دورۂ ویسٹ انڈیز؛ نئے ٹیلنٹ کی کڑی آزمائش

عباس رضا  اتوار 26 مارچ 2017
اچھا تاثر چھوڑنے والے روشن مستقبل کی نوید سنائیں گے۔ فوٹو: فائل

اچھا تاثر چھوڑنے والے روشن مستقبل کی نوید سنائیں گے۔ فوٹو: فائل

فتح کا عزم لئے پاکستانی سکواڈ بارباڈوس میں ڈیرے ڈال چکا ہے، ٹوئنٹی 20سیریز کا پہلا میچ آج کھیلا جائے گا۔

مختلف مسائل کا شکار میزبان ویسٹ انڈین ٹیم کی انگلینڈ کے خلاف کارکردگی اچھی نہیں رہی، کریبینز گزشتہ سال ستمبر میں دورہ یواے ای کے دوران بھی گرین شرٹس کے خلاف محدود اوورز کا ایک میچ بھی جیت نہیں پائے تھے، دوسری جانب مجموعی طور پر پاکستان بھی وائٹ بال سے مقابلوں میں غیر معیاری کارکردگی کی وجہ سے اعتماد کی بحالی اور رینکنگ میں بہتری لانے کے لیے فکر مند ہے۔

ورلڈکپ 2015میں مصباح الحق کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کو جدید انداز کرکٹ سے روشناس کرانے کا نعرہ تو لگایا گیا لیکن قیادت ٹیسٹ سپیشلسٹ اظہر علی کو سونپ کر خود ہی اس مہم کو کمزور بنانے کا اہتمام بھی کردیا، سخت گیر ڈیو واٹمورکی طرح نئے ہیڈ کوچ مکی آرتھر بھی نوکری کو اہمیت دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے رنگ میں رنگے گئے اور پی سی بی کے اس عجیب و غریب فیصلے کی بے جا تائید و حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔

بالآخر 2سال ضائع کرنے کے بعد بورڈ کو اچانک خیال آیا کہ اظہر علی کی تو ون ڈے سکواڈ میں بھی جگہ نہیں بنتی،اس میں کوئی شک نہیں کہ دورہ انگلینڈ اور آسٹریلیا سمیت ایک روزہ میچز میں شکستوں کی اکلوتی وجہ کپتان نہیں تھے،مجموعی طور پر بیٹنگ میں جان اور کارکردگی میں تسلسل کا فقدان تھا، توکبھی ٹیم کی قوت سمجھی جانے والی بولنگ نے بھی مایوسی کا شکار کیا،بولرز نے ابتدا میں اچھی بولنگ کی بھی تو آخر میں مار کھائی،کبھی آغاز اتنا خراب کیا کہ حریفوں پر قابو پانا مشکل ہوگیا،ناقص فیلڈنگ نے ٹیم کے مسائل میں مزید اضافہ کیا۔

اس صورتحال میں محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے اہم اور مشکل اقدامات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، تاہم دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے ٹیموں کے انتخاب میں حیران کن فیصلے سامنے آئے، سرفراز احمد کو ون ڈے سکواڈ کی قیادت سونپے جانے کا فیصلہ مقبول عام کہا جا سکتا ہے، سابق کرکٹرز اور مبصرین کی اکثریت اس کے حامی بھی دکھائی دیتی ہے لیکن ورلڈکپ 2019کی تیاری کے لیے سکواڈ کو جدید ہتھیاروں سے مزین کرنے کے دعویدار سلیکٹرز کی پیچھے مڑکر دیکھنے کی عادت نہ گئی اور زائدالمیعاد کارتوس چلانے کے لیے منتخب کرلئے۔

ایک طرف چیف سلیکٹر انضمام الحق نے نئے ٹیلنٹ کو مواقع دینے کا دعویٰ کیا، دوسری جانب 35سالہ ’’نوجوان‘‘ کامران اکمل کو ون ڈے اور ٹوئنٹی20دونوں سکواڈز میں شامل کرلیا، 33سالہ بیٹسمین آصف ذاکر 14سال سے ڈومیسٹک کرکٹ میں سرگرم تھے، ان کو بھی مستقبل کے پلان کا حصہ بنالیا گیا، آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کھیلنے والے عمر اکمل غیر معیاری فٹنس کی پاداش میں دونوں فارمیٹ سے نظر انداز ہوئے لیکن حیرت انگیز طور پر ان کو پاکستان کپ پینٹنگولر ون ڈے کپ کے لیے پنجاب ٹیم کا کپتان بنادیا گیا۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ان کیساتھ بیٹھ کر سکواڈ کا انتخاب کیا، سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث شرجیل خان محدود اوورز کی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے اور کھیل کے جدید تقاضوں کیساتھ تیزی سے ہم آہنگ ہوتے بھی نظر آئے، ان کا خلا پُر کرنے کے لیے احمد شہزاد کا انتخاب کیا گیا۔

گزشتہ سال ورلڈ ٹوئنٹی20 کے بعد ہیڈکوچ وقار یونس کی رپورٹ میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے جانے کے بعد مسلسل نظر انداز اوپنر نے قومی ون ڈے کپ میں 3 سینچریز سمیت 93.28کی اوسط سے 653رنز بنائے تھے، پی ایس ایل میں بھی چند اچھی اننگز کھیلیں، ان کو دونوں سکواڈز کے لیے موزوں خیال کیا گیا ہے، تاہم کم بیک کبھی آسان نہیں ہوتا، شرجیل خان کی عدم موجودگی میں ان پر توقعات کا بوجھ بھی زیادہ ہوگا، امید ہے کہ باصلاحیت اوپنر ٹیم میں جگہ پکی کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

پی ایس ایل میں متاثر کن کارکردگی دکھانے والے لیفٹ ہینڈ بیٹسمین فخر زمان اور لیگ سپنر شاداب خان کو بھی دونوں فارمیٹ کے لیے منتخب کیا گیا،ان دونوں نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ لیفٹ آرم سپنر محمد اصغر اور قومی ون ڈے کپ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف کو ایک روزہ کرکٹ میں ڈیبیو کا موقع مل سکتا ہے، ٹوئنٹی 20میچز میں محمد عامر کو آرام دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے سہیل تنویر کو ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کبھی ٹیم میں مستقل جگہ نہ بنا پانے والے پیسر کو بار بار مواقع دے کر سلیکٹرز نہ جانے کس مستقبل کی تیاری کررہے ہیں، وہاب ریاض کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔

ورلڈکپ 2015میں ایک سپیل کے سہارے کیریئر کو طول دینے کے بجائے انہیں خود کو میچ ونر ثابت کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوگی، حسن علی کارکردگی بہتر مگر مستقل مزاجی کی کمی نظر آتی ہے، پیسر وکٹیں تو حاصل کرتے ہیں لیکن رنز روکنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے حریف بیٹسمین معقول مجموعہ ترتیب دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ سال ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے بعد نظر انداز کردیئے جانے والے رومان رئیس اور 4سال قبل غیر متاثر کن ڈیبیو کے بعد سے ڈراپ عثمان شنواری پی ایس ایل میں اچھی فارم میں نظر آئے،تاہم انٹرنیشنل کرکٹ میں کا دباؤ الگ طرح کا ہوتا ہے، بلند حوصلے کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے کارکردگی دکھانے والے اپنی جگہ پکی کرلیتے ہیں، ناکامی کا خوف کی باصلاحیت کھلاڑیوں کے کیریئر نگل جاتا ہے، فخر زمان، شاداب خان، رومان رئیس، عثمان شنواری، محمد اصغر اور فہیم اشرف کی کارکردگی خاص طور پر ریڈار میں ہوگی۔

اچھا تاثر چھوڑنے والے روشن مستقبل کی نوید سنائیں گے، نوجوانوں کی بہتر پرفارمنس کے لیے سینئرز کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے، شعیب ملک، کامران اکمل، محمد حفیظ اور خود کپتان کو نہ صرف ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے بلکہ نئے ٹیلنٹ کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کرنا ہے، ویسٹ انڈیز کے خلاف گزشتہ ون ڈے سیریز کے تینوں میچز میں سنچریز کے ساتھ ریکارڈ کارکردگی دکھانے والے بابر اعظم کی ثابت قدمی گرین شرٹس کا کام آسان بناسکتی ہے۔

ٹوئنٹی 20سیریز کی اس لحاظ سے بھی زیادہ اہمیت کے کہ بہتر کارکردگی ون ڈے میچز سے قبل مہمان کرکٹرز کے اعتماد میں اضافہ کرے گی، پاکستان ٹیم نے اگر یہ سیریز 4-0سے جیت لی تیسری پوزیشن پر آ جائے گی اور اگر 3-1سے کامیابی ملی تو چوتھے نمبر پر براجمان ہوگی،ایک روزہ میچز میں دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ میں براہ راست جگہ بنانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گی،ویسٹ انڈیز اس وقت 84پوائنٹس کے ساتھ عالمی رینکنگ میں نویں پوزیشن پر ہے، پاکستان 5پوائنٹس کے فرق سے ایک درجہ بہتر ہے۔

رواں سال 30ستمبر کے حتمی تاریخ کو میزبان ملک انگلینڈ سمیت ٹاپ 8ٹیموں کو میگا ایونٹ میں براہ راست شرکت کا موقع ملے گا،2بار عالمی چیمپئن بننے والے کریبینز چیمپئنز ٹرافی سے تو باہر ہوچکے،پوری کوشش کریں گے کہ گرین شرٹس کو شکست دے کر ورلڈ کپ میں براہ راست شرکت کی امیدیں برقرار رکھیں۔

ماضی کے کئی ناخوشگوار واقعات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا دورہ ویسٹ انڈیز ہمیشہ ہی حساس سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار ٹیم پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ کے منحوس سائے میں پاکستان سے رخصت ہوئی، دورہ انگلینڈ 2010کے بعد یہ دوسرا سکینڈل نے جس نے ملکی کرکٹ کی ساکھ داؤ پر لگادی،اس نازک صورتحال میں پی سی بی کا رویہ بھی بڑا عجیب سا نظر آیا ہے،بار بار زیرو ٹالرنس کا نعرہ لگانے والے حکام کو اس کیس میں ایف آئی اے کی مداخلت ایک آنکھ نہیں بھائی اور تحقیقات روکنے کے لیے تاخری حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔

پی ایس ایل کے پہلے ہی میچ کے بعد سپاٹ فکسنگ الزام میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو معطل کرکے پاکستان واپس بجھواتے ہی ٹھوس شواہد کا ڈھنڈورا پیٹا گیا،ایونٹ کے دوران دونوں کرکٹرز کو چارج شیٹ تھماکر بورڈ خود جواب کا منتظر رہا، فائنل لاہور میں کروانے کی مہم مکمل کرتے ہی قبل ازیں کلیئر قرار دیئے جانے والے محمد عرفان اور شاہ زیب حسن بھی الزامات کی زد میں آگئے۔

کھچڑی پکانے کے بعد معاملہ ٹریبیونل کے سپرد کیا گیا تو خاصا وقت ضائع کئے جانے کے بعد پہلی سماعت میں زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے باقاعدہ سماعت کے لیے بھی 15مئی تک کئی مراحل شامل کئے گئے ہیں، حتمی فیصلے تک ایف آئی اے کو بھی خاموش تماشائی بنائے رکھنے کے لیے راہ ہموار کرلی گئی ہے، ٹھوس شواہد کا دعویٰ کرنے والے ہی اب سہولت کاری کے ملزم ناصر جمشید سے انگلینڈ میں تفصیلات حاصل کرکے کسی مضبوط بناکر ٹریبونل کے سامنے پیش کرنے کی باتیں کررہے ہیں،کسی بینک کا ملازم بھی فراڈ کرے تو اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کے ساتھ قانون کے شکنجے میں جکڑنے کا عمل الگ ہوتا ہے۔

ملک کا نام بیچنے والوں کے خلاف تحقیقات کسی بھی سطح پر اداروں کو روکنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے،انگلینڈ میں سپاٹ فکسرز کو آئی سی سی کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا، کراؤن کورٹ نے سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد عامر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈالا، دونوں سزاؤں میں پی سی بی کا کوئی کردار نہیں تھا،اب موقع ملا ہے تو کرپشن میں ملوث ہر چہرے کو سامنے لانے کے لیے ایف آئی اے سمیت ہر ذریعہ استعمال کرنا چاہیے۔

ناصر جمشید کو کس دباؤ کے تحت صرف اور صرف سچ بولنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، یہ نسخہ شاید پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے پاس ہو،ابھی تک تو پاکستان میں شرجیل خان،خالد لطیف، محمد عرفان اور شاہ زیب حسن میں سے بھی کسی نے باضابطہ طور پر فکسنگ کا کوئی الزام تسلیم نہیں کیا، اسپاٹ فکسنگ سکینڈل2010 کا داغ دھونے میں تو 7سال لگ گئے۔

ویسٹ انڈیز میں موجود پاکستان ٹیم کو پی ایس ایل کیس کے حوالے سے تندوتیز سوالوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساکھ کی بحالی کے لیے انتہائی محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانا ہوگی، پاکستان میں ٹربیونل کی باقاعدہ سماعت 15مئی کو شروع ہونے سے قبل ون ڈے سیریز بھی ختم ہوچکی ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔