، فوٹو؛ پی آئی ڈی

، فوٹو؛ پی آئی ڈی

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیرصدارت مسلم ممالک کے سفیروں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے خلاف گستاخانہ مواد پر وزارت خارجہ تمام قانونی و تکنیکی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی پر مبنی ایک پیپر تیار کرے گا جس پر مسلم ممالک کی جانب سے جواب آنے کے بعد معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے گا۔

میڈیا کے مطابق جمعہ کو وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی صدارت میں پنجاب ہاؤس میں 25مسلم ممالک کے سفیروں کا اجلاس ہوا جس میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے ایک نکاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ اس معاملے پر پوری مسلم دنیا کی طرف سے مؤثر آواز بلند کی جا سکے۔

اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ عرب لیگ اور اوآئی سی کے سیکریٹری جنرلز کو ایک رسمی ریفرنس بھیجا جائے گا جس میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اور اس سے دنیا بھرکے مسلمانوں کی دل آزاری کے معاملہ کو اٹھایا جائے گا۔ ایسے ممالک جہاں سے اس طرح کا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر ڈالا جا رہا ہے، وہاں کی عدالتوں میں اس معاملہ کو قانونی طور پر اٹھانے کے حوالہ سے قانونی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی اور مذہبی عقائد کو مسخ کرنا ناقابل برداشت ہے، کوئی بھی قانون کسی مذہب کو بگاڑنے یا اس کا احترام ملحوظ نہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمان جو دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں کو دہشتگردی کا ارتکاب کرنیوالوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مسلم امہ کو بین الاقوامی برادری کو اسلام فوبیا سے نکالنے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔

اصولی اور مبنی بر استدلال بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی موجودگی، ترسیل ، پوسٹنگ یا شیئرنگ ان بنیادی اخلاقی و مذہبی اقدار کی صریحاً نفی ہے جسے سماجی رابطہ کے اس حساس میڈیم کے میثاق کا اہم نکتہ قراردیا جاتا ہے اور جسے بین المذاہب مکالمہ پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت اس لیے بھی ناگزیر خیال کرتی ہے کہ کسی شخص یا ادارے کو کسی کے مذہبی عقائد ، عبادت گاہوں کی بے حرمتی ، دانستہ تضحیک اور توہین کا نہ حق پہنچتا ہے اور نہ کسی کو بنیادی انسانی و مذہبی حقوق کا تمسخر اڑانے کی آزادی اظہار کے نام پر کھلی چھوٹ دی جا سکتی ہے۔

رسول اکرمؐؐ سے محبت مسلمانوں کے ایمان کا جزو لازم ہے۔ وزیرداخلہ نے بجا طور پر کہا کہ سوشل میڈیا شان رسالت اور ایمان سے بڑھ کر نہیں،کوئی باز نہ آیا تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے، پھر یہ کہ اقوام متحدہ کے عقائد پر بالاتفاق میثاق موجود ہیں ، یاد کیجیے جب فرانسیسی جریدہCharli Hebdo نے گستاخانہ خاکے شائع کیے اور پھر دیگر عاقبت نااندیش اشاعتی اداروں اور فلم میکرز نے شان رسالت میں گستاخی کا شرم ناک جواز آزادی اظہار و تحریر میں ڈھونڈنے کی ناپاک کوشش کی تو پورے عالم اسلام نے اپنے شدید عالمی ردعمل اور غیر معمولی احتجاجوں میں اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کی کہ مبعوث پیغمبروں ، آسمانی صحائف اور بالخصوص سرکار دو عالم ؐکی شان میں گستاخی کو کوئی مسلمان کبھی برداشت نہیں کرسکتا، چنانچہ مغرب کو اپنے نظریہ آزادی اظہار پر پیچھے ہٹنا پڑا۔

مگر افسوس ہے کہ ملک میں بعض نام نہاد عناصر نے مذہبی دلآزاری کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے جس کے لیے سوشل میڈیا ان کا وسیلہ ہے لہٰذا حکومت کا مذکورہ اقدام لائق تحسین ہے، مسلم ممالک کے سفراء کو مدعو کرکے وزیر داخلہ نے اپنا دینی فریضہ ادا کیا ہے اور سفیروں نے اس فیصلہ پر ان کے کردار کو سراہا ہے۔مسلم امہ اسے مشترکہ کاز سمجھے۔

تاہم بنیادی سوال گستاخانہ مواد کو سوشل میڈیا پر آنے سے فی الفور روکنا ہے جس کے لیے منطقی ، سائنسی اورموثر تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، وزارت داخلہ، ابلاغ، اطلاعات اور ماس میڈیا سے متعلق تمام اداروں بشمول مغربی دنیا کو ادراک کرنا چاہیے کہ امن عالم کا تقاضہ ہے کہ مذہبی دلآزاری کی ہر شکل کی مذمت کی جانی چاہیے۔ کوئی کارٹونسٹ،ادیب ، رپورٹر،کالم نویس، مدیر اور تجزیہ کار اپنے قلم و بیان سے مذہب و عقائد کو قتل نہیں کرسکتا، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا کسی کو لائسنس حاصل نہیں۔

فرد کی آزادی کی حد دوسرے کی ناک تک ہے ، اکیسویں صدی کو مذہبی جاہلیت سے نکلنا چاہیے ، سارے مذاہب قابل احترام ہیں، مغربی ملکوں کو او آئی سی اور عرب دنیا سمیت پوری امت مسلمہ باور کرائے کہ حضور اکرمؐ  محسن انسانیت ہیں ، مغربی اور یورپی ملکوں کے ذرائع ابلاغ کو قائل کیا جائے کہ دہشتگردی کے الم ناک واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس عفریت کے خاتمہ کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے، پاکستان تو خود دہشتگردی کا سب سے بڑا ستم رسیدہ ہے۔

مذہبی عقائد اور پیغمبروں کی شان میں گستاخی ہر پہلو سے لائق تعزیر اور ناقابل برداشت ہے چاہے وہ اظہار آزادی کے کسی زاویے ، انداز فکر، پالیسی یا سیاسی و صحافتی پیرائے میں ہو، سماجی رابطہ اور ابلاغ میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔