مشترکہ خاندانی نظام

نسرین اختر  پير 27 مارچ 2017
پورے گھر کا ایک دستر خوان مہنگائی کے اس دور میں بڑی کفایت کا باعث بنتا ہے۔  فوٹو: فائل

پورے گھر کا ایک دستر خوان مہنگائی کے اس دور میں بڑی کفایت کا باعث بنتا ہے۔ فوٹو: فائل

کئی مشرقی روایات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انھی میں سے ایک مشترکہ خاندانی نظام بھی ہے۔ بدقسمتی سے یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے مگر اس کی  افادیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  لڑکیوں کے والدین مشترکہ خاندان میں اپنی بیٹی بیاہنا پسند نہیں کرتے کہ ایک بھرے پرے گھر میں ان کی بیٹی کیسے گزارا کرے گی؟ حالاں کہ انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے جب لڑکی  والدین کا گھر چھوڑ کر سسرال آتی ہے تو اسے اپنے گھر والے یقیناً یاد آتے ہیں۔ اسے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر وہ مشترکہ خاندان میں آتی ہے تو اسے ایک طرف تو بنا  بنایا گھر ملتا ہے اور دوسری طرف گھر والے جس میں ساس، سسر کی صورت میں ماں باپ اور نند دیور کی صورت میں بہن بھائی ہوں گے، ان تمام رشتوں کو اگر دل سے قبول کرلیا جائے اور ان سے بھی اسی طرح محبت و احترام کا سلوک کیا جائے کہ جس طرح اپنے میکے میں والدین اور بہن بھائی سے کرتی ہے تو اسے کبھی مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ بننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔

مشترکہ خاندانی نظام میں بہت آسانیاں ہیں مثلاً گھر کے کام کاج گھر والے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ اس طرح گھر کی تمام ذمہ داری کسی ایک خاتون پر نہیں ہوتی بلکہ ہر فرد اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔ انھیں ملازمت کے دوران پورے گھر کی ذمہ داری نہیں نبھانی پڑتی۔

دوسری طرف بچوں کی تنہائی کا خوف نہیں ہوتا۔ بچوں کی بہترین پرورش میں ساس، سسر کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع ملتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں خاندان کے بزرگوں کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اس طرح ملازمت پیشہ خاتون کو بچوں کی فکر نہیں رہتی۔ بچے بھی اپنے دادا دادی کے ساتھ اپنا اچھا وقت گزارتے ہیں۔ بزرگوں کو بھی بچوں کی صورت میں مصروفیت مل جاتی ہے۔

مہنگائی کے اس دور میں ایک تنہا فرد اپنی خاندانی ضرورت کو احسن طریقے سے پورا کرنے سے قاصر ہے لیکن مشترکہ خاندان میں شامل تمام افراد گھر کی ذمے داریوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہوئے معاشی طور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔  یوں کسی ایک فرد پر پورے گھر کی معاشی ذمے داری کا بوجھ نہیں پڑتا۔ پورے گھر کا ایک دستر خوان مہنگائی کے اس دور میں بڑی کفایت کا باعث بنتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور متوازن غذا گھر کے ہر فرد کو میسر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خوشیوں اور غم کے لمحات میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے پریشانیوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کرتے ہیں تو یہ سہارا بہت تحفظ فراہم کرتا ہے۔

غرض یہ کہ مشترکہ خاندانی نظام کے بے شمار فوائد ہیں لیکن آج کے دور میں بہت کم خاندان اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس روایت کے ٹوٹنے کی کئی وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ گھر کے افراد میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان یا دوسرے الفاظ میں اختلاف رائے ہے  کہ وہ ایک دوسرے سے متفق نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ان میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں  جو بدمزگی اور دلوں میں کدورت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ خاندان میں سب سے زیادہ اہمیت ساس سسر کی ہوتی ہے اگر گھر کی بہو ان رشتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئے تو لڑائی جھگڑے جنم نہیں لیں گے۔

اس خاندانی نظام میں چوں کہ ایک ہی گھر میں خاصے افراد ہوتے ہیں، لہٰذا پرائیویسی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ نوجوان نسل اپنے معاملات میں روک ٹوک پسند نہیں کرتی جب کہ مشترکہ خاندان میں اہل خانہ ایک دوسرے کے بچوں پر تنقید کے علاوہ ان کے معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتے ہیں جو کہ بچوں کے علاوہ بعض اوقات والدین کو بھی ناگوار گزرتا ہے۔ ایک سے زیادہ خاندان ہونے کے باعث ان کے بچوں میں لڑائی جھگڑے معمول کی بات ہوتی ہے جو اکثر اوقات بڑوں کی لڑائی کا سبب بھی بنتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام میں ہر بہو کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہو جب کہ ساس اپنا اختیار چاہتی ہے پھر جو فرد زیادہ کما رہا ہوتا ہے اس کو اہمیت اور اس کے فیصلوں کو اولیت دی جاتی ہے۔ اکثر ایک کمانے والے پر ہی پورا خاندان انحصار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں گھر کے ہر فرد کو ایک ہی طرز زندگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ خاندان کے ہر فرد کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا پڑتا ہے ورنہ دوسرے سمجھتے ہیں کہ انھیں کم اہمیت مل رہی ہے۔ گھر کی ہر چیز مشترکہ ہوتی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام کی روایت دم توڑتی جارہی ہے۔

ہر لڑکی شادی کے بعد تنہا رہنا چاہتی ہے۔ وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتی۔ اگر شادی کے بعد خود لڑکی اس کے والد اور لڑکے کے گھر والے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام کی اہمیت کو سمجھیں تو معاشرے کی ایک مضبوط روایت کو پھر سے زندہ کرسکتے ہیں۔ یہ نظام  بند مٹھی کی طرح ہے  جو خاندان کے اراکین کو ہر طرح کے حالات میں تحفظ فراہم  کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی روایت برقرار رہے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔