’انصاف‘ کو بچائیں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 27 مارچ 2017
advo786@yahoo.com

[email protected]

ذرایع ابلاغ سے اچھی خبریں سننے اور پڑھنے کو کم ہی ملتی ہیں، جو خبریں بظاہر خوشنما اور مسرور کن نظر آتی ہیں ان میں بھی اچھائی اور خیر کا پہلو کم ہی ہوتا ہے، ورنہ مبالغہ آرائی، دروغ گوئی، لچرپن یا تفریح طبع کا پہلو ہی نمایاں ہوتا ہے۔ بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جنھیں پڑھ کر یا سن کر دل بوجھل ہو جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی کہ فیصل آباد میں پالتو کتے کو پتھر مارنے والے نوعمر بھکاری بچے کو کتے کے نوعمر مالک نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 14 سالہ بھکاری بچے نے کاٹنے کی کوشش پر کتے کو پتھر مارا تو کتے کے نوعمر مالک نے برسر عام فائر کرکے بھکاری بچے کو ہلاک کر دیا۔

دوسری خبر یہ تھی کہ حیدرآباد سے بچوں کی ٹافیاں اور چپس بلوچستان لے جاکر فروخت کرنے والے دو نوجوانوں کو اغوا کاروں نے 5 دن کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دیں، مقتولین میں ایک 4 بچوں کا باپ جب کہ دوسرا 9 بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ مقتولین کے لواحقین پر کیا گزری ہو گی اور مستقبل میں اس واردات کے ان کے خاندانوں اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، ان کا اندازہ اہل دل اور اہل نظر ہی کر سکتے ہیں۔

حضرت عمرؓ کا قول تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرا تو روز قیامت عمرؓ اس کا جوابدہ ہوگا، مگر ہمارے حکمران، سیاستدان اور صاحب اختیار اس سوچ سے نابلد اور طاقت کے نشے میں چور ہیں، وہ تو خود اپنے ماتحتوں کو غلام بناکر ان سے انسانیت سوز اور شرمناک سلوک کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ وہ اپنی انا، ناجائز خواہشات اور پروٹوکول کے راستے میں آنے والے سفید پوش، عزت دار، قانون پسند افراد اور اداروں کو سرعام تشدد، تذلیل اور انتقام کا نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں اور اس عمل میں سب یک زبان و یکجا اور متحد نظر آتے ہیں۔

اب تو معاشرے کے پڑھے لکھے آسودہ حال افراد مثلاً ڈاکٹر، وکلا و ججز اور تاجروں تک اپنے ماتحتوں اور کمسن ملازموں سے انسانیت سوز سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اپنے ملازموں، ہاریوں اور ان کے پورے پورے خاندان کو روح فرسا مظالم کا نشانہ بنانا، قید و بند میں رکھ کر تشدد کرنا، ان پر کتے چھوڑ دینا، ان کے ہاتھ پیر توڑ دینا، ناک کان کاٹ دینا، محض پھل توڑنے پر کسی معصوم بچے کو گولی مار کر ہلاک کردینا، انسانوں کو  زندہ دفن کردینا معمول کے واقعات بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی کتاب میں اس بات کا فخریہ ذکر کیا جاتا ہے کہ میں نے نوعمری میں پہلا قتل اپنے ملازم کا اس لیے کیا تھا کہ مجھے اس ملازم کی شکل پسند نہیں تھی۔

اس ظالمانہ کلچر کے تناظر میں بھکاری بچہ اور ٹافیاں بیچنے والے نوجوانوں کے لواحقین کو انصاف کیونکر ملے گا۔ کس کی ہمت ہوگی کہ قاتلوں کے خلاف گواہی دے سکے؟ سہمی اور کرپشن زدہ پولیس کے اہلکار کیسے ہمت کریں گے کہ کسی بااثر اور طاقتور مجرم پر ہاتھ ڈال سکیں؟

رات دن اسلامی اور جمہوری پاکستان کے راگ الاپنے والے حکمران اور سیاستدان اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ کیا ایک اسلامی یا جمہوری ملک کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں؟ انسانی حقوق اور عزت نفس کی پامالی پر متعلقہ ادارے یوں ہی بے بس، بے حس اور خاموش نظر آتے ہیں؟ ملک کے تمام ادارے تباہی سے دوچار ہیں ہر طرف بیڈ گورننس  ہے، عدم احتساب اور جوابدہی کی وجہ ہر طرف ظلم و جبر، ناانصافی، لوٹ مار اور بدعنوانی کا بازار گرم ہے۔

ایسے میں کچھ حد تک بالا عدالتیں ہی نظر آتی ہیں جو  ان معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور گاہے بہ گاہے ازخود نوٹس لے کر بھی کارروائی کرتی نظر آتی ہیں، چاہے وہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو یا بچوں، خواتین، خواجہ سراؤں اور اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ، بھٹے کے مزدور ہوں یا وڈیروں کے زندان میں قید ہاری، لاپتہ افراد ہوں یا حق تلفی کا شکار طلبا، ملازمین و ضعیف العمر افراد، NTS, CSS ہوں یا ٹیچرز ڈاکٹرز ودیگر شعبوں میں اہلیت پر بھرتیاں یا من پسند نااہل افراد کی تعیناتیاں اور تقرریاں، قومی اداروں اور منصوبوں میں غلط منصوبہ بندیاں اور لوٹ مار ہو یا اداروں کی نجکاری جیسے معاملات۔

آج ان عدالتوں کی وجہ سے ہی کچھ ایماندار اور فرض شناس لوگ اپنے عہدوں سے محرومی سے بچے ہوئے ہیں، بہت سے قومی منصوبے اور  ادارے مکمل تباہی سے بچے ہوئے ہیں اور بھی ایسے ادارے قومی افق پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

عدلیہ نے اپنی خود احتسابی کے عمل کے ذریعے جتنی بڑی تعداد میں ججز فارغ کیے ہیں کسی اور ادارے میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے، گزشتہ دو دہائیوں سے عدلیہ کے ادارے کو نقصان پہنچانے کے لیے منظم سازشیں کی جا رہی ہیں اس کے ججز اور فیصلوں پر تنقید اور ان کی کردار کشی تک کی جا رہی ہے، ایک وطیرہ یہ بن چکا ہے کہ کسی بھی مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران سیاستدان تبصرہ کار، دانشور اور پروگراموں کے میزبان عدالت نما پروگرام لے کر بیٹھ جاتے ہیں، ہر کوئی اپنی مرضی منشا، دانش و عزائم، ضرورت کے مطابق قصہ گوئی، دلیلیں، حوالے اور تاویلیں پیش کرکے اپنا فیصلہ دے ڈالتا ہے اور عوام پر ایسا تاثر قائم کرنے کی کوششیں کرتا ہے کہ اگر فیصلہ ان کے تجزیہ یا پیش گوئی کے مطابق نہ آئے تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ عدالت نے فیصلہ صحیح نہیں دیا ہے۔

خالصتاً قانونی اور عملی بحث کو غیر ذمے دارانہ عوامی بحث بنا دینا ایک خطرناک عمل ہے، جو عدالتوں کو دباؤ میں لانے اور بے وقعت کرنے کی کوششیں محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں عدلیہ ہی وہ واحد ادارہ اور امید کی آخری کرن نظر آتی ہے جس سے عوام انصاف کی توقع کرسکتی ہے اگر خدانخواستہ اس حوالے سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے تو شاید کچھ باقی نہ بچ پائے گا۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ توہین ناموس رسالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران فاضل جج نے چیئرمین پیمرا کو ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں نشر کیے جانے والے قابل اعتراض مناظر اپنے موبائل پر دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’کیا یہ سب کچھ آپ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں؟ آپ ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ آپ ٹی وی چینلز کے ساتھ بہت نرمی کر رہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اب تک کئی چینلز کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہوتے۔

پہلے سرکاری ٹی وی پر خبروں سے پہلے حدیث مبارکہ اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرمان نشر ہوتے تھے اب عین خبرنامے کے دوران شیلا کی جوانی آجاتی ہے۔ آپ ٹی وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز کو دیکھیں ان میں جو ہو رہا ہے، وہ ثابت شدہ توہین عدالت ہے، عدالت کو گالیاں دے رہے ہیں اگر توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو یہ لوگ سیدھے اڈیالہ جیل جائیں گے۔‘‘

توہین رسالت کے مقدمے کے بعد سے کچھ روشن خیال اور لبرل حلقوں نے جسٹس شوکت صدیقی کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی ہے، کچھ ان کی حمایت و تشہیر میں مصروف ہیں۔ جس پر ہائیکورٹ نے جسٹس شوکت صدیقی کی ذاتی تشہیر سے منع کیا ہے۔ انھوں نے خود بھی اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کا سامنا کرنے اور اسے کھلی عدالت میں چلانے کی استدعا کی ہے۔ اس معاملے پر مخالفت و کردار کشی یا حمایت و مخالفت میں جلوس نکالنے کے بجائے طرفین کو قانون اور انصاف پر یقین رکھنا چاہیے۔

عدالتوں کا کام انصاف کی فراہمی اور قانون کی تشریح و تعبیر کرنا ہے ناکہ وقتی جذبات کی ملغوبیت سے متاثر ہوکر فیصلہ دینا ملک میں جہاں کم و بیش تمام ادارے تباہی سے ہمکنار ہوچکے ہیں وہاں عدالتوں کی کارکردگی خاص حد تک قابل اطمینان اور قابل اعتماد نظر آتی ہے اگر اس ادارے کو بھی تباہ کردیا گیا تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہم سب کو اس پہلو پر ضرور سوچ بچار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔