غربت کا خاتمہ اور ترقی کے ذریعے خوشحالی دونوں ممالک کی مشترکہ ترجیحات ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز‘‘ پر کراچی میں منعقدہ سیمینار میں شرکا کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز‘‘ پر کراچی میں منعقدہ سیمینار میں شرکا کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

 کراچی: ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام فاسٹ مارکیٹنگ اور رفیع گروپ کے تعاون سے گزشتہ دنوں کراچی میں ’’سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز‘‘ کے موضوع پرایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین کی جانب سے سی پیک منصوبے پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔

سیمینار کے مہمانان خصوصی گورنر سندھ محمد زبیر ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور چینی قونصل جنرل وانگ یو تھے جبکہ مقررین میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین شیخ، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شمیم احمد فرپو، ایکسپریس پبلی کیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسرو جنرل سیکرٹری سی پی این ای اعجاز الحق، رفیع گروپ کے سی ای او عبدالسمیع سمیع شیخ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے ڈائریکٹرنعمان باجوہ شامل تھے۔

سیمینار میں روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان، ایکسپریس پبلی کیشنز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مارکیٹنگ اظفر نظامی، روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی، ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ کامران احمد‘نیوز ایڈیٹر کراچی حسن عباس،چیف رپورٹر کراچی جی ایم جمالی، بیورو چیف ایکسپریس نیوز کراچی فیصل حسین، سابق گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور، سوئٹزرلینڈ کے قونصل جنرل  Philppe Crevoisier، جرمنی کے قونصل جنرل Rainer Schmiedchen، کوریا کے قونصل جنرل Kim Dong-gi  کے علاوہ دیگر ممالک کے سفارتکاروں،معروف کاروباری شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی سمیت صنعتکاروں، تاجر وں، اساتذہ اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

محمد زبیر (گورنر سندھ)

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان میں اب تک ہونے والے تمام منصوبوں میں سے بہترین منصوبہ ہے جو نہ صرف پورے پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر اور پاور سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری کی مالیت 55ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر متعلقہ شعبوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیاں اب پاکستان کا رخ کررہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 60ء کی دہائی میں ہی چین کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کی جس کے تحت چین سے تعلقات کو اہمیت دی گئی تاہم کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کے مابین دیرینہ اور پرجوش تعلقات کی جھلک باہمی تجارت کے حجم میں ظاہر نہ ہوسکی بلکہ افریقہ اور بھارت نے چین کی اہمیت سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا تھا۔ اب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے دونوں ممالک کے معاشی اور سماجی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے لیے ایک موثر راستہ فراہم کردیا ہے۔

ہمیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پربھی توجہ دینا ہوگی بالخصوص مل جل کر اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی انجینئرز اور محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ عہد ممالک کا ایک دوسرے پرانحصار کا عہد ہے۔سی پیک  منصوبے کے علاوہ بھی کئی ایسے منصوبے ہیں جو اس خطے کے ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں جن میں تاجکستان، پاکستان، افغانستان، بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ (TAPI)اور CASA-1000منصوبہ شامل ہیں۔

TAPI منصوبے میں چار ملک ایک دوسرے پر منحصر ہوں گے۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا بھارت کے لیے پاکستان میں امن ہونا ضروری ہے لہٰذا خطے میں پائیدار امن سب کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے مابین سی پیک منصوبے پر اتفاق رائے کی وجہ سے اس منصوبے کے بارے میں ہونے والی بحث فکر کاباعث نہیں ہے۔ منصوبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے پارلیمان کی سطح پر 35رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رہنما مشاہد حسین کررہے ہیں۔

میری عوام، میڈیا اور سیاسی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ اس منصوبے کو چھوٹے چھوٹے اختلافات اور اعتراضات کی وجہ سے کالا باغ ڈیم کی طرح نہ بنایا جائے۔ سی پیک منصوبے کے تحت توانائی سے متعلق سب سے زیادہ اور بڑے منصوبے سندھ میں تعمیر ہورہے ہیں جس سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ سی پیک منصوبے سے تمام صوبوں میں روزگار کے نئے مواقع مہیا ہوں گے۔ سی پیک منصوبے کا مرکز بلوچستان ہے، یہ صوبہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جاتا رہا تاہم اب بندرگاہ، ایئرپورٹ ، فری اکنامک زون اور صنعتکاری کے اہم منصوبے بلوچستان میں شروع ہورہے ہیں جس سے اس صوبے کے عوام کو فائدہ حاصل ہوگا۔

سید مراد علی شاہ ( وزیر اعلیٰ سندھ )

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان اور چین کے مابین اعتماد، دوستی اور قابل فخر تعلقات کو فروغ ملا ہے اور یہ منصوبہ دونوں ممالک کے عوام کے باہمی رشتے کو بھی مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ پاک چین دیرینہ تعلقات کے آغاز کا سہرا پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے جنہوں نے دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 60ء کی دہائی میں چین کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی چین کی جانب منتقل کی تھی ۔ اس عوامی رہنما نے اُس زمانے میں ہی چین کو پاکستان کا دیرینہ اور حقیقی دوست قرار دیا تھا۔

دراصل جولائی 2013ء میں طے پانے و الے چین پاکستا ن اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 40سال قبل ہی رکھ دی تھی۔ یہ تسلسل شہید بے نظیر بھٹوکے دور سے ہوتا ہوا آصف علی زرداری تک منتقل ہوا جنہوں نے بحیثیت صدر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھتے ہوئے منصوبے کی کنجی گوادر پورٹ چین کو منتقل کردی جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چین کے متعدد دورے بھی کیے۔

سی پیک منصوبہ چین کی قیادت کے ون بیلٹ ون روٹ ویژن کا حصہ ہے جوصرف سی پیک تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے 64ممالک کو ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں پاکستان اور چین کے عوام کا کردار اہمیت کا حامل ہے ۔ سی پیک منصوبے میں کراچی کے لیے فوائد حاصل کرنے کے لیے میں نے دسمبر 2016ء میں بیجنگ میں ہونے والی جے سی سی میٹنگ میں تین اہم منصوبوں پردستخط کیے جن میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، کیٹی بندر پر پاور پلانٹ کی تعمیر اور دھابیجی میں صنعتی زون کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔

کراچی سرکلر ریلو ے منصوبے کی راہ میں تجاوزات کے خاتمے کا کام شروع کردیا گیا ہے اور یہ کام جاپان کی معاونت سے کیا جارہا ہے ۔ تجاوزات ہٹانے کے دوران متاثرین کو جاپان کی مرتب کردہ ڈیٹا بیس کے تحت معاوضہ اور متبادل جگہ فراہم کی جائے گی اور گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران قائم ہونے والی تجاوزات کو کسی قسم کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد رواں سال کی آخری سہ ماہی میں رکھا جائے گا۔ سی پیک کا توانائی سے متعلق پہلا ونڈ پاور منصوبہ سندھ میں کام شروع کرچکا ہے۔

گیس کی 70فیصد ملکی پیداوار سندھ میں ہوتی ہے، کونسل آف کامن انٹرسٹ کی ذیلی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں آرٹیکل 158کی روشنی میں پالیسی کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اور وزارت پانی وبجلی کی جانب سے اس ضمن میں پالیسی کا ڈرافٹ تیار کیا جا رہا ہے۔ تھر میں دنیا کے 7ویں بڑے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے ۔ اس منصوبے میں سندھ حکومت 54فیصد کی حصہ دار ہے۔

یہ منصوبہ 2019ء میں مکمل ہوگا جس سے 660میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں تک پانی کی فراہمی مہنگا عمل ہے۔ تھر کے منصوبے پر اس مقصد کے لیے سندھ حکومت 350ملین ڈالر خرچ کررہی ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کیٹی بندر میں بھی پاور پلانٹ تعمیر کیا جارہا ہے،یہ منصوبہ شہید بے نظیر بھٹو کا خواب تھا، ابتداء میں یہ پلانٹ درآمدی کوئلے پر چلایا جائے گا۔ سی پیک منصوبے کو گیم چینجر کہا جاتا ہے جبکہ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا منصوبہ سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے۔

یہ منصوبہ نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کے لیے ترقی اور استحکام کا ضامن ہے۔ میں نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کی ہدایت پرگزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے پارلیمنٹیرنز کو سی پیک منصوبے کے بارے میں ایک خصوصی پریزنٹیشن دی ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے اس منصوبے کو پاکستان اور سندھ کے لیے بھرپور افادیت کا حامل قرار دیا ہے۔

سی پیک منصوبے نے موجودہ حالات میں سندھ اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اعتماد بخشاہے جس کے باعث دیگر ممالک کے سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس نے صوبائی سطح پر ٹرانسمیشن کمپنی قائم کی ہے اور نوری آباد سے کراچی تک 94کلومیٹر تک کی لائن بچھائی گئی ہے اس سے کراچی کے لیے 100میگا واٹ بجلی فراہم کی جائیگی اور جس کا افتتاح آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا۔

وانگ یو (چینی قونصل جنرل)

سی پیک منصوبے کو ابتدائی تصور سے ٹھوس منصوبے کی شکل دینے میں چارسال کا عرصہ لگا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اکنامک گلوبلائزیشن اور ریجنل کووآپریشن کے رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے 2013ء میں ون بیلٹ ون روڈ کا تصور پیش کیا۔ اس تصورنے متعلقہ ممالک کو چین کے ساتھ باہمی فوائد اور مشترکہ مفادات پر مبنی اشتراک عمل کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اس مقصد کو لیکر پاکستان اور چین کی قیادت نے 2013ء میں سی پیک منصوبے کی اصولی منظوری دی۔ اس کے بعد چین کے صدر نے اپریل 2015ء میں پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔

اس موقع پر دونوں ممالک نے اپنے دیرینہ تعلقات کو سٹرٹیجک پارٹنرشپ میں تبدیل کرتے ہوئے، سی پیک کے ذریعے اشتراک عمل کے 1 + 4 لے آؤٹ پر اتفاق کیا جس میں گوادر پورٹ، انرجی، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون شامل ہیں۔ اس دورے کے موقع پر دنوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی موجودگی میں اشتراک عمل کے متعدد منصوبوں پر دستخط کیے گئے۔ چینی صدر کے اس دورے نے سی پیک منصوبے کی رفتار بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اس کے بعد سے سی پیک منصوبہ تیزی سے رو بہ عمل ہے۔

سی پیک معاشی استحکام اور ترقی کی راہداری ہے، اس وقت دونوں ممالک کی جانب سے انرجی اور ٹرانسپورٹیشن انفرااسٹرکچر کی بہتری کو ترجیح دی جا رہی ہے جس کا مقصد پاکستان کی فوری ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوںکو دور کرنا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے اور حالیہ چند برس کے دوران پاکستان کی معیشت میں مقامی وسائل کی بنیاد پر نمو پیدا ہوئی ہے۔ اہم بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے معاشی منظر نامے کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ بہتر ہوئی ہے۔

اس اہم پیش رفت میں سی پیک کے کردار کو دیکھتے ہوئے میں ایک سچے دوست کی حیثیت سے بے حد فخر اور خوشی محسوس کررہا ہوں۔ سی پیک دیرپا امن اور استحکام کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے عوام امن پسند ہیں جبکہ غربت کے خاتمے اور ترقی کے ذریعے خوشحالی دونوں ممالک کی مشترکہ ترجیحات ہیں۔ اپنے بزرگوں اور بچوں کے ساتھ خوشی کے ساتھ رہنا اور کام کرنا ہمارا مشترکہ خواب ہے اور اس خواب کی تکمیل کے لیے امن اور ترقی ناگزیر ہے۔ سی پیک کی تعمیر کے لیے پرامن ماحول کا ہونا ضروری ہے۔

سی پیک منصوبے کے ذریعے ترقی اور خوشحالی پاکستان اور چین کے عوام کی مشترکہ توقعات ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے پاکستان اور چین کے ساتھ خطے کے دیگرممالک کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سی پیک منصوبہ ’’وِن وِن‘‘ کووآپریشن ہے اور اس منصوبے میں پاکستان اور چین دونوں کی جیت ہے۔اس منصوبے کے فوائد ابھی سے سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں اورپاکستانی معاشرے کے تمام طبقات کو فائدہ پہنچ رہا ہے، متعدد چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری اور منصوبوں میں اشتراک کررہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

چینی کمپنیاں اعلیٰ سطح کی ماڈرن سائنس ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کی ٹیکنالوجی ساتھ لارہی ہیں جبکہ سماجی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پوراکرتے ہوئے اسکولوں اور طبی سہولتوں کے مراکز کی تعمیر کے ذریعے مقامی کمیونٹیز کی طرز زندگی بہتر بنانے میں معاون کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت سی پیک کے 18 ترجیحی منصوبوں پر کام جاری ہے جن کے ذریعے مقامی افراد کے لیے روزگار کے وسیع مواقع مہیا ہونے کے ساتھ مقامی افراد کی تکنیکی صلاحیتوں اور مہارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

سال 2017ء اور 2018ء سی پیک منصوبوں کے ترجیحی منصوبوں پر موثر عملدرآمد کے سال ہیں،اس عرصے میں توانائی سے متعلق بعض اہم منصوبے مکمل ہوجائیں گے جس سے پاکستان میں توانائی کی طلب پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ انفرااسٹرکچر کے منصوبے بھی یکے بعد دیگرے شروع کیے جارہے ہیں۔ گوادر میں اکنامک زون کی تعمیر میں بھی پیشرفت ہورہی ہے جبکہ ان برسوں کے وسط میں طویل مدتی منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے گی جس سے سی پیک منصوبوں کی آئندہ سمت اور توجہ کے حامل شعبوں کی نشاندہی ہوگی۔

ڈاکٹرفاروق ستار (سربراہ ایم کیو ایم پاکستان)

سی پیک منصوبے کے فوائد کے حوالے سے عام آدمی کو بتانا سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ منصوبہ خطے کے لیے گیم چینجر ہے اور پوری پاکستانی قوم اسے ’’اون‘‘ کرتی ہے۔میری خواہش ہے کہ اس منصوبے کو ہر پاکستانی سے منسلک کیا جائے اور اس منصوبے سے عام آدمی کی سوشل اورمعاشی زندگی میں بہتری آنی چاہیے۔سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے علاقے بسماکے ذریعے سندھ کوسی پیک کے مغربی روٹس سے منسلک کیاجائے جبکہ مغربی روٹ پر یونیورسٹی اورکالج کے علاوہ تیکنیکی مراکزبھی قائم کیے جائیں۔

ہمیں اس کوریڈور کے ساتھ ساتھ ہیومن ریسورس کوبھی ڈویلپ کرنا ہوگا اور بلوچستان میںتوانائی کے منصوبوںکے ساتھ تعلیمی ادارے بھی قائم کرنا ہوں گے۔ توانائی کے منصوبوں پر خاص توجہ دینا ہوگی جبکہ پانی کے منصوبے بھی انتہائی اہم ہیں۔ ان تمام اقدامات کے بغیرسی پیک منصوبے کے ثمرات ملنامشکل ہوںگے۔یہ امر قابل فکر ہے کہ سندھ میںگیس کی پیداوارکے باوجودصوبے کے کئی علاقے گیس سے محروم ہیں، اس پر توجہ دی جائے۔  وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کے منصوبوں پر خاص توجہ دی ہے کیونکہ سی پیک منصوبہ خطے اور ملک کی بہتری کا منصوبہ ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ سی پیک پر مباحثے بالآخر کراچی پہنچ گئے۔ اس پر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ

اگر وہ پوچھ لیں ہم سے کہ کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لیں ہم سے

سیمینار میں کراچی کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ کراچی کے عوام سی پیک کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ سینسز اور کنسینسز دونوں اہم ہیں۔ سینسز شفاف ہوجائے تو الیکشن بھی شفاف ہونگے لیکن دوسری صورت میںسنجیدہ تحفظات ہیں جن کا حل ضروری ہے۔ میں آخر میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ

حادثوں کی زد پر ہیں تو کیا مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

شمس الدین شیخ ( سی ای او سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی )

تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو دنیا میں کسی ایک جگہ کوئلے کے سب سے زیادہ اور کسی ایک ملک میں 7 ویں بڑے ذخائر ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل میں سندھ حکومت نے اہم کردار ادا کیا اور سندھ حکومت اس منصوبے میں 54فیصد کی حصہ دار ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی کاوشوں سے حکومت نے منصوبے کے لیے 110ملین ڈالر کی ایکویٹی فراہم کی جبکہ 700ملین ڈالر کی ساورن گارنٹی بھی فراہم کی گئی۔ سندھ حکومت نے منصوبے سے متعلق انفرااسٹرکچر کی تعمیر، روڈ نیٹ ورک اور فراہمی آب کے منصوبوں پر بھی 70ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کوئی بھی منصوبہ مقامی آبادی کے تعاون اور شراکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لیے تھر کے باشندوں کی جو کوئلے کے حقیقی مالک اور وارث ہیںطرز زندگی بہتر بنانے پر خصوصی توجہ اور روزگار کی فراہمی میں بھی مقامی افراد کو ترجیح دی جارہی ہے۔ منصوبے کے ساتھ ساتھ سکول اور ہسپتال بھی تعمیر کیے جارہے ہیں اور تربیت کی فراہمی کے ذریعے مقامی افراد کی شمولیت کو بڑھایاجارہا ہے۔

شمیم احمد فرپو (صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

سی پیک منصوبے کو گیم چینجر کہا جارہا ہے ۔ چین کے اس بڑے منصوبے کی وجہ سے پاکستان کا امیج تبدیل ہوگیا ہے۔ گوادر جیسی سٹرٹیجک اور بلوچستان کی معدنیات سے مالا مال زمین پر خود ہم نے کوئی توجہ نہیں دی تھی۔  آج سی پیک کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری اور سی پیک منصوبے میں شمولیت کے لیے بے چین ہیں۔ دبئی نے اپنی ریت سونے کے دام پر فروخت کی لیکن آج گوادر میں ہماری زمین پلاٹینم کے نام پر فروخت ہورہی ہے۔ چین نے یقیناً دوستی کے ساتھ اپنے تجارتی اور معاشی مفاد کو بھی مدنظر رکھا ہوگا لیکن ہمیں فائدے نقصان کے بجائے قومی سوچ اور جذبے کے ساتھ مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوںکو دور کرنا ہوگا۔

اعجاز الحق ( چیف ایگزیکٹو آفیسر ایکسپریس پبلی کیشنز و جنرل سیکرٹری سی پی این ای)

سی پیک منصوبے کے بارے میں مختلف شہروں میں سیمینار کے انعقاد کا مقصد اس منصوبے سے عام آدمی کی زندگی میں آنے والی تبدیلی کا احاطہ کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ کا تعلق بھی معیشت کے میدان سے ہے اور وہ معاشی امور سے باخبر ہیں۔ اس لیے سی پیک جیسے اہم منصوبے کے بارے میں ان کی رائے اور معلومات بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اس سیمینارکے انعقاد سے سی پیک منصوبے کے بارے میں عوامی آگہی بڑھانے میں مدد ملے گی۔

عبدالسمیع شیخ ( سی ای او رفیع گروپ)

سی پیک منصوبہ طویل مدت اور پائیدار ترقی کا ضامن ہے ۔ رفیع گروپ 38سال کے وسیع تجربے کا حامل ہے جس نے گوادر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گرین پام ہاؤسنگ منصوبے کی بنیاد رکھی ہے۔ اس منصوبے میں جدید طرز رہائش کی تمام تر سہولیات مہیا کی جائیں گی ۔ سی پیک منصوبے سے بھرپور فوائد سمیٹنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انتہائی اہم ہے۔

سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی کیلئے ایک اہم موقع ہے۔ اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے کیلئے محکموں کی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بندرگاہوں کے کنارے پر آباد شہروں کو بین الاقوامی شہروں کی طرح ماسٹر پلاننگ کے لیے غیرملکی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ ہمیں سی پیک منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر تجارتی سامان کی نقل و حمل کو ممکن بنانے کے لیے روڈ انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ پورٹ کی استعداد بھی بڑھانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔