پاکستان میں کھیلوں کے عروج و زوال کی داستان

سعد ملک  منگل 28 مارچ 2017
کھیلوں کے شعبے میں بہتری کے لئے حکومت کو فوری طور پر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیلوں میں سفارش کلچر اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے میرٹ اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس

کھیلوں کے شعبے میں بہتری کے لئے حکومت کو فوری طور پر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیلوں میں سفارش کلچر اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے میرٹ اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس

کھیل کسی بھی صحت مند معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں مثبت رجحانات اور صحت مند مقابلے کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک کھیلوں کے شعبے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اِس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں پاکستان کے بغیر کھیلوں کا تصور ناممکن تھا اور ہم بیک وقت کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور اسنوکر کے عالمی چیمپئن تھے۔ لیکن موجودہ دور میں دہشت گردی اور سیاسی بحران نے جہاں تعلیم و صحت کے اداروں کو تباہ کیا ہے، وہیں اِس کا براہِ راست اثر کھیلوں کے شعبے پر بھی پڑا ہے اور ہم اِس میدان میں اقوام عالم سے بہت پیچھے رہ گئے۔

پاکستان میں چھوٹے بڑے 48 اقسام کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ بھی ہیں مگر کرکٹ کے علاوہ ہم کسی بھی کھیل میں ٹاپ 10 پوزیشن میں شامل نہیں ہیں۔ قومی کھیل ہاکی میں ہم 13ویں، اسکواش میں 20 ممالک کی فہرست میں 19ویں اور فٹ بال میں ہم 150ویں نمبر سے بھی نیچے ہیں۔

ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، جس کی زبوں حالی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اِس کی بہتری کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ہاکی میں پاکستان کی شرکت 16 اولمپکس میں رہی ہے جن میں سے 10 اولپمکس میں قومی ٹیم ابتدائی تین پوزیشن پر براجمان رہی ہے۔ یعنی 3 میں سونے، 3 میں چاندی اور چار اولمپکس میں کانسی کے ایوارڈ جیتے۔ لیکن المیہ دیکھیے کہ جس ٹیم نے ہمیشہ ہی حریفوں کو پریشان کیے رکھا، وہی ٹیم گزشتہ ریو اولمپکس میں کوالیفائی ہی نہ کرسکی۔

قومی کھیل کی بدحالی کی داستان میں تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ اپریل میں ہونے والے 26ویں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں پہلی دفعہ پاکستانی ٹیم کو شامل نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستانی ٹیم اِس ٹورنامنٹ میں 3 دفعہ چیمپئن اور 6 بار رنر اپ رہی ہے۔

ماضی میں قومی ٹیم نے 3 بار چیمپئنز ٹرافی، 8 بار ایشیئن گیمز، 3 بار ایشیاء کپ، 2 مرتبہ ایشیئن ہاکی چمپئین ٹرافی کے ٹائٹل میں گولڈ میڈلز اور بڑے مقابلوں کی تاریخ میں تقریباً 70 میڈلز اپنے نام کئے۔ عالمی ہاکی کی تاریخ صلاح الدین، رشید جونیئر، سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر، حسن سردار اور شہباز احمد جیسے مایہ ناز کھلاڑیوں کے بغیر آج بھی ادھوری ہے جنہوں نے طویل عرصہ تک ہاکی کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

ہاکی کے بعد اسکواش وہ کھیل ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد عالمی سطح پر ہماری پہچان بنا۔ ہاشم خان، روشن خان، جہانگیر خان، قمر زمان، رحمت خان اور جان شیر خان نے تین دہائیوں تک اسکواش کے میدان میں پاکستان کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ جہانگیر خان نے ورلڈ اوپن ریکارڈ دس مرتبہ جبکہ جان شیر خان نے آٹھ بار ورلڈ اوپن جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، مگر جیسے ہی یہ عہد ساز کھلاڑی عالمی اسکواش کے منظر سے غائب ہوئے، اسکواش کے دروازے پاکستان پر جیسے بند ہوگئے۔

پہلوانی برصغیر کا مقبول ترین کھیل رہا ہے جو سرکاری سطح پر عدم سرپرستی، کھیل میں گلیمر کی کمی اور کئی دیگر عوامل کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ صرف لاہور شہر میں 600 سے زائد اکھاڑے تھے، جہاں دس ہزار کے قریب نوجوان تربیت حاصل کیا کرتے تھے۔ بھولو برادران، یاسین شریف، حاجی افضل، ازل پہلوان اور کالا پہلوان کا نام آج بھی عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان مانا جاتا ہے۔

فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے لیکن پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ کے باوجود اِس کھیل کو وہ مقبولیت نہیں مل پائی جس کا حقدار یہ کھیل ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا قیام 5 دسمبر 1947ء کو عمل میں لایا گیا اور قائدِاعظم محمد علی جناح اِس کے چیف پیٹرن بنے۔ 70ء کی دہائی تک پاکستان نے فٹبال میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں فٹبال کا انفراسٹرکچر بالکل تباہ ہوگیا اور وہ ملک جو عالمی رینکنگ میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا 142ویں پوزیشن تک پہنچا تھا، اب 194 ویں پوزیشن پر جا ٹھہرا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شاذ و نادر ہونے والے دوستانہ میچز میں بھی معمولی ٹیمیں ہمیں ہرا دیتی ہیں۔ فیفا کی جانب سے ملنے والی اربوں روپے کی گرانٹ افسرانِ بالا کی کرپشن کی نذر ہوچکی ہے اور دوسری طرف پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور فٹبال فیڈریشن کے درمیان اقتدار کی جنگ نے ملک میں فٹبال کا مستقبل مزید تاریک کردیا ہے۔

اولمپکس میں پاکستان نے 14 بار باکسنگ میں شرکت کی لیکن محدود وسائل اور معیاری کوچز نہ ہونے کی وجہ سے کئی نامور باکسرز نے بہتر مستقبل کی خاطر ملک ہی چھوڑ دیا، جن میں اولمپک میڈلسٹ حسین شاہ، کامن ویلتھ گیمز گولڈ میڈلسٹ حیدر علی، عثمان اللہ اور عبد الرشید بلوچ شامل ہیں۔ 1994ء میں اسنوکر میں پہلی دفعہ محمد یوسف نے آئس لینڈ کے جانسن کونو، کو شکست دے کرورلڈ اسنوکر چیمپئن جیتی۔ اِس کے 18 سال بعد محمد آصف نے پاکستان کو دوسری دفعہ اسنوکر کا ورلڈ چیمپئن بنادیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اِس کھیل کی بہتری کے لئے مزید اقدامات کرنے کے بجائے کھلاڑیوں کے لئے اعلان کردہ انعامی رقم کا وعدہ بھی تاحال پورا نہیں کیا گیا۔

پاکستان اُن خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ملکی حالات ناساز ہونے کے باوجود ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گزشتہ سال آذربائیجان میں ہونے والے شطرنج کے عالمی مقابلے میں پاکستان نے پہلی مرتبہ حصہ لے کر کانسی کا تمغہ جیت لیا۔ اِسی طرح ٹینس کے اعصام الحق، ایتھلیٹکس کی نسیم حمید اور باڈی بلڈنگ کے عاطف انور نے بھی عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا لیکن بدقسمتی سے کھیلوں میں بے پناہ ٹیلنٹ کے باوجود پاکستان میں اُن کا مستقبل تاریک ہوتا جارہا ہے۔ اِس کے برعکس کرکٹ تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے دیگر کھیل نظر انداز کئے جارہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کرکٹ گیم آف جینٹلمین تھی، تب کرکٹ نان کمرشل تھی اِس لئے کرکٹرز معمولی معاوضے پر بھی بخوشی کھیل لیتے تھے۔

مگر آج کرکٹ، سیاست، شوبز، کاروبار اور جوا ایک دوسرے لئے لازم و ملزوم ہیں جو سرمایہ دارانہ کارپوریٹ دنیا کا برانڈ ہے۔ جسٹس قیوم ملک کی رپورٹ میں پاکستانی کرکٹ کے کئی سیاہ ابواب سے پردہ اٹھایا گیا۔ 2010ء میں بھی دورہ انگلینڈ کے دوران پاکستانی ٹیم کے تین اہم کھلاڑی کپتان سلمان بٹ، محمد عامر اور آصف اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے جس کی بدنامی کا داغ ابھی مٹنے نہیں پایا تھا کہ شرجیل خان، خالد لطیف، محمد عرفان اور شاہ زیب حسن نے پی ایس ایل میں میچ فکسنگ کرکے عالمی سطح پر ملک کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی۔ پی سی بی کے خزانے میں اِس وقت 10 ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے جو پی آئی اے، ریلویز اور اسٹیل ملز سمیت دیگر کئی اداروں سے زائد ہے۔

کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ورلڈ کپ میں پہلے راؤنڈ سے باہر ہوجانے کے بعد آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز میں بھی ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ میں گلیمر اور پیسے کی چکا چوند نے کھلاڑیوں کو اسپورٹس مین اسپرٹ اور پروفیشنل اپروچ سے دور کردیا ہے جو کہ ایک دور میں کرکٹ کی اصل پہچان اور شان رہا ہے۔ انگلینڈ کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی کرکٹ نہیں کھیلی جاتی کیوں کہ اِس میں وقت کا زیاں زیادہ اور ورزش کم ہے۔ اگر پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کرنا ہے تو دیگر کھیلوں کو بھی کرکٹ کے مساوی سہولیات اور حکومتی سرپرستی فراہم کرنا ہوگی۔

کھیلوں کے شعبے میں بہتری کے لئے حکومت کو فوری طور پر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیلوں میں سفارش کلچر اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے میرٹ اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ کھیلوں کی پالیسی پر نظرثانی کے لئے نالائق افسران اور وزیروں کے بجائے مستند کھلاڑیوں، عالمی سطح کے کوچز، کھیل سے متعلق دانشوروں اور عالمی تنظیموں کی مدد حاصل کرکے عالمی معیار کی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔ تمام صوبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن کے ذریعے کھیلوں کی ترویج اور ترقی کیلئے موثر اور جانداراقدامات کریں۔

پاکستان اسپورٹس بورڈ اور اولمپک ایسوسی ایشن صرف نام کے ادارے رہ گئے ہیں، انہیں فعال اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اکیڈمیاں قائم کی جائیں، کھلاڑیوں کے مسائل کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں جدید سہولیات فراہم کی جائیں، نئے اسپانسرز ڈھونڈے جائیں اور سرکاری اداروں بشمول اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کھیلوں کو لازمی حصہ بنایا جائے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے فروغ کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں کو قومی ہیروز کا درجہ دیا جائے۔

ہاکی کی ترویج کے لئے نئے اسٹیڈیم اور آسٹروٹرف فیلڈز بنائے جائیں، باکسنگ اور فٹبال کے لیے مشہور لیاری اور دیگر علاقوں میں نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے کیمپ لگائے جائیں۔ اسنوکر کے فروغ کے لیے اولمپکس ایسوسی ایشن کے ساتھ فوری الحاق کرایا جائے اور کھلاڑیوں کو اعلان کی گئی انعامی رقم کی ادائیگی کرکے اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کھلاڑیوں کو مراعات اور ترغیبات دینا بہت ضروری ہے تاکہ وہ دلجوئی کے ساتھ محنت کرتے ہوئے عالمی سطح پر ملک کی مثبت پہچان کا باعث بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔